خوابوں کے جزیرے

شبنم گل  بدھ 4 ستمبر 2013
shabnumg@yahoo.com

[email protected]

خواب دیکھنا ایک تعمیری عمل ہے۔ وہ لوگ جو زندگی کو جاننا چاہتے ہیں ان کے ذہنوں میں موجود تجسس انھیں تصوراتی دنیا میں لے جاتا ہے۔ تصور کی طاقت انسان کو خواب دیکھنے پر اکساتی ہے۔ خوابوں کی تمثیلیں و استعارے زندگی کی گہرائی میں لے کر جاتے ہیں۔ زندگی کی پرسکون سطح کے نیچے ایک ان دیکھی دنیا ہے، جس کی جڑیں تحت الشعور سے جڑی ہوئی ہیں۔ فرائڈ اور یونگ کے نزدیک خواب غیر شعوری عمل ہے، جب کہ ایک اور ماہر نفسیات جیفر ہلمین خوابوں کو روح کا تجربہ سمجھتا ہے۔ جب ہم خوابوں کو سمجھنے لگتے ہیں تو زندگی کے نئے رخ اور زاویے ہمارے سامنے آتے ہیں۔

قدیم تہذیبوں نے ہمیشہ خوابوں سے روحانی تحرک حاصل کیا۔ یونان، مصر اور چائنا میں خوابوں کے یہ مندر لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے تھے۔ لوگ خواب کے ان مندروں میں خاص مذہبی رسومات کے بعد ایک کمرے میں نیند کے دوران خوابوں سے بیماریوں کا علاج ڈھونڈ نکالتے۔ یونان میں چار سو کے قریب ایسے خواب کے مندر بنائے گئے تھے۔ افریقہ کے قدیم لوگ بھی خوابوں کی طاقت پر یقین رکھتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ نیند کے دوران روح جسم سے باہر چلی جاتی ہے اور وہ منظر خواب میں دکھائی دیتے ہیں۔ ایک اور قدیم تہذیب سنوئی کے نام سے ملائیشیا کے جنگلوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ لوگ روزانہ گروپ کی صورت میں ایک دوسرے سے اپنے خوابوں کو شیئر کرتے ہیں۔ خاص طور پر ناشتے کے دوران گھر کے افراد ایک دوسرے کو اپنے خوابوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔ گھر کے بڑے ان خوابوں کی تعبیر بتا کر اپنے بچوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ قبیلہ خوابوں کو اہمیت دینے کی وجہ سے ذہنی و روحانی طور پر بہت مضبوط اور مثبت رویوں کا حامل سمجھا جاتا ہے۔

سگمنڈ فرائڈ نے خوابوں پر تحقیق کر کے ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا۔ اس کا خیال تھا کہ خواب ہمارے ماضی کے تجربوں پر دارومدار رکھتے ہیں۔ ان کا ہمارے مستقبل سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ انسان کی تمام تر دبی ہوئی خواہشیں، خوف، سماجی ضابطے جو کہ لاشعور میں موجود ہیں، خوابوں کا روپ دھار لیتے ہیں۔ یہ خواب واضح طور پر ان خواہشوں کی نشاندہی نہیں کرتے بلکہ تمثیلی طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ فرائڈ کے نزدیک یہ خواب انسان کی دبی ہوئی جنسی خواہشوں کا اظہار ہیں۔ لیکن کارل گستاف (سی جی) یونگ نے یہ نظریہ پیش کیا کہ خواب حال کے تجربات و مشاہدات کا نچوڑ ہیں۔ جو مستقبل کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس کے نزدیک خواب انسان کی شخصیت کی تعمیر کا حصہ ہیں۔ فرائڈ اور یونگ نے مل کر خوابوں کا تجزیہ کیا مگر نظریاتی اختلافات کی وجہ سے ان کی دوستی عداوت میں بدل کے رہ گئی۔ یونگ فرائڈ کے اس خیال کی نفی کرتا ہے کہ خواب تمثیل کا حصہ ہیں۔ یونگ کے مطابق یہ خواب حقیقی ہیں۔ یونگ کا کہنا ہے کہ ’’خواب انسان کی اندرونی زندگی کے رازوں سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ جس کے ذریعے خواب دیکھنے والے شخص کی شخصیت کے مخفی زاویے سامنے آتے ہیں۔‘‘

بہت سے ماہرین نفسیات نے خوابوں کے بارے میں اپنے الگ نظریات پیش کیے ان میں کچھ نظریے انسانی زندگی کے حقائق کی ترجمانی کرتے ہیں۔ جس میں جیمزہلمین کا نام بھی قابل ذکر ہے۔ ہلمین کے مطابق خواب ہمیں گہرائی میں لے کر جاتے ہیں۔ ہم عام زندگی کے معاملات سے انہونی دریافتیں کرتے ہیں۔ اور وجود کے نظرانداز کیے گئے گوشوں سے رابطہ کرتے ہیں۔ اس کی نظر میں خواب روح کا تجربہ ہیں۔ ہلمین کو خواب شاعری کی طرح نرم و نازک دکھائی دیتے ہیں۔ شاعری جو تشریح سے زیادہ محسوس کرنے کی صنف ہے۔ شاعری کا تجزیہ کرنے کے بعد فقط تشریح رہ جاتی ہے اور شاعری کا جادو غائب ہو جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح یہ غلطی خواب کا تجزیہ کرنے میں دہرائی جاتی ہے۔ اس وقت ہم خواب کی پراسراریت اور اس کی اصل روح سے دور ہو جاتے ہیں۔ خواب کے اثر اور طاقت کی تبدیلی کو سمجھ نہیں پاتے۔ خواب کا خیال، تصور اور تجربہ ذہن جب جذب کر لیتا ہے تو تخلیق اور دریافت کے زاویے تشکیل پاتے ہیں۔ خیال کی یہ تصویریں روح کی غذا ہیں۔ ہلمین کا مطلب ہے کہ خواب کی خوبصورتی اور اس کے اصلی پیغام کو اگر محسوس کر لیا جائے، تو تخلیقی صلاحیتوں کو جلا مل سکتی ہے۔

تھیوری آف رلیٹیوٹی آئن انسٹائن کے خواب کا ردعمل تھی۔ کولرج نے شہرہ آفاق نظم ’’قبلائی خان‘‘ بھی خواب کے اس جادوئی اثر کے تحت لکھی تھی۔ انگریزی کے رومانوی شاعر ولیم بلیک کے مصوری کے اکثر فن پارے کے موضوع خواب سے دریافت ہوتے تھے۔ ولیم بلیک کا مسٹیسزم (تصوف) اس کے خوابوں کی دین تھا۔ وہ خواب جو وہ بچپن سے دیکھا کرتا تھا، جن میں روحانی تمثیلیں اس کی شاعری و مصوری کا موضوع بنے۔ بالکل اسی طرح مشرقی صوفی شاعر بھی اپنے خوابوں میں کئی ایسے منظر دیکھتے رہے ہیں جن سے انھیں روحانی تحرک حاصل ہوتا رہا ہے۔ انھیں روحانی خواب Psychic Dreams  کہا جاتا ہے۔ ایسے خواب زمان و مکان کی حد بندیوں سے ماورا ہوتے ہیں۔ یہ چھٹی حس، ادراک، وجدان، مستقبل کی پیش گوئی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ خواب روزمرہ کی زندگی کے دائرے سے باہر ہوتے ہیں۔ عام زندگی ماضی و حال کے اردگرد گھومتی ہے جو مستقبل سے بے خبر ہے۔

لیکن سائیکک ڈریمنگ کے توسط سے خواب دیکھنے والے کو الہامی کیفیت محسوس ہوتی ہے جن کی وجہ سے وہ مستقبل میں جھانک کے دیکھ سکتا ہے۔ خواب دیکھتے وقت اگر اس عمل کو محسوس کیا جائے تو اس کیفیت کو Lucid Dreaming  کہا جاتا ہے یہ شفاف و تاباں خواب ہیں جو خود آگہی کی روشنی سے منور ہیں۔ خواب دیکھنے والے کو اپنے خوابوں کے ماحول پر عبور حاصل ہوتا ہے۔ وہ جو کام زندگی میں کرنا چاہتا ہے اس خواہش کو خواب میں پایہ تکمیل تک پہنچتے دیکھ لیتا ہے۔ جیسے خواب میں خود کو اڑتے دیکھنا۔ یا اپنی پسند کی سرگرمیوں یا ماحول کو شعوری طور پر خواب میں دیکھنے سے انسان کو تسکین کا احساس ہوتا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بار بار ایک جیسی صورت حال خواب میں دیکھتے رہنے سے وہ زندگی میں حقیقت کا روپ دھار لیتی ہے۔سونے کے عمل کے چار مرحلے بتائے جاتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں ہم نیند کی وادی میں داخل ہو جاتے ہیں۔

دوسرے مرحلے کو NREM کا نام دیا جاتا ہے جو دن بھر جسم کے مدافعتی نظام کے انتشار کو اس لمحے میں تازگی عطا کرتا ہے۔ تیسرا مرحلہ گہری نیند کی طرف جانے کا ہے۔ چوتھا مرحلہ جسے Rapid Eye Movement REM کہا جاتا ہے ۔ اس مرحلے کے شروع ہوتے ہی بلڈ پریشر و دل کی دھڑکنیں بڑھ جاتی ہیں۔ اور خواب دیکھنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ بہت سارے لوگ خواب نہیں دیکھتے۔ جس کی وجہ بے خوابی، ڈپریشن، اینگزائٹی، مینوپاز، جسم کو صحیح غذا کا نہ ملنا، خواب آور دواؤں کا استعمال، ڈرگس، تخلیقی سرگرمیوں کی کمی وغیرہ شامل ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ جو لوگ خواب نہیں دیکھتے ان کی زندگی میں خوشی و تحرک کی کمی پائی جاتی ہے۔ ذہن کے دو حصے کہلاتے ہیں جنھیں دائیں و بائیں طرف کے ذہن کہا جاتا ہے۔ خواب دائیں ذہن سے تعلق رکھتے ہیں۔ دائیں طرف کا ذہن تصور و خواب کے قریب تر ہے، جب کہ بایاں وہی منطق، ترتیب، زبان و تجزیے کا مرکب ہے۔ خواب کے موضوع بھی دائیں ذہن میں ترتیب پاتے ہیں۔ دن میں دیکھے جانے والے کھلی آنکھوں کے خواب بھی دائیں ذہن کی تخلیق ہوتے ہیں، جنھیں کارل یونگ فعال تصور کا نام دیتا ہے۔

ڈراؤنے خواب اکثر بچوں و بڑوں کی رات کی نیند خراب کر دیتے ہیں۔ خوابوں کو آڈیو بلاسٹک کہا جاتا ہے جو ہماری خواہشوں و خیالات کا ردعمل کہلاتے ہیں۔ ان ڈراؤنے خوابوں کے حصار سے نکلا جا سکتا ہے۔ جہاں خواب دیکھنے والا کسی مصیبت کے شکنجے سے نکلنے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیتا ہے۔ خواب میں خود کو مظلوم، مصیبت زدہ دیکھنے کا تصور بدلا جا سکتا ہے۔ اگر ذہن میں خوابوں کے ماحول کو تبدیل کرنے کا سوچ لیا جائے تو خواب بھی مثبت تبدیلی کے زیر اثر تصویر کا نیا رخ دکھا سکتے ہیں۔ کیونکہ سوچ ایک طاقت ہے۔ ذہن کو اگر سوچ پر مرکوز رکھا جائے تو حالات و واقعات بھی سوچ کے رخ کے مطابق بدلنے لگتے ہیں۔ یہ خواب ہی ہیں جو خیال کو عمل کی طاقت عطا کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔