45 کلومیٹر کی دوری سے واضح ترین تصویر لینے والا کیمرا

ندیم سبحان میو  اتوار 23 جون 2019

چینی سائنس دانوں نے ایک ایسی حیران کُن کیمرا ٹیکنالوجی وضع کرلی ہے جس کی مدد سے 28 میل ( 45 کلومیٹر) کی دوری سے انسان یا اس کے مساوی جسامت رکھنے والی اشیاء کی واضح تصویر کھینچی جاسکتی ہے۔

اوپن سورس جرنل ArXiv میں شایع شدہ ریسرچ پیپر میں محقق ژینگ پنگ لی کہتے ہیں کہ ہدف کی واضح ترین تصویر کھینچنے میں دھند یا فضائی آلودگی کی دیگر اقسام بھی رکاوٹ نہیں بن سکتیں۔ ان کا توڑ کرنے کے لیے اس جدید کیمرا ٹیکنالوجی کو لیزر امیجنگ اور مصنوعی ذہانت کے حامل سوفٹ ویئر کا ساتھ فراہم کردیا گیا ہے۔

یہ ٹیکنالوجی ’ لائٹ ڈٹیکشن اینڈ رینجنگ ‘ ( LIDAR ) کہلاتی ہے۔ اگرچہ ماضی میں کئی کیمروں اور امیجنگ تیکنیکوں میں اس ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاچکا ہے مگر ژینک پنگ کہتے ہیں کہ انھوں نے ایک نئے سوفٹ ویئر کی مدد سے اس ٹیکنالوجی کو نئی بلندیوں پر پہنچادیا ہے جس کے بعد اس کا دائرہ کار 45 کلومیٹر تک وسیع ہوگیا ہے اور یہ ٹیکنالوجی کیمرے اور ہدف کے درمیان حائل ہونے والی رکاوٹوں ( دُھند اور آلودگی) پر بھی قابو پانے کے قابل ہوگئی ہے۔

ژینگ لی کے مطابق ہدف اور کیمرے کے درمیان در آنے والی رکاوٹوں پر قابو پانے کی تیکنیک ’’gating ‘‘ کہلاتی ہے۔ اس تیکنیک میں سوفٹ ویئر کیمرے اور ہدف کے درمیان دیگر اشیاء سے منعکس ہونے والے فوٹانوں کو نظرانداز کردیتا ہے۔ ہدف اور دیگر اشیاء سے منعکس شدہ فوٹانوں میں تمیز کرنے کے لیے کیمرا لیزر سے کام لیتا ہے۔ لیزر کی مدد سے یہ تعین ہوجاتا ہے کہ ہدف سے منعکس ہوکر کیمرے تک پہنچنے میں روشنی کتنا وقت لے رہی ہے۔ اس کی بنیاد پر سوفٹ ویئر کیمرے کو ناپسندیدہ فوٹانز سے صرف نظر کرنے کے قابل کردیتا ہے۔

میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے موقر سائنسی جریدے ’ ایم آئی ٹی ٹیکنالوجی ریویو‘ میں شایع شدہ چینی تحقیق کی جائزہ رپورٹ کے مطابق کیمرا1550 نینومیٹر طول موج کی انفرا ریڈ شعاعوں سے کام لیتا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف کیمرا محفوظ رہتا ہے بلکہ اس طول موج کی شعاعیں اس انسان کی آنکھوں کے لیے بھی بے ضرر ہیں جس کی تصویر کھینچی جارہی ہے۔ انفراریڈ ریز کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ یہ شعاعیں شمسی فوٹانوں سے تصویر کی حفاظت کرتی ہیں جو بعض اوقات کیمرے کی ریزولوشن کے ساتھ ’ چھیڑ چھاڑ‘ پر مُصر ہوجاتے ہیں۔

چینی محقق کی وضع کی گئی ٹیکنالوجی اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ اس میں کیمرے کے ذریعے حاصل کیے گئے بصری ڈیٹا کو باہم مربوط کرکے ایک شبیہہ تشکیل دینے کے لیے نئے الگورتھم کا استعمال کیا گیا ہے۔

ژینگ لی کے مطابق ان کی وضع کردہ ٹیکنالوجی کے وسیع استعمالات سامنے آئیں گے مگر اس کی سب سے زیادہ افادیت جاسوسی، نگرانی اور ریموٹ سینسنگ کے شعبوں کے لیے ہوگی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس جدید کیمرے کی جسامت جوتے کے ڈبے کے مساوی ہے چناں چہ اسے چھوٹے ہوائی جہاز یا خودکار گاڑیوں میں بہ آسانی نصب کیا جاسکے گا۔

چہروں کی شناخت (فیشیئل ریکگنیشن) کی ٹیکنالوجی پر چین میں سب سے زیادہ تحقیق ہورہی ہے۔ ژینگ لی کی ٹیکنالوجی کا ایک اور اہم استعمال انسانی نگرانی کے لیے ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔