بجٹ 2019-20 تھا جس کا انتظار وہی وار ہوگیا

سید بابر علی  اتوار 23 جون 2019
میزانیہ عوام کے لیے مزید پریشانیاں اور مصائب لایا ہے

میزانیہ عوام کے لیے مزید پریشانیاں اور مصائب لایا ہے

وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے گیارہ جون کو مالی سال 2019-20 کے لیے 8238اعشاریہ1ارب روپے اخراجات کا بجٹ پیش کردیا ہے، جو کہ گذشتہ مالی سال کی نسبت38اعشاریہ9 فی صد زائد ہے۔

ہمیشہ کی طرح اس سال بھی ہندسوں کی مدد سے خوب صورت پیکنگ میں3560 ارب خسارے کا ایسا بجٹ پیش کیا گیا ہے جو عوام کے لیے منہگائی ہی کا تحفہ لائے گا، اور عوام جلد ہی اس ’ عوام دوست‘ بجٹ کی منہگائی سے لطف اندوز ہونا شروع کردیں گے۔

اس سال کے بجٹ کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس میں دفاعی بجٹ کو گذشتہ مالی میں مختص کی گئی رقم 1152 پر ہی برقرار رکھا گیا ہے۔ مالی سال 2018-19 کے بجٹ میں دفاع کے بجٹ میں ساڑھے انیس فی صد اضافے کے ساتھ ایک کھرب اسی ارب روپے کا اضافہ کیا گیا تھا۔ تاہم اب بھی یہ رقم تعلیم اور صحت کے لیے رکھی گئی رقم سے زیادہ ہے۔ آئندہ مالی سال کے لیے وسائل کی دست یابی کا تخمینہ7899اعشاریہ 1ارب روپے رکھا ہے ، جب کہ مالی سال 2018-19میں یہ 4917اعشاریہ2  ارب روپے تھا۔ مالی سال 2019-20 کے لیے وفاقی محصولات کا ہدف گذشتہ مالی سال کی نسبت19فی صد زائد رکھا گیا ہے۔ مجموعی طور پر67 کھرب 17 ارب روپے کے محصولات ہوں گے۔

وفاقی محصولات میں صوبوں کے حصے کا تخمینہ 3254 اعشاریہ 5 ارب روپے رکھا گیا ہے جو کہ گذشتہ مالی سال کی نسبت 25 اعشاریہ7 فی صد زائد ہے، جب کہ وفاقی ادارہ برائے ریونیو (ایف بی آر) کو ٹیکس وصولی کے لیے 5550 ارب روپے کا ہدف دیا گیا ہے۔ محصولات کی وصولی کے لیے صوبوں کا حصہ 3254 اعشاریہ 526 ملین روپے رکھا گیا ہے، جو کہ گذشتہ مالی سال کے نظرثانی شدہ اندازے سے 32 اعشاریہ 2فی صد زائد ہے۔ آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ خسارے کا تخمینہ گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ (جی ڈی پی ) کا 7اعشاریہ2  فی صد رکھا گیا ہے۔

عوامی خدمات کی ترقی (پی ایس ڈی پی) کے لیے 1613 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جن میں سے 912ارب روپے صوبوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ مالی سال 2019-20 میں ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت صوبوں میں گذشتہ سال کی نسبت 32فی صد زائد رقم تقسیم کی جائے گی جو کہ 3255 ارب روپے ہے ۔ آئندہ مالی سال میں نیٹ وفاقی ذخائر 3462 اعشاریہ ایک ارب تک پہنچنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جو کہ مالی سال 2018-19 سے12اعشاریہ 80فی صد زائد ہے۔ مالی سال 2019-20 میں مجموعی اخراجات کا اندازہ 8238اعشاریہ 1 ارب روپے لگایا گیا ہے، موجودہ اخراجات  7288اعشاریہ 1ارب روپے ہیں۔ آئندہ بجٹ میں عوامی خدماتی شعبے میں اخراجات کا تخمینہ  5,607ارب روپے لگایا گیا ہے ، جو کہ موجودہ اخراجات کا 76اعشاریہ9فی صد ہے۔ پی ایس ڈی پی کے علاوہ ترقیاتی اخراجات کے لیے پی ایس ڈی پی کے علاوہ 85اعشاریہ 8ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اعداد و شمار کے اس گورکھ دھندے کے عوام اور کاروباری طبقے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، بجٹ کے اہم نکات کے ساتھ اس کی مختصر تفصیل قارئین کی آگاہی کے لیے پیش کی جارہی ہے۔

٭ تمباکونوشوں اور میٹھے کے شوقین افراد کے لیے بُری خبر

آئندہ بجٹ میں سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھا دی گئی ہے۔ ایف ای ڈی کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے، بالائی درجے میں دس ہزار سگریٹ پر ڈیوٹی کی شرح ساڑھے چار ہزار سے بڑھا کر 5200 روپے کردی گئی ہے، اور زیریں سلیب پردس ہزار سگریٹ پر 1650 روپے کے لحاظ سے ٹیکس عائد کیا گیا ہے، جب کہ چینی پر سیلز ٹیکس کی شرح کو 17فی صد کر دیا گیا ہے ، اس سے پہلے شکر پر چھے فی صد سیلز ٹیکس لاگو تھا۔

٭ایل این جی پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی

آئندہ بجٹ میں لیکویڈ نائٹروجن گیس (ایل این جی) کی درآمد پر عائد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو17 اعشاریہ 18 روپے فی مکعب فٹ سے بڑھا کر مقامی گیس کے برابر 10 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔

٭ صحت کے شعبے پر ایک اور ضرب

مالی سال 2019-20میں صحت کے شعبے کے شعبے پر ایک اور ضرب لگائی گئی۔ آئندہ مالی سال میں صحت کے لیے مختص رقم میں دو ارب 75کروڑ روپے کی کمی کردی گئی۔ مالی سال2018-19میں صحت کے لیے 13 ارب 89 کروڑ 70 لاکھ روپے رکھے گئے تھے، لیکن نئے مالی سال میں صحت کا بجٹ 11 ارب 5 کروڑ80 لاکھ کردیا گیا ہے، جب کہ اسپتال کی خدمات کے لیے مختص بجٹ میں بھی 3 ارب روپے کی کٹوتی کردی گئی ہے۔ گذشتہ مالی سال میں اسپتال کی خدمات کا بجٹ 11 ارب 65 کروڑ روپے تھا جسے مزید کم کرکے 8 ارب 70 کروڑ روپے کردیا گیا۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں پہلے ہی صحت کا شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے، صحت کے بجٹ میں کٹوتی غریب عوام کے مصائب میں مزید اضافے کا سبب بنے گی۔

٭ درآمدی گاڑیاں سستی، مقامی گاڑیاں منہگی

نئے بجٹ میں مقامی طور پر تیار ہونے والی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کردی گئی ہے، جس کے بعد ایک ہزار سی سی تک انجن والی گاڑیوں پر ڈھائی فی صد، ایک ہزار سے دو ہزار سی سی طاقت کا انجن رکھنے والی گاڑیوں پر 5 فی صد اور دو ہزار سی سی سے زائد طاقت کا انجن رکھنے والی مقامی گاڑیوں پر ساڑھے سات فی صد کے حساب سے ڈیوٹی وصول کی جائے گی ، جب کہ بجٹ  2019-20 میں بیرون ملک سے درآمد ہونے والی گاڑیوں کی درآمد پر ٹیکس میں رعایت دینے کا عندیہ دیا گیا ہے۔

٭ ’’سخاوت‘‘ کی انتہا، تنخواہ، پینشن اور کم سے کم اُجرت میں اضافہ

مالی سال 2019-20میں کم از کم تنخواہ کو بڑھا کر 17ہزار500 کرنے کی تجویز دی گئی ہے، وزیرمملکت برائے ریونیو حماد اظہر کے مطابق گریڈ 21 اور 22 کے ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ تاہم گریڈ 1 سے 16 کے ملازمین کے لیے ایڈ ہاک کی مد میں 10 فی صد اور گریڈ 17 سے 20 کے ملازمین کے لیے ایڈ ہاک کی مد میں 5 فی صد اضافہ کیا جائے گا، جب کہ وفاقی کابینہ اور وزیراعظم کی تنخواہ میں دس فی صد کمی کی جائے گی۔ آئندہ بجٹ میں پینشن میں دس فی صد اضافہ بھی کیا گیا ہے۔

وزیرمملکت نے عام سرکاری ملازمین کی تن خواہوں میں آٹے میں نمک کے برابر اضافہ کیا، جب کہ پرائیویٹ اور اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکریٹریوں کی خصوصی تن خواہ میں کئی گنا اضافے کا اعلان کیا۔ یہ خاص افراد خصوصی تن خواہ کی مد میں پہلے ہی بہت زیادہ مراعات حاصل کر رہے تھے۔ اسی طرح پینشن کے معاملات میں بھی عوام اور خواص میں امتیاز روا رکھا گیا۔ آئندہ بجٹ میں کم اُجرت پانے والے افراد کی ماہانہ اُجرت ڈھائی ہزار کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ملک میں ہونے والی منہگائی کے تناسب کو دیکھتے ہوئے ڈھائی ہزار روپے کا اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ یہ معمولی سا اضافہ تنخواہ دار ملازمین کی اور غیرسرکاری ملازمین کے طرز زندگی پر مثبت اثرات کرنے میں ناکام رہے گا۔

٭ وزارت برائے غربت مٹاؤ

آئندہ مالی سال میں غربت کے خاتمے کے لیے ایک نئی وزارت کا قیام عمل میں لانے کا اعلان بھی کیا گیا ہے جس کے تحت دس لاکھ شہریوں کو علاج معالجے کی سہولت کے لیے خصوصی صحت کارڈ اور عمر رسیدہ افراد کے لیے احساس گھر پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ آئندہ مالی سال میں معذور افراد کو وہیل چیئرز اور خصوصی آلات دینے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔

٭توانائی کا بحران، ترقیاتی بجٹ اور حکومتی اخراجات میں کمی

بجٹ 2019-20 میں حکومتی اخراجات میں کمی کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے جس پر عمل درآمد کرتے ہوئے 23 ارب کی بچت کی جا سکے گی۔ حکومت کے اخراجات میں کمی کر کے اسے 460 ارب سے 437 ارب تک لایا جائے گا۔

بجٹ میں توانائی کے شعبے کو خاص ترجیح دیتے ہوئے حکومت نے گذشتہ سال کی نسبت زائد رقم مختص کی ہے۔ توانائی کے لیے 80 ارب روپے کی رقم مختص کرنے کی تجویز ہے، 15 ارب روپے دیامر بھاشا ڈیم، 55 ارب روپے داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور 20 ارب مہمند ڈیم کی زمین کے حصول کے لیے خرچ کیے جائیں گے۔ اس ترقیاتی بجٹ میں سے 950 ارب روپے وفاق خرچ کرے گا۔ اتفاقِ رائے نہ ہونے کی وجہ سے اس سال بھی کالا باغ ڈیم کے لیے کوئی رقم مختص نہیں کی جاسکی۔

تاہم عوام کو لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے کیے گئے گذشہ وعدوں کی طرح اس وعدے کے وفا ہونے کی بھی کچھ زیادہ امید نہیں ہے۔ مالی سال 19-2018 کے ترقیاتی بجٹ میں حکومت نے صحت، تعلیم، غدائیت، پینے کے صاف پانی کے لیے 1863 ارب روپے مختص  کیے گئے ہیں، جس میں پانی کے نظام، بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے نظام کو بہتر بنانے، پن بجلی سے کم لاگت بجلی کی پیداوار، انسانی ترقی اور کم آمدن والے افراد کو سستے گھر بنا کر دینے کے منصوبے شامل ہیں۔ شاہراؤں کی تعمیر کے لیے 200 ارب روپے رکھے گئے ہیں جن میں سے 156 ارب روپے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ذریعے خرچ کیے جائیں گے، جب کہ حویلیاں سے تھاکوٹ شاہراہ کے لیے 24 ارب روپے، برہان تا ہکلا موٹر وے کے لیے 13ارب روپے، کراچی تا سکھر موٹر وے اور ملتان سیکشن کے لیے 19 روپے مختص کیے گئے ہیں۔

مالی سال 2019-20میں خضدارشہداد کوٹ موٹرویم 230 کلومیٹر طویل لاہور تا ملتان موٹروے، 62 کلومیٹر لمبی گوجرہ تا شورکوٹ موٹروے، 64 کلومیٹر لمبی شورکوٹ تا خانیوال موٹروے،91 کلومیٹر طویل سیالکوٹ تا لاہور موٹروے اور 57 کلومیٹر طویل ہزارہ موٹروے کی تعمیر کے لیے 310 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ بجٹ 2019-20میں کوئٹہ اور کراچی کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے بھی رقم مختص کی گئی ہے کوئٹہ ڈیولپمنٹ پیکیج کے دوسرے مرحلے کے لیے دس ارب چالیس کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں یہ رقم پانی اور سڑکوں کے لیے جاری تیس ارب روپے کے وفاقی منصوبوں کے علاوہ ہے۔ کراچی کے نو ترقیاتی منصوبوں کے لیے 45ارب50کروڑ روپے فراہم کیے جائیں گے ۔

٭ تنخواہ دار طبقے کے سر پر لٹکتی ٹیکس کی تلوار

بجٹ  2019-20 میں چھے لاکھ روپے سالانہ سے کم آمدن والے تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس سے مستثنی قرار دیا گیا ہے۔ اس سے قبل بارہ لاکھ روپے سالانہ تک کی آمدن کو ٹیکس سے استثنا حاصل تھا۔ چھے لاکھ روپے سالانہ سے زائد اور بارہ لاکھ روپے سے کم آمدن پر 5 فی صد، 12 لاکھ روپے سالانہ سے 18 لاکھ روپے کی تن خواہ پر 30 ہزار روپے اور 12 لاکھ روپے سے زائد رقم پر 10 فیصد اضافی انکم ٹیکس، 18 لاکھ روپے سالانہ سے زائد اور 25 لاکھ روپے تک تنخواہ پر 90 ہزار روپے اور 18 لاکھ روپے سے زائد رقم پر 15 فیصد انکم ٹیکس، 25 لاکھ روپے سالانہ سے زائد اور 35 لاکھ روپے تک تن خواہ حاصل کرنے والے پر ایک لاکھ روپے اور 25 لاکھ روپے سے زائد رقم پر ساڑھے سترہ فی صد انکم ٹیکس وصول کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

35 لاکھ روپے سے 50 لاکھ روپے سالانہ تک تنخواہ لینے پر شخص کو 3 لاکھ 70 ہزار روپے اور 35 لاکھ روپے سے زائد رقم پر 20 فی صد، 50 لاکھ روپے سے 80 لاکھ روپے سے سالانہ تک تنخواہ پر 6 لاکھ 70 ہزار روپے اور 50 لاکھ روپے سے رقم پر ساڑھے 22  فی صد، 80 لاکھ روپے سے ایک کروڑ 20 لاکھ روپے سالانہ تک تن خواہ پر 13 لاکھ 45 ہزار روپے اور 80 لاکھ روپے سے زائد رقم پر 25 فی صد، ایک کروڑ 20 لاکھ روپے سے 3 کروڑ روپے سالانہ تک تن خواہ پر 23 لاکھ 45 ہزار روپے اور ایک کروڑ 20 لاکھ روپے سے زائد رقم پر ساڑھے 27 فی صد، 3 کروڑ روپے سے 5 کروڑ روپے سالانہ تک تنخواہ پر متعلقہ شخص سے 72 لاکھ 95 ہزار روپے اور 3 کروڑ روپے سے زائد رقم پر اضافی 30 فی صد انکم ٹیکس وصول کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

5 کروڑ روپے سے 7 کروڑ 50 لاکھ روپے سالانہ تنخواہ پر ایک کروڑ 32 لاکھ 95 ہزار روپے اور 5 کروڑ روپے سے زائد رقم پر ساڑھے 32 فی صد اور 7 کروڑ 50 لاکھ روپے سے زائد آمدن والے فرد پر 2 کروڑ 14 لاکھ 20 ہزار روپے ٹیکس اور 7 کروڑ 50 لاکھ روپے سے زائد کی رقم پر 35 فی صد اضافی ٹیکس وصول کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ یاد رہے کہ فنانس ایکٹ 2018 میں تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس کی شرح میں نمایاں کمی کی گئی تھی، جب کہ اس سے قبل ابل ٹیکس آمدن کی کم ازکم حد 4 لاکھ روپے تھی، جسے بڑھا کر 12 لاکھ روپے کردیا گیا تھا جس کے نتیجے میں محصولات کی مد میں 80 ارب روپے کا نقصان ہوا۔

٭زرعی شعبے پر خصوصی توجہ

بجٹ  2019-20میں زرعی شعبے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ وفاقی ترقیاتی بجٹ میں زراعت کے لیے 1200 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی، لیکن اس شعبے سے ہونے والی آمد ن کو ٹیکس کے دائرہ کار میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ اس رقم سے کسانوں کو ٹیوب ویل اور نہری اور بارانی زرعی اراضی رکھنے والے کاشت کاروں کو ترجیحی بنیادوں پر قرضے دیے جائیں گے۔

وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر کے مطابق رواں سال زرعی شعبے میں 4 اعشاریہ 4فی صد کمی ہوئی، جسے دوبارہ اوپر لانے کے لیے صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے 280 ارب روپے کا ایک 5 سالہ پروگرام شروع کیا جارہا ہے، جس کے تحت پانی سے زیادہ سے زیادہ پیداوار کے لیے پانی کے نظام کو بہتر بنایا جائے گا، جس کے لیے 218 ارب روپے کے منصوبوں پر کام شروع کیا جائے گا جب کہ چاول، مکئی، گندم، گنا اور فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کے لیے 44 ارب 80کروڑ روپے فراہم کیے جائیں گے۔ کیکڑے اور ٹراؤٹ مچھلی کی فارمنگ کے منصوبوں کے لیے 9 ارب 30کروڑ روپے، گلہ بانی کے لیے 5 ارب 60کروڑ روپے فراہم کر نے کے ساتھ ساتھ زرعی ٹیوب ویلوں پر بجلی 6 روپے 85 روپے فی یونٹ کے رعایتی نرخ پر فراہم کی جائے گی ۔

٭خواتین کے لیے بُری خبر

بجٹ  2019-20کو کسی صورت خواتین کے لیے خوش آئند قرار نہیں دیا جاسکتا، کیوں کہ حکومت نے کاسمیٹکس اور آرائش حسن کی دیگر مصنوعات پر ٹیکس کی مد میں اضافہ کردیا ہے۔ بننا سنورنا خواتین کا فطری حق ہے۔ تاہم نئے بجٹ کے بعد اب انہیں اپنے حسن کے نکھار کے لیے گھریلو بجٹ میں بھی اضافہ کرنا پڑے گا۔ حکومت سے اس فیصلے سے مشکلات کا شکار پاکستان کی کاسمیٹک انڈسٹری مزید مشکلات میں گھِر جائے گی۔ پاکستان میں بننے والی بیوٹی پراڈکٹس پر لاگو سیلز ٹیکس لیوی اور ڈیوٹی کی وجہ سے خواتین بھارت، چین اور دنیا کے دیگر ممالک سے اسمگل ہوکر آنے والے کم قیمت مصنوعات زیادہ خریدتی ہیں۔ حالیہ ٹیکس سے پاکستان کی کاسمیٹک انڈسٹری مزید مشکلات کا شکار ہوجائے گی۔

٭ سود کی ادائیگیاں

آئندہ مالی سال کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ سود کی ادائیگی کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ مالی سال  2019-20کے بجٹ میں2891 اعشاریہ4 ارب روپے حکومت کی جانب سے لیے گئے بین الاقوامی قرضوں کے سود کی ادائیگی پر خرچ ہوں گے۔  اور اگر فیڈرل بورڈ آف ریونیو اگلے مالی سال کے لیے ٹیکس جمع کرنے کا ہدف پورا کرنے میں ناکام رہا تو پھر حکومت کو اگلے مالی سال کے اخراجات کے لیے بینکوں سے لیے گئے قرضوں پر ہی گزرا کرنا پڑے گا۔

٭بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بجٹ میں اضافہ

بجٹ  2019-20میں بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ کی رقم 180 ارب روپے کردی گئی ہے۔ اس اسکیم سے پہلے 50لاکھ لوگ مستفید ہورہے تھے، اب مزید اس منصوبے سے فائدہ اٹھائیں گے، جب کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا وظیفہ بڑھا کر 5500 روپے کرنے کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔

٭اشیائے خورونوش منہگی اور موبائل فون سستا!!

مالی سال 2019-20میں کھانے کے تیل پر ٹیکس کی شرح کو 17 فی صد کر دیا گیا، جب کہ موبائل فون کی درآمد پر عائد تین فی صد ویلیو ایڈیشن ٹیکس کو ختم کردیا گیا ہے جس سے موبائل فون کی قیمتوں میں کمی واقع ہو گی۔ نئے مالی سال میں عوام الناس کی روزمرہ کی اشیائے ضروریہ منرل واٹر، پیک دودھ دہی، پنیر، فلیورڈ ملک، مشروبات اور دیسی گھی پر ٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی لگا کر مزید منہگا کردیا گیا ہے۔ آئندہ بجٹ میں بیکری مصنوعات پر ٹیکس میں کمی اور خوردنی تیل، گھی پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو بڑھا کر 17فی صد کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے، اور ویلیو ایڈیشن ٹیکس کے بدلے میں اس پر لاگو ایک روپیہ فی کلو ٹیکس کے خاتمے اور خوردنی بیجوں پر ٹیکس رعایت کو ختم کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ جب کہ خشک دودھ، پنیر، کریم پر 10 فیصد درآمدی ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔

٭سیمنٹ کی فی بوری قیمت میں اضافہ

بجٹ میں سیمنٹ کی فی بوری پر 2 روپے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس سے قبل سیمنٹ پر فی کلو ڈیڑھ روپیہ فی کلو ایکسائز ڈیوٹی نافذ تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔