پاکستانی وی لاگ۔۔۔ گالی گفتار اور بھونڈے انداز

زنیرہ ضیاء  اتوار 23 جون 2019
ویوز اور لائکس بڑھانے کے لیے ہر بے ہودگی کا سہارا لیا جارہا ہے

ویوز اور لائکس بڑھانے کے لیے ہر بے ہودگی کا سہارا لیا جارہا ہے

محلے میں نوجوانوں کے درمیان ہونے والی لڑائی اور گالم گلوچ تو بہت دیکھی ہے، اور کھڑکی میں کھڑے ہوکر نوجوانوں کا ایک دوسرے کو گریبان سے پکڑ کر پٹخا دینے کا مزہ بھی بہت لیا ہے؛ لیکن یہ ڈیجیٹل لڑائی پہلی بار دیکھی ہے جہاں نوجوان کام تو وہی محلے والا کررہے ہیں لیکن ذرا ماڈرن انداز سے۔

میں بات کر رہی ہوں یوٹیوب کی، جہاں پاکستانی نوجوان آج کل ایک دوسرے سے دست بہ گریباں ہیں اور مجھ سمیت پورا پاکستان اس لڑائی کا بالکل اُسی طرح مزہ لے رہا ہے جیسے کبھی کھڑکی میں کھڑے ہوکر محلے کے نوجوانوں کی لڑائی کا لطف لیا جاتا تھا۔ غضب خدا کا! یوٹیوب نہ ہوئی، اکھاڑے کا میدان ہوگیا، جسے دیکھو کسی نہ کسی کے ساتھ کسی نہ کسی لڑائی میں مصروف ہے۔

ویسے تو یوٹیوب کے لیے ہمیں گوگل کا شکرگزار ہونا چاہیے لیکن کیا کریں کہ جب سے پاکستان میں ’’یوٹیوب مونیٹائزیشن‘‘ یعنی یوٹیوب سے پیسہ کمانے کی ہوا چلی ہے، تب سے یہی مفید ایجاد ہمارے پاکستانی ’’وی لاگرز‘‘ (Vloggers) یا ’’ولاگرز‘‘ کے ہاتھوں ایسی بن کر رہ گئی ہے جیسے بندر کے ہاتھ ناریل لگ گیا ہو۔ جسے دیکھو بے تکی اور بے مقصد ویڈیوز بنا بنا کر یوٹیوب پر ڈال رہا ہے اور کم و بیش ہر ویڈیو میں ’’سبسکرائب کریں اور لائک کریں‘‘ کی فرمائش بھی کررہا ہے۔ فارغ نوجوانوں کی تو گویا عید ہوگئی۔ کوئی اور کام نہیں آتا تو کوئی بات نہیں، چلو ویڈیو/ وی لاگ ہی بنالیتے ہیں! کچھ ویڈیوز تو اتنی اوٹ پٹانگ بلکہ واہیات حرکتوں سے بھری پڑی ہیں کہ دیکھ کر سر پیٹنے کو دل کرتا ہے، لیکن کیا کریں کہ ویڈیوز بنانے والوں کی طرح ہم بھی فارغ… چلو بھئی دیکھ ہی لیتے ہیں!

لیکن آخر کہاں تک ہم یہ اوٹ پٹانگ حرکتیں دیکھ سکتے تھے، لہٰذا ہم نے کان پکڑے اور پیچھے ہٹ گئے۔ البتہ ہمارے ’’ولاگرز‘‘ پیچھے نہیں ہٹے اور انہوں نے مقبول سے مقبول تر ہونے اور یوٹیوب سے زیادہ سے زیادہ مال بنانے کے چکر میں بیہودہ گفتگو اور ذومعنی جملوں پر مبنی ویڈیوز بنانی شروع کردیں۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ یہ ولاگرز اخلاقیات کی تمام حدیں پھلانگتے جارہے ہیں اور انہیں روکنے والا کوئی نہیں۔ جب یوٹیوب کھولو وہی منظر سامنے آجاتا ہے جہاں ولاگرز ’’روسٹنگ‘‘ کے نام پر ایک دوسرے کی پول پٹیاں کھولنے اور ایک دوسرے کو رگڑا دینے میں مصروف ہوتے ہیں۔ (شاید اس لیے بھی کہ یوٹیوب پر ایسی ہی ویڈیوز اور وی لاگز دیکھنے کا رجحان زیادہ ہے) ان کا بس نہیں چلتا کہ ویڈیو سے باہر نکل کر ایک دوسرے کے بال نوچنا شروع کردیں۔

پہلے تماشا محلے میں لگا کرتا تھا، اب یوٹیوب پر لگتا ہے جسے سب کانوں پر ہیڈ فون لگا کر اور چادر میں گھس کر بڑے مزے سے دیکھتے ہیں، کیوںکہ ان ویڈیوز میں استعمال ہونے والی گفتگو بالکل بھی اس قابل نہیں ہوتی کہ بہن بھائیوں کے ساتھ بیٹھ کر سنا جاسکے، اور والدین کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنے اور سننے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا! ساتھ میں یہ ڈر بھی لگا ہوتا ہے کہ اگر امی یا ابو نے یہ گفتگو سن لی تو خدانخواستہ انٹرنیٹ سے ہاتھ نہ دھونا پڑجائیں، جب کہ چھترول الگ سے ہوجائے کہ انٹرنیٹ پڑھائی لکھائی میں مدد کے لیے لگوا کردیا تھا یا یہ بیہودہ چیزیں دیکھنے کے لیے! خدا پوچھے ان ’’ولاگرز‘‘ کو، کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ اگر ان ولاگرز کی ریسلنگ منعقد کی جائے تو مدمقابل کی ایسی چٹنی بنائیں گے کہ بڑے بڑے پھنے خان بھی شرما جائیں گے۔ یہ ولاگرز آ کل یوٹیوب پر بالکل محلے کی پھاپھا کٹنیوں کی طرح لڑتے نظر آتے ہیں، بس کمر پر ہاتھ اور کانوں کے پیچھے دوپٹا نہیں اڑسا ہوا ہوتا۔

جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکی ہوں، یوٹیوب پر اس طرح کی بیہودہ ویڈیوز/ وی لاگز بنانے کے ذمہ دار صرف ولاگرز ہی نہیں بلکہ اس میں بڑا ہاتھ خود یوٹیوب کا بھی ہے۔ گوگل اپنی ’’یوٹیوب مونیٹائزیشن‘‘ کے تحت ویڈیوز لگانے والوں (بشمول ولاگرز) کو، ویڈیو/ وی لاگ پر اشتہار دکھانے کے عوض، پیسے دیتا ہے۔ فارمولا وہی ایڈسینس والا ہے کہ یوٹیوب پر جو ویڈیو جتنی زیادہ مرتبہ دیکھی جائے گی، ویڈیو/ وی لاگ بنانے والے کو اتنے ہی زیادہ پیسے بھی ملیں گے۔ پاکستان کے لیے یوٹیوب مونیٹائزیشن کا اعلان ہونا تھا کہ فارغ پاکستانیوں کے مشاغل میں کبوتربازی اور پتنگ بازی وغیرہ کے ساتھ ساتھ ایک نیا مشغلہ بھی شامل ہوگیا، جس کے ذریعے وہ بے مقصدیت کا پرچار کرکے، کم وقت میں اور بغیر محنت کیے ہوئے پیسہ بھی کما سکتے ہیں۔

لہٰذا تمام فارغ نوجوانوں کی تو عید ہوگئی اور انہوں نے زیادہ سے زیادہ سبسکرائبرز اور لائکس کے لالچ میں گالیوں، ذومعنی باتوں اور بیہودہ گفتگو پر مشتمل ویڈیوز بنانی شروع کردیں… بلکہ یوں کہیے کہ بے ہودگی میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کی گویا دوڑ لگانا شروع کردی۔ ہمارے لیے افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان کے ٹاپ ’’ولاگرز‘‘ میں، جن کے سبسکرائبرز کی تعداد لاکھوں میں ہے اور جن کی ویڈیوز کو چند گھنٹوں میں ہزاروں اور چند دنوں میں لاکھوں ویوز مل جاتے ہیں، وہ ولاگرز اکثریت میں ہیں جن کا مواد گالیوں، بیہودگی یا چوری شدہ مواد سے بھرا پڑا ہے، جب کہ اچھا مواد تخلیق کرنے والے ولاگرز کو بہت کم دیکھا جاتا ہے، یا پھر دیکھا ہی نہیں جاتا۔

پاکستانی نژاد کینیڈین ولاگر شام ادریس کا شمار پاکستان کے ٹاپ ولاگرز میں ہوتا ہے۔ ان کے یوٹیوب چینل ’’شام ادریس ولاگز‘‘ کے سبسکرائبرز کی تعداد 17 لاکھ سے زائد ہے جب کہ ان کی ویڈیوز پر چند گھنٹوں میں ہی لاکھوں ویوز اور لائکس آجاتے ہیں۔ لیکن میری سمجھ میں آج تک یہ نہیں آیا کہ ان وی لاگز میں آخر ایسا کیا ہوتا ہے کہ لوگ شہد کی مکھیوں کی طرح ان پر بھنبھناتے رہتے ہیں۔ لاکھوں ویوز ہونے کے باوجود مجال ہے کہ شام ادریس کے چینل پر کوئی ایک ڈھنگ کی ویڈیو موجود ہو جس میں لوگوں کو کوئی اچھا پیغام دیا گیا ہو۔ اور تو اور، ان کی اہلیہ کوئین فروگی بھی کسی سے کم نہیں۔ دونوں میاں بیوی مل کر انتہائی بھونڈی اوربغیر سر پیر کی ویڈیوز بناکر ڈال دیتے ہیں اور بدلے میں خوب ڈالر کمارہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لاکھوں سبسکرائبرز اور ڈالرز کی برسات آپ کو دولت مند بنا سکتی ہے لیکن آپ کو عزت نہیں دلوا سکتی۔

چند روز قبل شام ادریس اپنے مداحوں سے ملاقات کرنے اپنی اہلیہ کے ساتھ پاکستان پہنچے۔ اب لاکھوں ویوز اور لائکس کی بدولت انہیں لگا ہوگا کہ وہ پاکستان کے سیف علی خان اور ان کی بیوی کرینہ کپور ہیں لہٰذا جیسے ہی یہ ’’سپرہٹ جوڑی‘‘ پاکستان کی سرزمین پر پیر رکھے گی تو خود وزیراعظم پاکستان اس کے استقبال کے لیے موجود ہوں گے اور وزیرخارجہ ہاتھوں میں پھولوں کی مالا لیے کہیں گے ’’آئیے آپ کا انتظار تھا!‘‘ لیکن شام ادریس کے خوابوں کا محل اس وقت ٹوٹ گیا جب مداحوں سے ملاقات کی ایک تقریب میں ایک نوجوان نے ان کی اہلیہ کے منہ پر گھونسے برسادیے۔ انہوں نے ڈھٹائی کی انتہا کرتے ہوئے ان گھونسوں کو بھی ویوز اور لائکس بڑھانے کے لیے استعمال کیا اور رونے دھونے پر مبنی ویڈیو جاری کرکے ایک بار پھر ویوز اور لائکس لینے کی کوشش کی۔ لیکن انہیں یہاں بھی منہ کی کھانی پڑی جب یہ حقیقت سامنے آئی کہ کوئی گھونسے کبھی پڑے ہی نہیں تھے بلکہ ان دونوں میاں بیوی نے ویوز کے چکر میں یہ سارا ڈراما رچایا تھا۔

ایسا نہیں کہ پاکستان میں صرف بے ہودہ مواد پر مبنی ویڈیوز ہی بنائی جارہی ہیں! بہت سے ولاگرز دل چسپی سے بھرپور مزاحیہ ویڈیوز بھی بنارہے ہیں جنہیں دیکھا اور پسند کیا جاتا ہے۔ ان میں کراچی وائنز نامی چینل سے لوگوں کو تفریح فراہم کرنے کے لیے مزاحیہ ویڈیوز بنائی جاتی ہیں اور ان کے سبسکرائبرز کی تعداد سات لاکھ سے زیادہ ہے۔ اسی طرح ’’دی ایڈیئٹز‘‘ کے نام سے موجود چینل پر بھی اچھی تفریحی ویڈیوز اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔ اس چینل کے سبسکرائبرز کی تعداد 8 لاکھ سے زائد ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی یوٹیوبر آمنہ ’’کچن ود آمنہ‘‘ کے نام سے یوٹیوب چینل چلاتی ہیں اور پاکستانی خواتین کو خوب خوب مزے مزے کے کھانے بنانا سکھاتی ہیں۔ آمنہ پاکستان کی پہلی خاتون یوٹیوبر ہیں جن کے پاس یوٹیوب کا ’’گولڈن پلے بٹن‘‘ ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان میں تعلیمی مواد اور معلومات پر مبنی یوٹیوب چینلز بھی موجود ہیں جن میں مختلف ولاگرز نوجوانوں کو جدید ٹیکنالوجی کی تعلیم اردو میں دیتے نظر آتے ہیں۔ ان میں عمران علی دینا ’’جی ایف ایکس مینٹور‘‘ کے نام سے گذشتہ 3 برسوں سے یوٹیوب چینل پر گرافک ڈیزائننگ، فوٹوشاپ اور ویڈیو ایڈیٹنگ کی تعلیم دے رہے ہیں۔ عمران علی دینا گذشتہ 17 برس سے اس فیلڈ میں ہیں اور اب وہ اپنا تجربہ یوٹیوب کے ذریعے پاکستانی نوجوانوں میں منتقل کرنے کا نیک کام کررہے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ’’جی ایف ایکس مینٹور‘‘چینل کے سبسکرائبرز کی تعداد صرف دو لاکھ ہے جو شام ادریس جیسے گھٹیا مواد پیش کرنے والے ولاگر کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔

ہمارے نوجوانوں کا ایک اور المیہ یہ بھی ہے کہ جہاں بے کار کانٹینٹ کری ایٹرز کی ویڈیوز کو ایک دن میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد ویوز مل جاتے ہیں، وہیں عمران علی دینا کی ویڈیو کو (جو سنجیدہ اور پریکٹیکل معلومات پر مبنی ہوتی ہیں) دو ہفتوں میں بہ مشکل تمام صرف 10 ہزار ویوز ہی مل پاتے ہیں۔

پاکستان میں بڑھتی بے روزگاری اور سرکاری نوکریوں کی کمی کے باعث نوجوان پریشان تو بہت نظر آتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں لوگوں کو کام نہ کرنے کے بہانے چاہییں۔ اگر نوکریاں نہیں تو گرافک ڈیزائننگ اور فوٹوشاپ وغیرہ جیسا کوئی ہنر سیکھ کر، اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر کام کیا جاسکتا ہے۔ لیکن نہیں! ہمارے نوجوان تو شام ادریس، ڈکی بھائی اور رضاسمو کی لڑائیاں دیکھ دیکھ کر اور ان کی فحش گفتگو سے لطف اندوز ہوکر اپنا وقت ضائع کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ لہٰذا ایسے نوجوانوں کو بے روزگاری کا رونا بھی نہیں رونا چاہیے۔

عمران علی دینا کی طرح ’’خان اکیڈمی اردو‘‘ نامی یوٹیوب چینل پر پچھلے کئی برسوں سے اردو میں تقریباً دو ہزار معیاری تعلیمی ویڈیوز موجود ہیں، لیکن اس چینل پر جا کر اپنا سر پیٹنے کا دل کرتا ہے کیوںکہ یہاں کی سب سے مقبول ویڈیو کو 5 سال میں صرف 8000 ویوز ہی مل سکے ہیں جب کہ گزشتہ آٹھ سال کے دوران اس چینل کے سبسکرائبرز کی تعداد صرف 13 ہزار 800 تک پہنچ سکی ہے۔ اسی طرح اگر بات کریں یوٹیوب چینل ’’سائنس کی دنیا‘‘ کی تو پچھلے تین سال سے قائم ہونے والا یہ چینل بین الاقوامی معیار کی ویڈیوز بناتا ہے جن میں طالب علموں اور عام پاکستانیوں کے ذہنوں میں موجود سائنس کے سوالوں کے جوابات نہایت آسان الفاظ میں دیے جاتے ہیں۔ ان کی ویڈیوز کا معیار کسی بھی طرح نیشنل جیوگرافک اور ڈسکوری سے کم نہیں لیکن پاکستانیوں کو اس سے کوئی غرض نہیں؛ انہیں تو صرف وہ مواد پسند آتا ہے جس میں گالیوں اور بیہودہ الفاظ کا بھرپور استعمال کیا گیا ہو۔

بعدازاں یہی نوجوان گِلہ کرتے نظر آتے ہیں کہ اچھی تعلیم بہت مہنگی ہے اور عام تعلیم اس قابل نہیں کہ اس کا مقابلہ کسی بین الاقوامی معیار کی تعلیم سے کیا جائے اس لیے ہمیں نوکریاں نہیں ملتیں اور ہم باقی دنیا سے پیچھے ہیں۔ میں ایسے تمام نوجوانوں کو بتانا چاہتی ہوں کہ یہ لوگ معیاری تعلیم کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی سُستی اور کاہلی کی وجہ سے پیچھے ہیں۔

ہر چیز کا الزام حکومت یا اداروں کو دینا بھی صحیح نہیں۔ کیا گِلہ شکوہ کرنے والے نوجوانوں نے کبھی اچھی تعلیم اور ہنر سیکھنے کی کوشش کی؟ مجھے معلوم ہے کہ کبھی نہیں کی ہوگی کیوںکہ اچھا اور معلومات پر مبنی مواد ڈھونڈھنے میں تو محنت لگتی ہے؛ اور پاکستان میں فارغ لوگوں کا مقبول مشغلہ بغیر محنت کے پیسہ کمانا ہے۔ پاکستان کا المیہ ہے کہ یہاں بے روزگار نہیں بلکہ بے تحاشہ فارغ لوگ پائے جاتے ہیں جو بغیر محنت کیے ہی سب کچھ حاصل کرلینا چاہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔