10سالہ قرضوں پر تحقیقات : ’’ہائی پاورڈ کمیشن قائم‘‘

علی احمد ڈھلوں  جمعرات 20 جون 2019
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

ملک دیوالیہ ہونے کی پوزیشن میں کیوں نہ آئے، جب قرض پر قرض لیے گئے،عوام کا پیسہ لانچوں میں بھر بھر کر بیرون ملک بھیجا گیا، لوگ کھربوں لوٹ کر فرار ہوگئے، کوئی پوچھنے والا نہیں تھا، شایان شان انداز میں قرضے حاصل کرکے وکٹری کے نشان بنائے جاتے رہے، اور پھر جب بیڑہ غرق کر دیا گیا تو ملک کو نئی حکومت کے سپرد کر دیا گیا تاکہ کرپٹ عناصر بری الذمہ ہو جائیں۔

اسی لیے موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ 10سالوں میں لیے گئے قرضوں کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنا دیا ہے، جس کی وفاقی کابینہ نے منظوری بھی دے دی ہے اور ڈپٹی چیئرمین نیب حسین اصغر کو تحقیقاتی کمیشن کا سربراہ بھی بنا دیا گیا ہے۔ انھوں نے ایف آئی اے میں تعیناتی کے دوران حج کرپشن کیس کی تحقیقات بھی کی تھیں۔

اُن کے ساتھ آئی ایس آئی، ایف آئی اے، نیب، ایف بی آر اور ایس ای سی پی کے اراکین شامل ہوں گے۔ انکوائری کمیشن ’’انکوائری ایکٹ 2017 ‘‘کے تحت قائم کیا جائے گا، یہ کمیشن 10 سالوں میں لیے گئے قرضوں کی تحقیقات کرے گا،یعنی 2008 سے 2018 تک 24 ہزار ارب کے قرضوں کی تحقیقات ہوں گی۔ کمیشن یہ بھی دیکھے گا کہ عوام کے پیسے کا غلط استعمال تو نہیں ہوا، غیر ملکی سفر اور بیرون ملک علاج پر آنے والے اخراجات کی بھی تحقیقات ہوں گی۔

حیرت ہے اس ملک کے سسٹم پر کہ جب پانی سر پر سے گزر جائے، جب جسم لاغر ہو چکا ہو، جب ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہی غائب کردی جائے، جب ملک دنیا کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ جائے اور جب دنیا سے ہم قرضے کی بھیک مانگیں اور بدلے میں وہ ہم پر اپنی من مرضیاں مسلط کرے تو ہم سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں… حالانکہ ہمیں اس بات کی فکر ہر گزرتے لمحے ہونی چاہیے کہ ہم دنیا سے بہت پیچھے رہ چکے ہیں، ترقی پذیر اور بدحال ممالک کے ساتھ ہمیں بھی گنا جا رہا ہے، ہماری اکانومی خطے میں بنگلہ دیش، بھارت اور چین سے تو کوسوں دور ہے ہی ہم افغانستان سے بھی پیچھے جا رہے ہیں…

اب اگر یہ کمیشن بنا ہے تو یقیناً یہ ایک خوش آیند بات ہے، لیکن افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ جب یہ 24ہزار ارب روپے کے قرض لے رہے تھے تب ادارے کیوں نہ حرکت میں آئے؟ اب جب کہ بقول وزیر اعظم کہ ملک کا کچھ نہیں رہا! تو اب ہم سر پکڑ کر کیوں بیٹھے ہیں؟ اور کیوں عوام کو ایک بار پھر بیچ چوراہے پر لا کھڑا کیا ہے… یہ کمیشن اُسی وقت بن جانا چاہیے تھا، جب قرضے لیے جا رہے تھے، جب ملک کو گروی رکھوایا جا رہا تھا، جب دنیا کے سامنے یہ ملک بے بس دکھائی دے رہا تھا، جب دنیا بھر میں ہمارے خلاف پراپیگنڈہ کروایا جا رہا تھا اور ہمارا گرین پاسپورٹ دنیا کے آخری تین پاسپورٹوں میں شمار ہونے لگا تھا۔

اب کون ذمے داری لے گا؟ کہ اُس نے 24ہزار ارب روپے کے قرضے کیوں لیے؟ کہاں خرچ کیے؟ کون مانے گا کہ کس نے کتنی کرپشن کی؟ آپ سب کو اُلٹا لٹکا دیں مگر ایک پائی بھی کوئی نہیں دے گااور یہی کہتا پایا جائے گا کہ ہمیں ’’سیاسی انتقام‘‘ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

حد تو یہ ہے کہ آج قرض لینے والے سابق حکمران زیر تفتیش ہیںکہ انھیں علم نہیں کہ پیسہ کہاں گیا؟ لیکن اس بات کا جواب بھی نہیں دے رہے کہ ذاتی دولت میں اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟ حیرت ہے سب کچھ ریکارڈ پر ہے مگر پھر بھی ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے ہاتھ بھی صاف ہیں، دامن بھی صاف اور مجھ جیسے شکی مزاج یہ سوچ رہے ہیں کہ ہاتھوں اور دامنوں کے صاف ہوتے ہوئے ملکی خزانہ کیسے صاف ہو گیا؟بے پناہ قرضے، محیرالعقول خسارے اورسفید ہاتھیوں سے بھی بدتر تباہ حال ادارے۔ یہ ہے ملکی معیشت کا مختصر ترین تعارف تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سابقہ دونوں ادوار کے کرتا دھرتاؤں نے 24ہزار ارب روپے قرض کا کیا کیا؟معیشت کی لاش پڑی ہے تو ظاہر ہے اس کا کوئی قاتل بھی ضرور ہو گا تو یہ کون ہے ؟ بقول شاعر

ہوائیں سرد اورجسم بے لباس ہے میرا

امیر شہر تجھ کو ذرا بھی احساس ہے میرا

ریکارڈ پر ہے کہ میں نے ن لیگ کے دور میں دو درجن سے زائد کالم اسی بحث پر لکھے کہ لیے گئے قرض کہاں ہیں؟ کن شرائط پر قرض لیے جا رہے ہیں؟ میں نے اسحاق ڈار کے دور میں جب وہ دبئی میں آئی ایم ایف سے قرض Approveکروا کر نکلے تھے تو اُس وقت بھی سوال اُٹھایا تھا کہ قرضے لینے کے بعد ہم وکٹری کا نشان کیوں بنا رہے ہیں؟ کیا یہ ان حکمران کو ذاتی ایجنڈا تھا؟  لیکن مجھ سمیت کسی کی بھی کوئی ادارہ نہیں سنتا تھا ، تبھی ’’کمیشن‘‘ کی بات سن کر ہم لڑکھڑا سے جاتے ہیں کہ ماضی میں بہت سے کمیشنوں کی رپورٹ ہی دبا لی گئی ، پھر اعتبار اُٹھتا گیا، اور اب ایسا ذہن بن گیا ہے کہ کمیشن، کمیٹی، انکوائری اور جے آئی ٹی محض دکھاوا لگتا ہے جب کہ اصل کہانی کہیں اور لکھی جاتی ہے۔ماضی میں بے شمار کمیشن بنائے گئے، بے تحاشہ پیسہ خرچ کیا گیا مگر نتیجہ کیا نکلا صفر؟… اس لیے موجودہ کمیشن کا فائدہ تو تب ہو گا جب اس کی رپورٹ منظر عام پر لائی جائے گی تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے ۔

لہٰذاعوام کے سامنے ’’فیکٹ شیٹ‘‘ رکھنا ہوگی، یہ فیکٹ شیٹ ثابت کرے گی کہ کس طرح عوام کا پیسہ لوٹا گیا، کہاں خرچ ہوا اور کہاں کہاں ’’اسپیڈمنی‘‘ کے ذریعے بھیجا گیا، اور تو اور وہ طبقہ بھی سامنے آئے گا جو اسمگلنگ کو تہہ دل سے ’’کاروبار‘‘ سمجھتا ہے ، دنیا سے قرض لینے کو خالصتاً کاروباری تکنیک سمجھتا ہے۔

آپ حیران ہوں گے کہ آئی ایم ایف کے ریکارڈ کے مطابق پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جسے گزشتہ دس گیارہ سالوں میں سب سے زیادہ قرض لینے کی ضرورت پڑی۔ آئی ایم ایف کے ایک افسر کے مطابق پاکستان نے گزشتہ چند سالوں میں قرض لیتے وقت اس بات کا بھی خیال نہ رکھا کہ جن مشکل شرائط پر قرض لیے جا رہے ہیں ، آیا پاکستان انھیں پورا کر بھی سکے گا یا نہیں! مذکورہ افسر نے اپنی رپورٹ میں مزید لکھا کہ قرض لینے والا ہر وزیر خزانہ اس نیت سے قرض لے رہا تھا کہ کونسا اُس نے اسے واپس کرنا ہے۔ لہٰذا اس سے جو مانگا گیا(دستاویزات، گروی رکھے ہوئے پراجیکٹس وغیرہ) وہ سب مہیا کیا گیا!

اس لیے موجودہ ہائی پاورڈ کمیشن بننے کے بعد مجھ جیسے پاکستانیوں کو تسلی یہ ہو رہی ہے کہ اب یہ معاملہ تمام تر شکوک وشبہات سے بالاتر ہو جائے گا کہ کب کیا ہوا؟کیونکہ سچی بات یہ کہ میں خود کبھی کبھی کنفیوژن کا شکار ہو جاتا ہوں کہ ہمارے ملک میں ہو کیا رہا ہے؟اس لیے گزشتہ 10سال اور اس دوران برسراقتدار لوگوں سے پوچھ گچھ کوئی حرف آخر نہیں، حرف آغاز سمجھیں، دوسرے مرحلہ میں اس دائرہ کو وسیع بھی کیا جا سکتا ہے۔ تاکہ ادارے ٹھیک ہوں کیوں کہ اگر ایک دفعہ مخلصانہ انداز میں صفائی ہوگئی تو تمام ادارے پہلے سے بہتر ہو جائیں گے۔

یہاں اس بات کی گواہی کے لیے اس کمیشن کا فائدہ بھی ہوگا یا نہیں یہ بتاتا چلوں کہ اس وقت دنیا میں 180ممالک کی فہرست میں پاکستان کا کرپشن کے حوالے سے 117واں نمبر ہے، یعنی ان ممالک میں ابھی بھی پاکستان سے زیادہ کرپشن ہو رہی ہے، مگر جن ملکوں نے کمیشن کے ذریعے یا Systematic طریقے سے کرپشن کی وجوہات تلاش کیں، اور اُن پر قابو پایا وہ دنیا میں سرخرو ہوئے ان ممالک میں ترقی یافتہ ممالک کی مثال نہیں دوں گا بلکہ ہم جیسے ترقی پذیر ممالک کی مثال لیں تو نمیبیا، گریناڈا، سوڈان، روانڈا، اومان اور یونان جیسے ممالک شامل ہیں۔

جنھوں نے 2012سے لے کر 2018تک کرپشن کے خلاف اقدامات کرکے اپنی ریٹنگ بہتر کی ۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کی مثال سب کے سامنے ہے، سعودی شہزادوں کو کمیشن کے ذریعے گرفتار کیا گیا،اربوں ریال ریکوری ہوئی جس سے سعودی عرب کی گزشتہ 3سالوں میںریٹنگ 10درجے بہتر ہوئی۔ جب کہ اس کے برخلاف پاکستان میں ابھی اس سطح پر کمیشن نہیں بنا اور نہ ہی سختی کی گئی ہے مگر اُمید ہے کہ کمیشن بن جائے تو اس کے پاس اس حد تک اختیارات ہوں کہ وہ حکومت کے وزراء سے بھی پوچھ گچھ کر سکے، ایسا نہ ہو کہ حکومتی وزراء کو یہ کہہ کر چھوڑ دیا جائے کہ کمیشن کے پاس مکمل اختیارات نہیں ہیں یا سیاسی خواتین کو چھوڑ دیا جائے کہ وہ خواتین ہیں۔

بہرکیف اس تحقیقاتی کمیشن کو اعلیٰ ترین سطح پر وسیع اختیارات حاصل ہوں گے، حسین اصغر واقعی قابل افسر ہیںیقیناوہ کسی کرپٹ عناصر کو کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں دیں گے اور یقینا یہ کمیشن ملکی قرضوں میں 24ہزار ارب روپے اضافہ کی تحقیقات کرے گا۔بانڈز کے اجرا،غیر ملکی دوروں، بیرون ملک علاج، ذاتی رہائش گاہوں اور ملوں کے لیے سڑکوں اور کیمپ آفسز کی بھی تحقیقات ہوں گی۔بہتر ہوتا کوئی ٹائم لائن یا کم از کم اس کا اندازہ ہی دے دیا جاتا۔ میرے ذاتی خیال میں سابق حکمرانوں اور ان کی فیملی کو نہ صرف اس فیصلہ پر خوش ہونا چاہیے بلکہ تجاویز بھی دینی چاہئیں اور اگر ان کے کوئی خدشات، تحفظات وغیرہ ہوں تو ان سے بھی حکومت کو آگاہ کرنا چاہیے۔اگر وہ واقعی سچے ہیں تو اس سے بہتر موقع ممکن نہیں کہ جو اپنی ساکھ نہ سنبھال سکے،اسے سیاست کرنے کا حق نہیں ہونا چاہیے۔اس لیے اس ہائی پاورڈ کمیشن پر سب کو لبیک کہنا چاہیے، اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔