دس سالوں کی انکوائری

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 20 جون 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

’’نالائق‘‘ وزیر اعظم نیازی نے بیٹھے بیٹھے اشرافیہ کو  پریشان کردیا کہ ایک کمیشن بنایا جائے گا جو 10 سال کے دوران مبینہ طور پر ہونے والی 24 ہزار ارب قرضوں کی انکوائری کرے گا۔

وزیر اعظم کے اس اعلان سے اشرافیہ اور اس کے کارندے اس قدر مشتعل ہیں کہ اخلاقی حدود سے نکل کر وزیر اعظم کو ایسے ایسے القابات سے نواز رہے ہیں کہ کہنے والوں کو شرم آئے یا نہ آئے ان کے القابات اور ریمارکس پڑھنے والے البتہ شرم سے پانی پانی ہو رہے ہیں۔ ہر ملک کا وزیر اعظم جہاں پارلیمانی جمہوریت رائج ہو ملک کا سربراہ اور قابل احترام شخص ہوتا ہے۔ عوام بے چارے اشرافیہ کے اس غصے اور اشتعال سے حیران ہیں کہ برادرم نیازی نے ایسی کون سی گالی دے دی کہ اشرافیہ کا پارہ 50ڈگری تک پہنچ گیا ہے۔

برادرم نیازی نے ایک کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے جو پچھلے دس سالوں میں ہونے والی 24 ہزار ارب کی کرپشن کی تحقیق کرے گا۔ 24 ہزار ارب کی فگر درست ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کو کس بے دردی سے لوٹا گیا۔ یہ ایک جائز اور قومی اہمیت کا کام ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپوزیشن ہی نہیں ملک کے تمام طبقات کی طرف سے اس اقدام کی حمایت کی جاتی لیکن افسوس کہ ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس اعلان کے خلاف ایسا شور محشر برپا کردیا گیا ہے کہ بے چارے عوام حیران ہیں کہ بھائی نیازی نے ایسی کیا خطرناک بات کردی کہ اپوزیشن نے شور محشر برپا کردیا ہے۔

اس حوالے سے سب سے پہلے یہ بات غور طلب ہے کہ نیازی نے کسی جماعت کا نام لیا نہ کسی فرد کا اس نے صرف یہ کہا کہ پچھلے 10 سالوں میں جو 24 ہزار ارب کے قرض لیے گئے وہ کہاں کہاں اورکس طرح خرچ کیے گئے ہیں 24 ہزار ارب کی رقم اتنی بڑی ہوتی ہے کہ ہم جیسوں کے تصور میں بھی نہیں سما سکتی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نیازی کے اس اعلان کی پرزور حمایت کی جاتی لیکن اس کی سرتوڑ مخالفت کرکے عوام میں یہ شکوک و شبہات پیدا کیے جا رہے ہیں کہ یہ کام 10 سالوں کے دوران برسر اقتدار رہنے والوں ہی کا ہے؟

اس حوالے سے اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نیازی نے صرف یہ کہا ہے کہ اس کی تحقیق کی جائے گی کہ یہ بھاری بھرکم رقم کہاں اور کس طرح خرچ کی گئی؟ اس سوال کا آسان سا جواب یہ ہے کہ وہ تفصیلات فراہم کردی جائیں جن سے یہ پتا چل جائے کہ اتنی بھاری رقم کہاں اور کس طرح خرچ کی گئی ہے؟ ظاہر ہے اتنی بھاری رقم ہوا میں تو نہیں اڑ سکتی یقینا بہت سارے ترقیاتی کاموں ہی میں 24 ہزار ارب کی رقم خرچ کی گئی ہوگی۔ ہر حکومت میں ایک وزارت خزانہ ہوتی ہے اور ایک آڈیٹر جنرل ہوتا ہے جو پائی پائی کا حساب رکھتا ہے اور یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اس رقم کا حساب وزارت خزانہ اور آڈیٹر جنرل کے پاس ہوگا بجائے مشتعل ہونے کے کمیشن کے پاس 10 سال کے دوران لیے جانے والے قرض کا حساب پیش کردیا جائے تو بات ختم ہوجائے گی۔

اس حوالے سے پہلی بات یہ ہے کہ 10 سالوں کے دوران جو دو مہذب اور قابل اعتبار حکومتیں رہی ہیں ان سے ہر گز یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ خدانخواستہ اس 24 ہزار ارب کی رقم میں کوئی بددیانتی کی گئی ہو۔ دس سالوں کے دوران جو دو حکومتیں برسر اقتدار رہیں وہ نہایت ہی مہذب حکومتیں ہیں اور ان حکمرانوں کے پاس اللہ کا دیا ہوا اتنا کچھ تھا اور ہے کہ انھیں کسی بددیانتی کی طرف دیکھنے کی سرے سے ضرورت ہی نہیں۔ ہاں نیازی جیسا پھکڑ حکمران ہوتا تو یہ شک کیا جاسکتا تھا کہ شاید اس نے نیت خراب کی ہو کیونکہ مڈل کلاس کا کوئی فرد 24 ہزار ارب کی رقم خواب میں بھی نہیں دیکھ سکتا۔

ایسے پھکڑ لوگوں کے بارے میں تو شک کیا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ نیت خراب کیے ہوں گے لیکن ملک کی مہذب اشرافیہ کے بارے میں بدنیتی کا شک کرنا کھلی گستاخی ہوگی۔ اشرافیہ کے شہزادے شہزادیاں سخت مشتعل ہیں کہ نیازی کو یہ ہمت اور جرأت کیسے ہوئی کہ وہ 10 سالہ سنہرے دور کی تحقیق کرائے؟ ہماری اشرافیہ کا یہ عذر درست ہے کہ انکوائری صرف پچھلے دس سال کی کیوں ہو رہی ہے اگر انکوائری ہو تو پورے 71 سال کی ہونی چاہیے۔

اشرافیہ کے بعض حکما یہ فرما رہے ہیں کہ پچھلے دس سال کے ساتھ ساتھ پچھلے دس ماہ کی بھی انکوائری ہونی چاہیے جسے ہم نیازی دور کہہ سکتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ملکی معیشت دیوالیے کے قریب پہنچ گئی ہے نیازی حکومت نے بجٹ میں عوام پر اتنے ٹیکس لگا دیے ہیں کہ اشرافیہ سے عوام کی یہ درگت دیکھی نہیں جا رہی ہے۔ ماضی کی کسی حکومت کو اتنے بھاری اور بھرکم ٹیکس لگانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ آج ڈالر کی قیمت میں اضافے سمیت ٹیکسوں کی بھرمار کا عالم یہ ہے کہ کوئی شریف اور انصاف پسند انسان ان ٹیکسوں پر افسوس ہی کرسکتا ہے۔ بے چارے عوام حیران ہیں کہ دل کو روؤں یا جگر کو میں، سر سے پیر تک ٹیکس ہی ٹیکس نظر آتے ہیں۔

نیازی حکومت کہہ رہی کہ یہ سب کیا دھرا پچھلے دس سالوں کا ہے جس کا خمیازہ آج عوام بھگت رہے ہیں نیازی نے جو انکوائری کمیشن بنایا ہے امید ہے کہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دے گا۔ اس کمیشن سے اشرافیہ کو ڈرنا نہیں چاہیے بلکہ ڈٹ کر اس کا سامنا کرنا چاہیے کیونکہ ڈرتا وہ ہے جس کے دل میں چوری ہو اور ماشا اللہ اربوں میں کھیلنے والی اشرافیہ اس ہتک آمیز انکوائری کمیشن سے کیوں ڈرے گی۔ مقابلہ کرے گی کامیاب مقابلہ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔