قلعہ مؤ مبارک ؛ رحیم یار خان میں واقع شان دار تاریخی ورثہ

اس قلعے کے متعلق مقامی افراد میں بہت سی کہانیاں اور روایتیں مشہور ہیں۔ فوٹو: فائل

اس قلعے کے متعلق مقامی افراد میں بہت سی کہانیاں اور روایتیں مشہور ہیں۔ فوٹو: فائل

جنوبی پنجاب بالخصوص چولستان اور اس سے ملحقہ علاقے ہڑپہ اور موہنجودڑو کی قدیم ترین تہذیبوں کے عین وسط میں واقع ہونے کی وجہ سے تاریخی اور اہم تہذیبوں کے امین رہے ہیں۔

ان علاقوں میں بادشاہوں، راجوں اور نوابوں کے بنائے کئی عظیم الشان قلعے موجود ہیں جن میں سے ایک کا ذکرِ خیر یہاں ہو گا۔ یہ گوہرِ نایاب قلعہ ’’مؤ مبارک‘‘ ہے جس کی باقیات آج بھی رحیم یار خان شہر سے 10 کلومیٹر شمال میں موجود ہیں۔

قلعہ مؤ مبارک ان 6 قلعوں میں سے ایک ہے جو ’’رائے ساہرس ‘‘ نے 498 سے 632 کے درمیان بنائے۔ بعض روایات کے مطابق یہ قلعہ 5000 سال قدیم ہے۔ ساہرس کے بنائے تمام قلعوں میں یہ وہ واحد قلعہ ہے جو تاریخ سے لڑ کر اپنا وجود قائم رکھنے میں کام یاب رہا ہے۔ تاریخ کی کتابیں اس قلعے کی مستند معلومات کے حوالے سے خاموش ہیں۔ اس قلعے کے بارے میں جو معلومات آج ہم تک پہنچی ہیں وہ یہاں کے باسیوں کے ذریعے سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہی ہیں۔

آم کے گھنے اور تاحدِ نگاہ پھیلے باغات کے درمیان ایستادہ یہ قلعہ تقریباً 549 میٹر کی فصیل پر محیط تھا جس کے 20 مینار اور برج تھے۔ قلعے کے وسیع و عریض ڈھانچے کو مٹی سے بھرا گیا تھا جبکہ پْختہ اور موٹی اینٹوں سے بنی اسکی دیواریں انتہائی مضبوط اور چوڑی تھیں۔ آج بھی کہیں کہیں قلعے کی فصیل اپنی اصل حالت میں محفوظ ہے۔

یہاں فارسی کے عظیم شاعر، شیخ سعدیؒ کے ہم عصر اور مشہور صوفی بزرگ حضرت شیخ حمید الدین حاکم سہروردیؒ کا مرقد مبارک بھی ہے جو بغیر کسی چھت اور کمرے کے قلعے کے اندر قبرستان میں واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شیخ صاحب بی بی پاک دامنؒ کے صاحبزادے اور حضرت بہاؤ الدین زکریا رح کے داماد ہیں۔

اس قلعے کے متعلق مقامی افراد میں بہت سی کہانیاں اور روایتیں مشہور ہیں۔ جن میں سے کچھ حقیقت پر مبنی جب کہ باقی فرضی لگتی ہیں۔

 م کا راز:

مقامیوں کے مطابق روزِقیامت جب سب کچھ اللّٰہ پاک کے حکم سے مٹ جائے گا تو ’’م‘‘ سے شروع ہونے والے 3 شہر باقی رہیں گے، مکہ ، مدینہ اور مؤ مبارک۔ اللّٰہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ بات کہاں تک سچ ہے۔

 افسانوی پتھر:

یہاں موجود ایک بڑے اور پُراسرار پتھر کے بارے میں یہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ پتھر جنات کا وزن کرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ ایک وقت تھا کہ اس کا وزن 5 ٹن ہوا کرتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اب اس کا وزن 1 ٹن رہ گیا ہے۔ اس پر مختلف نشانات بھی ہیں۔

قبرستان کا دروازہ:

قلعے میں واقع حضرت حمید الدین حاکم سہروردیؒ کے مرقد اور قبرستان کے مرکزی دروازے سے کسی بھی عورت کو اندر داخل ہونے کہ اجازت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں خواتین کم تعداد میں نظر آتی ہیں۔ مقامیوں کے مطابق ان خواتین کی ایک خاص حد مقرر ہے اور اس سے آ گے جانے پر وہ خود نقصان اْٹھاتی ہیں۔

بغیر چھت کا مزار:

حضرت شیخؒؒ کو دھوپ میں رہنا اتنا پسند تھا کہ ان کی قبر مبارک بھی دھوپ میں ہے۔ ایک کہانی یہ مشہور ہے کہ کئی بار مزار کی چھت بنانے کی کوشش کی گئی مگر ہر بار کسی نہ کسی وجہ سے کام روکنا پڑا۔ مقامیوں کے مطابق شاید شیخ صاحبؒ ایسا نہیں چاہتے۔ ہم نے بھی سخت دھوپ میں فاتحہ خوانی کی۔

غیرمرئی مخلوق:

ایک روایت کے مطابق کچھ غیرمرئی مخلوق اور جنات وغیرہ لوگوں کو تنگ کرتے تھے۔ لوگوں نے شیخ حمیدالدین حاکمؒ سے شکایت کی تو انھوں نے ان جِنوں کو قلعہ کی سیڑھیوں کے ایک کونے میں قید کردیا۔ ان کے مرنے کے بعد اس جگہ کو بند کر دیا گیا۔ آج بھی یہ گول چبوترہ سیڑھیوں کے ایک کونے میں موجود ہے۔

اس قلعے کے اندر کئی پراسرار کہانیاں قید ہیں، جن کی کھوج میرے جیسے ہر آوارہ گرد کو بے چین کیے رکھتی ہے۔ کاش کہ یہ دیواریں بول سکتیں اور اپنی آپ بیتی سنا سکتیں، لیکن اس کے لیے ان دیواروں کا سلامت رہنا انتہائی ضروری ہے۔ یہ قلعہ ہماری شان دار ثقافت کا اہم حِصہ ہے جو آج بھی حکم رانوں کی نظرِکرم کا منتظر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔