بُک شیلف

زندگی کے بہت سے زاویے ہوتے ہیں، ہر کوئی اپنی بصیرت کے مطابق ان زاویوں کے تحت زندگی کو دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ فوٹو: فائل

زندگی کے بہت سے زاویے ہوتے ہیں، ہر کوئی اپنی بصیرت کے مطابق ان زاویوں کے تحت زندگی کو دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ فوٹو: فائل

اعلانوں بھرا شہر
مصنف: سلیم آغا قزلباش
قیمت:300 روپے
صفحات:160
ناشر: الحمد پبلی کیشنز، لیک روڈ، لاہور

زندگی کے بہت سے زاویے ہوتے ہیں، ہر کوئی اپنی بصیرت کے مطابق ان زاویوں کے تحت زندگی کو دیکھتا اور سمجھتا ہے، دانشور زندگی کی پرکھ فلسفے اور علم کی بنیاد پر کرتا ہے، یوں وہ زندگی کی مختلف زاویہ نگاہ سے جانچ کرتا ہے جبکہ سادہ لوح آدمی زندگی کو ایک ہی زاویے سے دیکھتا ہے اگر وہ لوہار ہے تو اس کی زندگی کا زاویہ نگاہ اپنے اسی پیشے کے متعلق ہو گا اور وہ ہر چیز کو اسی سطح پر پرکھے گا، گویا ہر فرد کا اپنی سوچ کے مطابق زاویہ نگاہ ہے جس سے وہ زندگی کو برتتا ہے۔ آغا صاحب کو یہ ملکہ حاصل تھا کہ وہ زندگی کو گویا خوردبین سے دیکھ رہے ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ نے زندگی کے مختلف زاویے اور اس کے چھپے ہوئے گوشے دیکھنے کی صلاحیت عطا فرمائی تھی۔ انھیں افسانہ نگاری میں کمال حاصل تھا، زیر تبصرہ کتاب کے پہلے افسانے کو ہی لے لیں، انھوں نے جس طرح ’اکائی‘ کو دیکھا اور پرکھا اس طرف بہت کم لوگوں کی سوچ پرواز کرتی ہو گی ۔کتاب میں بیس افسانے شامل ہیں، ہر افسانہ قاری کو چونکا دیتا ہے۔

شاہد شیدائی ان کی افسانہ نگاری کے بارے میں کہتے ہیں’’ سلیم آغا قزلباش نے افسانہ نگارکی حیثیت سے بے جان اشیاء میں جان ڈالنے کی ایک نئی طرح ڈالی ہے۔ اس سے پہلے ایسی کردار نگاری اردو افسانے میں خال خال ہی نظر آتی ہے یا اس کردار نگاری کی فقط پرچھائیں سی دکھائی دیتی ہے جبکہ سلیم آغا نے اس فن کو ایک تحریک کا درجہ عطا کر دیا ہے۔ انھوں نے اپنے موضوعات سامنے کی زندگی سے اخذ کیے ہیں اور زیر نظر مجموعے کے کردار جیتے جاگتے، چلتے پھرتے، ہم سے باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔‘‘ ان کے افسانے کی یہی خصوصیات قاری کو گویا مقناطیس کی طرح اپنے طرف کھینچے رکھتی ہیں اور وہ ان کی تحریر کے اثر سے بھیگتا چلا جاتا ہے۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

انقلاب جو آچکا ہے
مصنف: ڈاکٹر منظور اعجاز
قیمت:350 روپے
صٖفحات: 168
ناشر: سلیکھ/ وچار، فیروز پور روڈ، لاہور

معاشرہ بہت سی اکائیوں سے مل کر بنا ہے۔ عجب بات یہ کہ ہزاروں سالوں سے یہ اپنی روایات کو پروان چڑھاتا اور بدلتا آیا ہے، شاید یہ وقت کی ضرورت ہوتی ہے کہ روایات جڑ پکڑ لیتی ہیں اور پھر خود ہی اپنی شکل بھی بدل لیتی ہیں، اسے ماہرین سماج کا بدلاؤ کہتے ہیں، اصل بات یہ ہے کہ یہ تغیر ایسے ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں جس کی طرف مصنف نے کھل کر اشارہ کیا ہے، تاہم یہ تبدیلی چونکہ کئی سالوں پر محیط ہوتی ہے اس لئے اسے بہت باریک بین افراد ہی محسوس کرتے ہیں، ماننا پڑے گا کہ ڈاکٹر صاحب کی نظر بہت گہرائی تک دیکھتی ہے، وہ سماج کے بدلاؤ کی وجوہات کا جائزہ بھی لیتے ہیں اور پھر اس کے معاشرے پر اثرات بھی دیکھتے ہیں ۔ ابتدا میں انھوں نے اس پر کھل کر اظہار خیال کیا ہے، آگے ان کے وہ مضامین ہیں جو ایک قومی اخبار میں شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی تحریریں قاری کے لئے سوچ کے نئے در وا کرتی ہیں۔ جہاں وہ معاشرتی تغیر اور برائیوں پر بے لاگ تبصرہ کرتے ہیں، وہیں ان کا جھکاؤ صوفی ازم کی طرف بھی نظر آتا ہے۔ صوفی ازم کی صحیح روح کو سمجھا جائے تو یہی معاشرے کی اصل روح ہے یعنی معاشرے کی بنت کی بنیادی اکائی ہے، اس شاہراہ کے مسافر ہر حال میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں یوں معاشرے میں توازن قائم کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ۔ فکر و تدبر کے قارئین کے لئے زبردست تحفہ ہے انھیں اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے ۔

اسطورہ
شاعر: شاہد شیدائی
قیمت:300 روپے
صفحات:116
ناشر: کاغذی پیرہن، لاہور

موضوعات ارد گرد بکھرے ہوتے ہیں مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ فرد میں حساسیت کا عنصر موجود ہو، حساسیت جتنی زیادہ ہو گی، موضوعات اتنے ہی نمایاں ہو کر سامنے آئیں، ادباء اور شعرا ء کی زندگی کا یہی پہلو انھیں دوسروں سے نمایاں کرتا ہے کہ وہ زمان و مکاں سے اور اس سے ماورا ہو کر بھی ادب تخلیق کرتے ہیں، تخلیق کا وصف عطائی ہے جو قدرت انھیں ودیعت کرتی ہے اور ان کا قلم کا سفر شروع ہو جاتا ہے ۔ اردگرد بکھرے موضوعات پر نثر میں اپنے دل کی بات کرنا آسان ہے مگر شاعری میں ان موضوعات کو سامنے لے کر آنا کچھ الگ معنی رکھتا ہے کیونکہ شاعرانہ انداز میں عام طور پر حسن و عشق اور رنگ و نور کی باتیں کی جاتی ہیں، خشک اور مسائل سے بھرے عنوان پر بات کرنا اور وہ بھی دل و دماغ پر اثر کرنے والے انداز میں، کمال کی بات ہے۔

شاہد شیدائی نے بھی اسطورہ میں کمال ہی کیا ہے، ان کا انداز بالکل جداگانہ اور وسیع اثر پذیری رکھتا ہے۔ ستیہ پال آنند کہتے ہیں’’ شاہد شیدائی کے پاس دو طرح کی آوازیں ملتی ہیں، یا ( دوسرے الفاظ میں) دو قسموں کے ذہنی جھکاؤ کا امتزاج ملتا ہے۔ ایک جھکاؤ تو زندگی اور ادب کے نا منقسم، مضبوط اور مربوط رشتے کو تغیر پذیر سمجھتے ہوئے بھی عصری زندگی سے سماجی افادیت کے موضوعات کا انتخاب ہے اور دوسرا جھکاؤ ان کی شاعری میں استعارات اور علامات کا ایک ایسا نپا تلا اور جانچابانچا ہوا استعمال ہے جس میں کنایات اور اشارات بھی در آتے ہیں اور لفظ کی ظاہری سطح سے نیچے اترتے ہوئے ایک عام قاری کو بھی ان معنوی گہرائیوں کا احساس ہونے لگتا ہے جو ظاہر میں اس کی دسترس سے بعید تھیں ۔۔۔۔ یہ رویہ جدیدیت کے تقاضوں کی ترمیم شدہ شکل ہے جہاں اس میں جدیدیت کی سرفہرست بدعت یعنی یعنیت کی افتاد طبع سے مکمل انحراف ہے، وہاں مابعد جدیدیت کی سماجی حقیقت پسندی کی طرف الٹے پاؤں مراجعت سے بھی کنارہ کشی ہے۔ ‘‘ شاعری سے دلچسپی رکھنے والوں کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

 کلینک سے کتاب تک
مصنف: ڈاکٹر مبشر سلیم
قیمت:350 روپے
صفحات:351
ناشر: مکتبہ قدوسیہ، اردو بازار، لاہور

تاثرات کو بیان کرنا ایک ایسا فن ہے جس میں بہت کم افراد مہارت رکھتے ہیں ۔ کہنے کو تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہر آدمی کسی نہ کسی صورت تاثراتی کیفیت سے گزرتا ہے، اس لئے اس میں مہارت کی کیا بات۔ اصل میں تاثرات بیان کرنے میں مہارت اس کو کہتے ہیں جس سے تاثرات پڑھنے یا سننے والا بھی اس کیفیت سے گزرے۔ زیر تبصرہ کتاب اس معیار پر پورا اترتی ہے۔ مصنف اپنی تحریروں کے ذریعے قاری کو رلاتے بھی ہیں اور ہنساتے بھی ہیں۔ انھوں نے روزمرہ کے واقعات کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔

عنوان سے یوں محسوس ہوتا کہ ڈاکٹر صاحب نے صحت عامہ کو موضوع بنایا ہے مگر ایسی بات نہیں، ڈاکٹر صاحب نے جو پڑھا، دیکھا اور محسوس کیا سب بیان کر دیا ہے۔ کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے باب میں مشاہدات اور واقعات، دوسرے باب میں صحت کے حوالے سے مضامین ہیں، تیسرے باب میں مضامین اور انشایئے شامل کئے گئے ہیں، آخری باب میں افسانے ہیں یوں قاری کو ایک ہی کتاب میں مختلف النوع تحریریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ابوبکر قدوسی لکھتے ہیں’’ کبھی ڈاکٹر مبشر سلیم اپنے مشاہدات کی دنیا سے چن چن کے ایسے واقعات لاتے ہیں کہ انسان بے اختیار گہرا سانس بھرتا ہے اور خاموش ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے پاس کہنے کو الفاظ نہیں ہوتے، مگر ہمارے مصنف ان تنگنایوں سے آسانی سے گزر جاتے ہیں اور قاری کو ساتھ لے کر اگلی منزلوں کی طرف نکل جاتے ہیں‘‘۔ ان کا طرز تحریر دل و دماغ پر گہرے اثرات چھوڑتا ہے۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

متاع احساس
مصنف: ابو البیان ظہور احمد فاتح
قیمت:500 روپے
صفحات:160
ناشر: فاتح پبلی کیشنز، نیو کالج روڈ، تونسہ شریف

ظہور احمد فاتح متعدد کتابوں کے مصنف ہیں، وہ اپنے خیالات اور احساسات دوسروں تک پہنچانے میں پوری مہارت رکھتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب نظموں اور غزلوں کا مجموعہ ہے۔ وہ بڑی ادا سے اپنے دل کی بات کہتے ہیں، جس میں تصنع اور بناوٹ نظر نہیں آتی، یہ کسی بھی شعر کی بہت بڑی خوبی ہے،جیسے رمضان المبارک کے مہینہ کے بارے میں کہتے ہیں،

دل تھا جس کا منتظر لو وہ مہینہ آگیا

واسطے معراج اہل دیں کے زینہ آ گیا

آ گیا تربیت مسلم کا ایک ماہ حسیں

اک سکون و معرفت کا آبگینہ آ گیا

اسی طرح غزل کے میدان میں اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہیں:

نہ پوچھو کیوں زمانے میں محبت کیش آتے ہیں؟

لٹانے کیلئے دل کی متاع بیش آتے ہیں

لئے برق تبسم، تیغ ابرو، تیر زن پلکیں

مسیحائی کو میری وہ بزعم خویش آتے ہیں

شاعری سے لگاؤ رکھنے والوں کے لئے دلچسپی کی چیز ہے، مجلد کتاب خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کی گئی ہے۔

۔۔۔

خوشبو کی شہادت
مرتب : سلیم شاہد
صفحات: 144
قیمت: 600/ روپے
پروڈکشن: بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور
ناشر: بھٹو لیگیسی فاونڈیشن، لاہور

پاکستان کے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور ِ نا مسعود میں جب ملک کے معرو ف سیاست داں، مقبول عوامی رہنما اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا تو اس سانحۂ دلفگار پر جہاں پاکستان کے اندر اور باہر ہر طبقہ فکر کی طرف سے بڑے پیمانے پر دکھ اور افسوس کا اظہارکیا گیا ، وہا ں ملک کے اہل ِ قلم نے بھی اس عدالتی فیصلے کے خلاف اپنے دلی جذبات و احساسات کو صفحہء قرطاس پر بکھیرا۔ اپنے مضامین ِ نظم و نثر کے ذریعے اس اقدام کی بھرپور مذمت کی اور ذوالفقار علی بھٹوکو خراج عقیدت پیش کیا۔ قریباً چار عشرے قبل پیپلزپارٹی کے ایک جیالے اصغر علی چوہدری نے منظوم انداز میں تحریرکیے جانے والے ان تمام رشحات ِ فکر کو یکجا کر کے ’’ خوشبو کی شہادت ‘‘ کے زیر عنوان کتابی شکل میں شائع کیا۔کتاب کی اہمیت اور عوامی سطح پر پذیرائی کے پیش نظر بھٹو شہید کے سیاسی فلسفہ و فکر اور افکار و نظریات کی ترویج و اشاعت کے لیے قائم کردہ ادارے بھٹو لیگیسی فاونڈیشن نے اس مجموعہء نظم کو بہ اندازِ دگر شائع کرنے کا فیصلہ کیا او ر اس مقصد کے لیے اشاعت ِ کتب کے معروف ادارے بک ہوم کی خدمات حاصل کیں۔

اس کتاب میں ملک کے جن معروف شعراء کی نظمیں شامل کی گئی ہیں ان میں فیض احمد فیض، جوش ملیح آبادی، ظہیر کاشمیری، شہرت بخاری، فارغ بخاری، قتیل شفائی، رسول بخش پلیجو، فہمیدہ ریاض ، احمد وحید اختر، جوہر میر، سلیم شاہد، حاجی عدیل، اعزاز افضل، حسن عباس رضا، حامد جیلانی ، پرویز چشتی، حسن رضوی، احمد بدر پیرزادہ ، جوزف وکٹر اورشبیہہ حیدر وغیرہ شامل ہیں ۔ ان نظموں کو بک ہوم کے رانا عبدالرحمان اور ایم سرور نے بڑی خوبصورتی اور حسن کے ساتھ نئے پہناوے میں بڑے احسن انداز میں تیار کر کے مارکیٹ میں پیش کر دیا ہے جو بھٹو لورز کے لیے کسی تحفہ سے کم نہیں ۔

 قلم کا سفر
 مصنف: ڈاکٹر انوار احمد بگوی
 صفحات: 464
 قیمت : درج نہیں
 ناشر : الافتخار بگویہ فاونڈیشن، البگوی ، 245 B ویلنشیا ٹاون ، لاہور

’’ قلم کا سفر ‘‘ ڈاکٹر صاحبزادہ انوار احمد بگوی کی متفرق و منفرد تحریروں کا مجموعہ ہے ۔ یہ تحریریں دراصل ان کے مضامین ہیں جو مختلف مواقع پر وہ لکھتے رہے ۔ یہ مضامین ان کے زمانہ طالب علمی سے لے کر موجودہ عرصہ تک کے دوران لکھے گئے جن میں سے بیشتر قومی اخبارات و جرائد میں شائع بھی ہو چکے ہیں ۔

ان میں اس قدر تنوع اور دلچسپی کا سامان موجود ہے کہ کسی بھی مزاج اور ذوق کے حامل شخص کے لیے ان کا مطالعہ خالی از دلچسپی نہیں ہو گا۔ ان مضامین کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ حقیقت خود بخود عیاں ہو جاتی ہے کہ پیشہ و ملازمت کی نوعیت کچھ بھی ہو وہ انسان کے علمی و ادبی ذوق کی تسکین کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔ ڈاکٹر صاحب پیشہ کے اعتبار سے خالص ڈاکٹر ( یعنی ایم بی بی ایس کے ڈگری ہولڈر ) ہیں لیکن ادب سے دلبستگی ان کے مزاج اور گھٹی میں اس حد تک رچ بس چکی تھی کہ وہ میڈیکل کے سنجیدہ (اور غیر دلچسپ ) مضامین میں بھی ادب کی راہ نکالنے میں کامیاب ہو گئے ۔ وہ میڈیکل کے ہی طالب علم نہیں اردو زبان و ادب کے بھی طالب علم تھے اور زبان و بیان کے چٹخارے کے لیے کلاسیکی ادب ، فکشن سمیت ہر نوع کی صنف ادب سے استفادہ کرتے رہے۔

ان کی تحریروں کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ ڈاکٹر اور منتظم بڑے ہیں یا ادیب ۔کمال کی بات یہ ہے کہ وہ محض ادیب ہی نہیں سکالر بھی ہیں اس بات کا ثبوت ان کے وہ مضامین ہیں جو اس کتاب میں شامل ہیں ۔ اس حوالے سے ان کے مضامین ’ مولانا اصلاحی کی قرآنی و علمی خدمات، معیار ِ حق کون، غلام احمد پرویز کے کام کا علمی جائزہ، قادیانیت کی حقیقت وغیرہ خاص طور پر قابل ِ ذکر ہیں ۔کتاب میں سفرنامے، آب بیتی، تعلیم و تربیت، تہذیب وتمدن، رپورتاژ، تحقیقی و تاثراتی مضامین، شخصیات اور علمی مباحث کے علاوہ انگریزی اور پنجابی زبان میں مضامین بھی شامل ہیں ۔ یہ تمام مضامین قاری کو غور وفکر کی دعوت دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب ہر عمر کے فرد اور ہر ذوق کے حامل شخص کے لیے خاصے کی چیز ہے کہ جس کے مطالعے سے محرومی کسی بدقسمتی سے کم نہیں ہوگی ۔

نہرکنارے
مصنف : نعیم کیفی
قیمت : درج نہیں

ڈاکٹر نعیم طارق درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں، اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا زیادہ تر وقت قومی ادارہ نفسیات قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں گزارا، اس کے علاوہ برطانیہ، امریکا، کینیڈا اور ملائشیا میں بھی خدمات سر انجام دیتے رہے ۔ وہ 1968ء سے 1970ء تک پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات میں رہے، اس دوران میں وہ نیوکیمپس لاہور کے ہاسٹل میں مقیم رہے ۔ زیرنظرکتاب اسی دور کی ایک دلچسپ داستان ہے ۔

عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ یادوں کا تعلق ماضی سے ہوتا ہے لیکن مصنف کہتے ہیں کہ ان کی مستقبل کی بھی چند یادیں ہیں ۔ یہ وہ خواب ہیں جو وہ عمر بھر سوتے، جاگتے دیکھتے رہے لیکن وہ تاحال شرمندہ تعبیر نہیں ہوئے، یہ وہ خواہشیں ہیں جو ابھی تک پایہ تکمیل کو نہیں پہنچیں ۔ نعیم کیفی اپنے ماضی کی یادوں کو عذاب نہیں، قابل قدر سرمایہ سمجھتے ہیں۔

’ نہرکنارے‘ نصف صدی پہلے کے واقعات ہیں جنھیں مصنف نے بقول سعادت حسن منٹو’ اپنی مضمحل رگوں میں زندگی بخش ‘ کے طور پر لکھا ہے۔ یہ کہنا مصنف بھی ضروری نہیں سمجھتے کہ اس داستان میں سب کچھ اصلی ہے لیکن کرداروں کے نام فرضی ہیں۔ آپ کو کتاب پڑھتے ہوئے ہرقسم کے فکر و فاقہ سے آزاد، کھلنڈرے طالب علم کی زندگی دیکھنے کو ملے گی۔ اس کے اردگرد ایسے کردار چلتے پھرتے ملیں گے جنھیں آج نگاہیں دیکھنے کو ترستی ہیں،کیونکہ وہ معاشرے کی ایسی خوبصورتی تھے جو کم ازکم اب نہیں ہے۔ یہ محض ایک کہانی یا کہانیوں کا ایک مجموعہ نہیں ہے بلکہ اس میں مختلف نفسیاتی مسائل پر سیر حاصل بحث بھی کی گئی ہے اور ان کا حل بھی بتایا گیا ہے ۔ اس لئے اس کتاب کا مطالعہ دلچسپ اور مفید تجربہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ کتاب حاصل کرنے کے لئے 03335490998 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔