شیرشاہ سوری سے ملاقات

ایس نئیر  جمعرات 5 ستمبر 2013
s_nayyar55@yahoo.com

[email protected]

میں اپنے آفس میں بیٹھا کام میں مشغول تھا کہ اچانک دروازے پر زنجیروں کی جھنکار سنائی دی ۔ میں نے چونک کر سراٹھایا تو سولہویں صدی کے سپاہیوں جیسا آہنی لباس پہنے ، چمکدار آنکھوں والا ایک صحت مند شخص مجھے گھور رہا تھا ۔ اس کے سر پر آہنی خود  تھا ، اور جسم پر زرہ بکتر کے لباس کا پورا سیٹ موجود تھا ۔اس نے مجھ سے ڈپٹ کر پوچھا ’’ تم ہی وہ صحافی ہو جس نے فرعون کا انٹرویوکیا تھا ؟‘‘میں نے جواب دیا ’’ ہاں میں وہی صحافی ہوں ، لیکن تم کون ہو؟ اگر کسی تاریخی ڈرامے کا اشتہار دینا چاہتے ہو تو تم غلط جگہ پر آگئے ہو ، میں اخبار کے لیے اشتہارات کی بکنگ نہیں کرتا ہوں ‘‘ اس نے تلوار لہرا کر، دوسرے ہاتھ میں موجود ڈھال کو گھمایا تو اس کے آہنی خود سے لٹکی ہوئی زنجیریں بج اٹھیں۔

وہ ایک قدم آگے آیا تو میں نے آفس سے فرار ہونے کی پوری پلاننگ چند سیکنڈ میں تیارکر لی اورکھڑکی کی طرف دیکھنے لگا ۔ ایک سیکنڈ کرسی کو دھکا دے کر کھڑے ہونے میں لگتا اور دوسرا سیکنڈ کھڑکی سے جست لگا کر،خود کو باہر فٹ پاتھ پر گرانے کے لیے کافی تھا ۔ مجھے اس کی پریکٹس بھی تھی اور کئی مرتبہ ایسی ہی سچوئیشن میں، میں اپنے ہی آفس سے فرار ہونے میں کامیاب رہا تھا ۔ مجھ سے غلطی یہ ہوئی تھی کہ میں نے سامنے موجود اس عجیب و غریب لباس میں ملبوس شخص کے ہاتھ میں تلوار نہیں دیکھی تھی ۔ وہ غالباً میرا ارادہ بھانپ گیا اور نرمی سے بولا ’’ بھاگنے کی کوشش نہ کرنا ، میں تم سے ہی ملنے آیا ہوں اور میرا نام فرید خان المعروف شیر شاہ سوری ہے ۔‘‘

میں ایک طویل سانس لے کر رہ گیا میں نے شیر شاہ سوری سے کہا ’’ جہاں پناہ آپ تشریف رکھیں ، میں ذرا ایک ضروری فون کر لوں ‘‘ پھر خیال آیا کہ عالم پناہ نے جو کچھ زیب تن کیا ہوا ہے ، اس لباس میں کرسی پر تشریف رکھنا ممکن ہی نہیں ہے ۔ لہذا ان سے درخواست کی کہ ’’ وہ برابر والے کمرے میں جاکر میری الماری سے شلوار قمیض کا کوئی جوڑا نکال کرپہن لیں تاکہ آرام سے بیٹھ کر گفتگو کر سکیں ۔ میں اتنی دیر میں آفس کا دروازہ بند کر کے لاک کرتا ہوں ، کیونکہ اگر خدانخواستہ اس دوران کوئی آفس میں آگیا اور آپ کو اس نے اس لباس میں دیکھ لیا تو پہلے اس علاقے میں بھگدڑ مچے گی اور کچھ ہی دیر میں پورے شہر میں پھیل جائے گی ۔ آج کل اس شہر کے حالات ویسے ہی کچھ ٹھیک نہیں ہیں ۔‘‘  عالم پناہ بولے ’’ میاں بھگدڑ تو پہلے ہی مچ چکی ہے۔  اور آدھا شہر بند ہوچکا ہے۔‘‘ میں نے شیر شاہ سوری کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ریسٹ روم میں لباس تبدیل کرنے کے لیے چھوڑ آیا ۔ پھر فون کا رسیور اٹھاکر پروفیسر گھڑوچیا کا نمبر ملایا دوسری طرف سے پروفیسر کی آواز سنتے ہی ، میں نے چیخنا چلانا شروع کردیا۔

پروفیسر گھڑوچیا دراصل روحوں کو طلب کرنے کا ماہر تھا ۔ یہ اس کا خاندانی علم تھا ، جو صدیوں سے سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے ہوئے پروفیسر تک پہنچا تھا ۔ میں نے اسے جھاڑ پلاتے ہوئے کہا ’’ یہ تم میرے پاس کن کن لوگوں کو بھیج دیتے ہو ؟ پہلے تم نے فرعون کو میرے متھے مار دیا اور اب شیر شاہ سوری کو بھیج دیا ہے ۔ میں نے تم سے کہا تھا کہ میں جنرل ضیاء الحق اور بھٹو صاحب سے الگ الگ ملاقات کرنا چاہتا ہوں ، لیکن تم نے ان کی بجائے شیر شاہ سوری کی روح کو طلب کر کے اسے میری طرف بھیج دیا ہے آخر تم چاہتے کیا ہو ؟ اگر آیندہ بھی ایسا ہی ہوا تو یقین کرو، میں تمہیں خود عالم بالا کی طرف روانہ کر دوں گا۔ ‘‘ اس سے قبل کہ پروفیسر جواباً کوئی وضاحت پیش کرتا ، شیر شاہ سوری کمرے سے باہر آکر میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا ۔ میں نے ریسیور کریڈل پر رکھا اور شیر شاہ سوری سے گفتگو شروع کردی ۔ پروفیسر سے میری گفتگو ادھوری رہ گئی تھی ۔ کیونکہ شیر شاہ کے پاس صرف دو گھنٹے تھے ۔ جس میں سے آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا ۔

قارئین کو پروفیسر کے بارے میں تفصیل سے کسی اور دن آگاہ کروں گا ۔ شیر شاہ سوری شلوار قمیض میں بھی ہنڈ سم لگ رہا تھا ۔ میں نے پوچھا ’’ آپ یہاں کس لیے تشریف لائے ہیں اور آپ کو شیر شاہ کیوں کہا جاتا ہے؟ ‘‘ شیرشاہ سوری مسکرا کر بولا ’’ ایک ہی سانس میں تم نے دو سوال کردیے ۔ پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ میرے دل میں کافی عرصے سے یہ خواہش کروٹیں لے رہی تھی کہ یہاں آکر اپنی بنائی ہوئی شاہراہ کا حال دیکھوں جسے تم جی ٹی روڈ کہتے ہو ۔ ستیاناس کر کے رکھ دیا ہے تم لوگوں نے اس عظیم شاہراہ کا ۔ اور دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ میں نے تنہا ایک شیر کو اپنی تلوارسے مار ڈالا تھا ، لہذا مجھے یہ خطاب مل گیا اور اتنا مشہور ہوا کہ لوگ میرے اصل نام فرید خان کو بھول گئے ۔‘‘ تم نے مغل خاندان کے دوسرے بادشاہ ہمایوں سے حکومت چھین کر اسے دربدر کیوں کردیا تھا؟ ‘‘  میں نے اگلا سوال کیا ۔

شیر شاہ مسکرا کر بولا ’’ میں حوصلہ مند اور بہادر تھا جب کہ ہمایوں نااہل تھا۔ ‘‘ ’’ مگر اس کی ضرورت تمہیں کیوں محسوس ہوئی کہ تخت دہلی پر قابض ہوجاؤ؟ ‘‘  میں نے پوچھا ۔ وہ سنجیدگی سے بولا ’’ اس زمانے میں ، رواج یہی تھا کہ جو حوصلہ ، جرأت اور اہلیت رکھتا ہو اور جس کے بازووں میں طاقت ہو ، اسے اقتدار حاصل کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا تھا ۔ ظہیر الدین بابر میں یہ تمام جوہر موجود تھے تب ہی تو وہ فرغانہ سے چل کر آیا اور دہلی پر قابض ہوگیا تھا ۔ جو حق بابر کو حاصل تھا ، وہی مجھے بھی حاصل تھا ۔ لہذا میں نے اپنا حق حاصل کرلیا ۔ تمام مغل حکمرانوں میں صرف بابر ہی ایسا بادشاہ تھا ، جو جہاں گیری اور جہاں بانی کا ہنر جانتا تھا ۔ وہ بھی جلدی موت سے ہمکنار ہوگیا اور میں بھی جلد ہی یہ جہاں چھوڑ گیا ۔ بابر کے جانشین کی طرح میرے جانشین بھی نا اہل ثابت ہوئے اس لیے ہمایوں کو دوبارہ اقتدار حاصل کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی ‘‘ ۔

میں نے پوچھا ’’ پورے مغل حکمرانوں کی حکمرانی ایک طرف اور تمہارے مختصر دورکو اگر ایک طرف رکھا جائے تو تمہارا پلڑا پھر بھی بھاری نظر آتا ہے ، ایسا کیوں ہے؟ ‘‘  شیر شاہ نے جواب دیا ’’ بات یہ ہے کہ تاریخ میں وہی حکمران زندہ رہتے ہیں جو اپنی رعایا کی فلاح و بہبود کے لیے منصوبے بناتے اور ان پر عمل درآمد کرواتے ہیں انھیں امن و امان اور انصاف مہیا کرتے ہیں ۔ میں نے عوام کے لیے سڑکیں کنویں ، سایہ دار درخت ، ڈاک کا تیز رفتار نظام اور سب سے بڑھ کر فوری انصاف مہیا کرنے والا نظام انصاف متعارف کروایا ۔ جس علاقے میں کوئی واردات ہوتی یا کوئی جرم ہوتا تو میں کوتوال شہر کو اس وقت تک جیل میں ڈال دیتا ، جب تک اصل مجرم گرفتار نہ ہوجائے ۔ یہ جرائم پر کنٹرول کرنے کا بڑا بہترین فارمولا ہے ۔ تم لوگ اسے کیوں نہیں آزماتے ؟ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے ۔ میں نے عوام کو انصاف ان کی گلی اور ان کے گھر کی چوکھٹ پر فراہم کیا ۔

اپنے محل میں کوئی گھنٹہ اور زنجیر نہیں لگوائی کہ پہلے عدل کی زنجیر تک پہنچو پھر عالم پناہ انصاف فراہم کریں گے ۔ کیا تمہیں پتہ ہے کہ ہندوستان کے دور دراز علاقوں سے سفر کر کے زنجیر عدل تک پہنچنے کی کوشش میں ہزاروں لوگ راستے میں ہی مارے گئے تھے ؟ میں نے اپنے خاندان کے کسی فرد کا خوبصورت مقبرہ نہیں بنوایا ، بلکہ شفا خانے ، درسگاہیں اور شاہراہیں تعمیر کروائیں ۔ اس لیے میرا پلڑا مغل خاندان کے مقابلے میں زیادہ بھاری ہے ۔ کیا تم بتا سکتے ہو کہ مغل حکمرانوں کے دور میں عام آدمی کے حالات کیا تھے ؟ تاریخ دراصل حکمرانوں کی سوانح عمری کا نام ہے ۔ جب حکمران رقص و سرور ، عشق و محبت اور عیش و آرام کرنے کے سوا عوام کے لیے کچھ نہیں کریں گے ، تو تاریخ صرف ان کے انھی ’’ کارناموں ‘‘ کے بارے میں بتائے گی ، لیکن مجھے میری ذاتی زندگی یا طرز حیات نے نہیں بلکہ میرے تکمیل کردہ عوامی اور فلاحی منصوبوں نے تاریخ میں ، اب تک زندہ رکھا ہوا ہے ۔

یہ اصول کل کے حکمرانوں پر بھی لاگو تھا اور آج کے حکمرانوں پر بھی لاگو ہوتا ہے ، تاریخ میں وہی حکمران زندہ رہے گا جو عوام کو کچھ ڈلیور کرے گا ۔ ورنہ نا اہل حکمرانوں کی ’’ داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں ‘‘ ۔ ابھی شیر شاہ سے اتنی ہی گفتگو ہوئی تھی کہ اس کا ’’ وقت ‘‘ پورا ہوگیا اور وہ اچانک ہی غائب ہوگیا ۔ اس کے ساتھ ہی میں اپنے قیمتی شلوار قمیض کے سوٹ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا ۔ اب کل میرا ارادہ ہے کہ شیر شاہ کباڑا مارکیٹ کراچی جاکر شیر شاہ سوری کی ذرہ بکتر ، خود ، تلوار اور ڈھال تلوار لے کر کباڑے میں فروخت کر کے اپنا نقصان پورا کرلوں ۔ نہ جانے آجکل لوہے کا کیا بھاؤ چل رہا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔