مقدس ایوان کی بے توقیری

نعمان خان  اتوار 23 جون 2019
خدارا! ایوان کے وقار کو مزید ٹھیس نہ پہنچائیں۔ (فوٹو: فائل)

خدارا! ایوان کے وقار کو مزید ٹھیس نہ پہنچائیں۔ (فوٹو: فائل)

یہ منظر راجہ بازار کی منڈی کا نہیں، یہ منظر کسی کھیل کے میدان میں تماشائیوں کا بھی نہیں۔ یہ منظر نہ تو کسی اکھاڑے کا ہے اور نہ ہی مچھلی بازار کا۔ یہ منظر ہے اس مقدس ایوان کا، جس کے فضائل و خصائل گنواتے ہوئے ہمارے دوغلے سیاستدان تھکتے نہیں، جس ایوان کے لیے یہ لوگ سر کٹنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔

لیکن شائد ان کے ہاں لفظ ’’مقدس‘‘ کے معنی شور شرابہ، گتھم گتھا، گالم گلوچ، جملے بازی، نعرے اور بدزبانی ہے۔ جب سے نئی حکومت آئی ہے، پارلیمنٹ کم اور ایک غیرمہذب ڈیرہ زیادہ لگتا ہے۔ جہاں ہر روز شور شرابہ تو ایک طرف، بیہودہ گوئی بھی سننے کو ملتی ہے۔ لیکن پھر سوچتا ہوں شائد یہ اس پارلیمنٹ نامی عمارت کی بددعا ہے، جو ان اراکین کا پیچھا کررہی ہے۔ جس طرح انہوں نے اس مقدس پارلیمنٹ کی عمارت کو بے توقیر کرکے رکھ دیا، اسی طرح اب یہ عمارت ان ہی اراکین کو دن بدن بے توقیر کررہی ہے۔ تب ہی تو ہمیں کبھی، ڈبّو، کبھی ہیجڑا اور کبھی ڈاکو، چور، جاہل، نکما، بے شرم، ٹریکٹر ٹرالی وغیر کی آوازیں سننے کو ملتی ہیں۔

ایوان میں تو کام ہے ’’بحث و مباحثہ‘‘ کا، مگر بحث تعمیری ہو، جس سے جمہور کو ثمر ملے۔ تلخ تنقید ضرور ہو مگر ادب کو ملحوظ خاطر رکھ کر۔ اختلاف ضرور ہو مگر حسن کے ساتھ۔ ایوان تو نام ہے ’’قانون سازی‘‘ کا۔ لیکن قانون سازی عوام کےلیے آسانی پیدا کرنے کا مظہر ثابت ہو۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاستدانوں نے بحث و مباحثہ کے معنی شور شرابہ اور قانون سازی کا مطلب گالی سازی کے اخذ کئے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کی پہلی تقریر سے لے کر بجٹ پیش ہونے تک جو ہوتا رہا ہے، کیا وہ جمہور کےلیے کوئی نیک شگون ہے؟ کیا عوام کو اس سے کوئی فائدہ حاصل ہوا؟ اس ایوان کے ایک اجلاس پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ کیا کوئی احساس نامی چیز موجود بھی ہے کہ نہیں؟ یہ پیسہ کہیں اور سے نہیں، بلکہ اسی ملک کے رہنے والے لوگوں سے وصول کیا جاتا ہے۔ کیا کبھی کسی ممبر نے اس بات پر بھی غور کیا ہے؟ پہلے اپوزیشن حکومت کو بولنے نہیں دے رہی تھی، اب حکومت نے بھی جارحانہ اننگ کا فیصلہ کرلیا اور اپوزیشن کو بولنے نہیں دے رہی۔ بجٹ کے بعد تیسرے اجلاس میں بھی اپوزیشن لیڈر کی تقریر مکمل نہیں ہوپائی۔ جب بھی اپوزیشن لیڈر تقریر کےلیے اٹھتے، حکومتی ارکان جھومنے لگتے۔ اور یہی کام اپوزیشن کررہی تھی جب وزیراعظم تقریر کےلیے اٹھتے تو اپوزیشن ارکان جملے پاس کرتے اور ایوان کو بار سمجھ کر واک آوٹ کرتے ہیں۔ آخر کب تک یونہی چلتا رہے گا؟ یہ ایوان کی تذلیل نہیں تو اور کیا ہے؟

28 فروری کا دن یاد کیجئے، جب پاک بھارت حالات کشیدہ تھے اور ایک جوائنٹ سیشن بلایا گیا تھا۔ کیا خوب منظر تھا۔ لگ رہا تھا کہ ایوان کی طاقت ہے، ایوان کی اہمیت ہے۔ سب ایک پیج پر تھے۔ سب کا مسلئہ ایک تھا، تب ہم کامیاب بھی ہوئے تھے۔ اب سوال یہ ہے کیا پاکستان کے جو بڑے مسائل ہیں ہم ان پر یکجا ہوکر ان پر قابو نہیں پاسکتے؟ معاشی بدحالی ہو یا پھر اندرونی خطرات، کیا ان سے نمٹنے کےلیے کم از کم ہم اس طرح یکجائی نہیں دکھا سکتے، جس طرح پاک بھارت حالات کشیدہ ہونے پر دکھائی تھی؟

خدا کےلیے اس ایوان کے وقار کو مزید ٹھیس نہ پہنچائیں۔ اس کی عزت صرف جملوں سے نہیں بلکہ عملی عزت کرنی ہوگی۔ اسی ایوان کےلیے بڑے بڑے سیاستدانوں کی بہت بڑی بڑی قربانیاں ہیں۔ ان کی قربانیوں کو یوں گالیوں میں نہ بہاؤ ورنہ پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ بہت تکلیف ہوتی ہے جب عوام ایوان کی کارروائی دیکھتے ہیں اور وہاں یہ گری ہوئی جملے بازی، بدزبانی اور بداخلاقی دیکھنے کو ملتی ہے، تو یقین جانیے بہت ناامید ہوجاتے ہیں۔ اور یہی خیالات ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں کہ بس اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

نعمان خان

نعمان خان

بلاگر ضلع باجوڑ سے تعلق رکھتے ہیں، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز سے ابلاغیات میں ماسٹرز کررہے ہیں۔ فنِ مباحثہ و مذاکرہ میں اپنی کامیابی کا لوہا منوا چکے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔