- اسمگلنگ کا قلع قمع کرکے خطے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے ، شہباز شریف
- پاکستان میں دراندازی کیلیے طالبان نے مکمل مدد فراہم کی، گرفتار افغان دہشتگرد کا انکشاف
- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
اب تو سانسوں پر بھی ٹیکس لگ گیا ہے!
بھلا ہو ہم وفاق میں رہنے والوں اور ہمارے سابق صدر ایوب خان کا، جنہوں نے اسلام آباد کو پلاننگ کے تحت دارالحکومت بنانے کا سوچ ہی لیا تھا تو اے کاش یہاں لگائے جانے والے درختوں کے بارے میں بھی کچھ غور و فکر کرلیا جاتا تاکہ عوام الناس کی منفعت کےلیے کچھ ہوجاتا۔ اب حال یہ ہے کہ ساٹھ کی دہائی میں لگائے جانے والے یہ ننھے ننھے پودے تناور درختوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ اب یہ ہماری ہمت ہے کہ ہم ایسے الرجی زدہ علاقے میں رہ رہے ہیں اور جی رہے ہیں۔
اسلام آباد میں لگائے گئے جنگلی شہتوت کے یہ درخت ایک امتحان سے کم نہیں۔ یہ پولن الرجی کے پھیلاؤ کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ ان درختوں کی وجہ سے نہ صرف پولن الرجی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ عمومی الرجی بھی بڑھتی ہے۔ اسلام آباد میں تو الرجی کے موسم میں سرکاری اسپتالوں میں ایک ہفتے کے دوران اوسطاً ساڑھے پانچ ہزار افراد علاج کی غرض سے لائے جاتے ہیں جن میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً تین ہزار بچے بھی ہوتے ہیں۔
یہ ساری تمہید باندھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ ہم خود متاثرین الرجی میں شامل ہیں اور وہ بھی صرف پولن نہیں بلکہ عمومی سالانہ الرجی میں۔ برسات ہو یا خزاں، سورج آگ برسا رہا ہو یا کوئی سنہری شام ہو، ہمیں کہیں بھی جانے اور اپنی لپ اسٹک سے کہیں زیادہ اپنے الرجی کے اسپرے کا خیال رہتا ہے۔ نہ صرف دوائیاں کھانی پڑتی ہیں بلکہ اس طرح ناک میں اسپرے کرنا پڑتا ہے کہ گویا کسان فصلوں پر جراثیم کش ادویہ کا اسپرے کررہے ہوں۔
اسپرے سے یاد آیا کہ پنجاب میں فصلوں پر جراثیم کش ادویہ سے بھی الرجی بڑھتی ہے اسی طرح شہروں فضائی آلودگی، پالتو جانوروں کے بالوں، گھروں میں بچھائے جانے والے قالینوں کے ذرات اور گرد و غبار سے بھی الرجی ہوتی ہے۔ اسی طرح سگریٹ پینے والے کو نقصان ہو نہ ہو لیکن سانس کا مریض تو مرنے ہی لگتا ہے۔ کبھی ناک بند ہو جاتی ہے تو کبھی دم گھٹنے لگتا ہے۔ بعض مریضوں کو کھانسی کا دورہ پڑتا ہے تو کبھی آنکھوں اور ناک سے پانی بہنے لگتا ہے۔ یعنی سانس کے مریضوں کی اتنی بری حالت ہوتی ہے کہ ناقابل بیان ہو جاتی ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ الرجی کا کوئی مستقل کوئی علاج نہیں، اتنا تو آپ کا جیون ساتھی آپ کا ساتھ نہیں نباہتا جتنا الرجی وفا کرتی ہے۔ الرجی کے فوائد بھی کچھ کم نہیں۔ نزلہ زکام کی وجہ سے ٹشو پیپر بنانے والی کمپنیوں کا کاروبار چلتا ہے۔ کسی فنکشن پر جانا ہو تو آسانی سے روتی ہوئی آنکھوں اور سوجی ہوئی سرخ ناک سے بہانہ بنانے میں آسانی ہوتی ہے اس لیے ناپسندیدہ دعوتوں سے نجات مل جاتی ہے۔
ڈاکٹر صاحبان پولن الرجی سے تو خوش ہی ہوتے ہیں لیکن عمومی الرجی کے مریض تو ان کےلیے ایسی مرغی ہوتے ہیں جو روز سونے کا انڈا دیتی ہے۔ ان کی خوشحالی میں بھی اضافہ ہوتا ہے کیونکہ قابل ذکر یہ ہے کہ الرجی کی نہ تو دوائیاں سستی ہیں نہ ہی اسپریز اور نہ ہی ای این ٹی ڈاکٹرز کی فیسیں کم ہیں۔
خیر! یہ سب تو اس دکھ بھری داستاں کی ایک کڑی ہے۔ جو ستم ہم پر بیتا اس کا آپ کو کیا علم؟ گزشتہ دنوں ہی ہماری الرجی کا اسپرے ختم ہوا۔ گھر پر اضافی بھی موجود نہ تھا۔ بڑی مشکل سے رات کاٹی، صبح ہوتے ہی کیمسٹ کی دکان پر جا پہنچے۔
جاتے ہی ان کے دانتوں کی نمائش دیکھنا نصیب ہوئی۔ جب انہوں نے اسپرے دیا تو اس کی قیمت تین سو کی جگہ تین سو ستر تھی۔ استفسار کیا تو وہ مسکراتے ہوئے بولے: ’’میڈم وہ پچھلے ہفتے کی قیمت تھی۔ اب تو سمجھیں سانسوں پر بھی ستر روپے کا ٹیکس لگ گیا ہے۔ یہ نیا پاکستان جو ہے۔ لیکن میڈم ہے یہ زیادتی تنخواہ دار طبقے کے ساتھ۔ آپ خود سوچیے یہاں تو غربت کی جگہ غریب کا ہی خاتمہ ہو رہا ہے۔ زیادہ افسوس ہمیں اپنے کاروبار کے ختم ہونے کا ہوگا کیونکہ غریب ہی نہ رہے تو دوائیاں کون کھائے گا؟ اس لیے کہ امیر افراد تو باہر سے دوائیاں منگواتے ہیں۔‘‘
مرتے کیا نہ کرتے، یہی سوچا کہ خان جی کے نئے پاکستان میں ہم جیسوں کی جگہ نہیں۔ صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے تو سانسوں پر بھی ٹیکس لگا کر ہمیں نظام تنفس کی قدر سکھا دی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔