لڑائی کے بعد مکا کس کام کا؟

میاں اصغر سلیمی  اتوار 23 جون 2019
صرف مینجمنٹ اور ٹیم میں اکھاڑ پچھاڑکافی نہیں غلط فیصلے کرنے والے بڑوں کا احتساب کون کرے گا؟۔ فوٹو: فائل

صرف مینجمنٹ اور ٹیم میں اکھاڑ پچھاڑکافی نہیں غلط فیصلے کرنے والے بڑوں کا احتساب کون کرے گا؟۔ فوٹو: فائل

مجھے بس ایک سوال کا جواب دے دیں، سرفراز احمدکیا عمران خان سے بڑے کپتان ہیں یا ان سے زیادہ کرکٹ معاملات کو سمجھتے ہیں، دوسری طرف سے کرکٹ شائق رضا سعید تھے جو بھارتی ٹیم کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کے بعدکرکٹ کے دوسرے دیوانوں اور مستانوں کی طرح انتہائی دلبرداشتہ تھے، ان کے مطابق میں آسٹریلیا سے لاکھوں روپے خرچ کر کے انگلینڈ آیا ہوں، کرکٹ کوبہت زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں جانتا۔

موجودہ لایئرز کرکٹ ورلڈ کپ میں آسٹریلوی ٹیم کا حصہ بنا اور اپنی آل راؤنڈر کارکردگی سے کینگروز کو عالمی چیمپئن بنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا، پرجوش تھا کہ اس ورلڈ کپ میں بھارت سے ہارنے کی روایت ٹوٹ کر رہے گی، میچ سے قبل وزیر اعظم عمران خان کی ٹویٹ پڑھی تو ایسا لگا کہ گویا میچ سے قبل پاکستانی ٹیم کو فتح کا نسخہ مل گیا ہو اورپاکستانی ٹیم 1992 ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کے کپتان کی ہدایات پر عمل کر کے کروڑوں شائقین کو فتح کی خوشخبری سنائے گی۔

میری یہ خوشی اس وقت دوبالا ہو گئی جب سرفراز احمد ٹاس بھی جیت گئے تاہم میں اس وقت سر پکڑ کر بیٹھ گیا جب قومی کپتان نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کر لیا،کوئی عقل سے بے بہرہ بھی بآسانی سے اندازہ کر سکتا تھا کہ بارش کی پہلے ہی پیشنگوئی ہو چکی تھی، ایسے میں پہلے فیلڈنگ کرنا خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف تھا، قومی ٹیم کی اس ناکامی پر رضا سعید ہی نہیں بلکہ پاکستان کے 21 کروڑ سے زائد عوام بھی دلبرداشتہ تھے اور ابھی تک پاکستانی ٹیم کی اس ذلت آمیز ناکامی کے صدمے سے باہر نہیں نکل سکے ہیں، گرین شرٹس کی اس ہار پر سوشل میڈیا پر ابھی تک طوفان بدتمیزی برپا ہے۔

’’ونگاں چڑھا لو منڈیو جے شاٹاں نہیں او مارنیا‘‘ سمیت کھلاڑیوں کی متعدد ویڈیوز وائرل ہو چکی ہیں،ایک ویڈیو میں تو کھلاڑیوں کو ریڑھی لگاتے، حجامت بناتے اور معمولی معمولی کام کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، شائقین کے مطابق سرفراز احمد کے پاس کیا گیدڑ سنگھی ہے کہ قومی ٹیم کی مسلسل ناکامیوں کے باوجود انہیں ورلڈ کپ میں بھی قومی ٹیم کا کپتان بنا دیا گیا، ورلڈ کپ کے دوران نہ ان کی کارکردگی میں تسلسل ہے اور نہ ہی ان کی فٹنس ایسی ہے کہ رشک کیا جا سکے۔ بھارت کے خلاف ایسے جمائیاں لیتے رہے جیسا کہ رات بھر سوئے ہی نہ ہوں۔

پاکستانی قوم کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی کی بھی ستائش کرتے ہیں تو اسے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں، اس کے واری واری جاتے ہیں اور اس کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں اور جب اس پر برا وقت آ جائے تو ساتھ دینے کی بجائے فوری طور پر نظروں سے بھی گرا دیتے ہیں، اسی طرح کی کچھ صورتحال موجودہ پاکستانی ٹیم کے ساتھ بھی ہے، ویسٹ انڈیز کے بعد پاکستانی ٹیم بھارت کے ہاتھوں کیا ہاری کہ پلیئرز کا انگلینڈ میں گھومنا پھرنا مشکل ہوگیا ہے، شائقین کے بدلتے تیور دیکھتے ہوئے ٹیم مینجمنٹ نے پلیئرز کو ہوٹل سے غیر ضروری طور پر باہر نکلنے اور کسی سے الجھنے سے بھی منع کر دیا ہے۔

یہ سچ ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے موجودہ کھلاڑیوں کی تنخواہ صدر مملکت سے بھی زیادہ ہے،اے کیٹگری کا کھلاڑی پی سی بی سے ماہانہ دس لاکھ روپے وصول کرتا ہے ، بی کیٹگری کے پلیئرز سات لاکھ، سی پانچ لاکھ اور ڈی کیٹگری کے کھلاڑی تین لاکھ روپے وصول کرتے ہیں، میچ فیس اور ٹی اے ڈی اے کی مد میں لاکھوں روپے الگ سے ملتے ہیں، کچھ عرصہ ٹیم میں رہنے کے بعد ہمارے یہ پلیئرز کروڑوں روپے میں کھیلنے لگتے ہیں، بڑے بڑے گھروں میں رہتے ہیں، مہنگی گاڑیوں میں گھومتے ہیں اور پرتعیش زندگی گزارتے ہیں، لیکن ان تمام باتوں کے باوجود شائقین کا گرین شرٹس کے ساتھ یہ رویہ بھی مناسب نہیں ہے، گیم ابھی آن ہے اور پاکستانی ٹیم کی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک رسائی کی ابھی بھی کچھ امید باقی ہے، اتوار کو پاکستانی ٹیم جنوبی افریقہ کے خلاف میدان میں اترے گی،اس میچ کے اختتام پر ہی گرین شرٹس کے عالمی کپ میں ’’اِن‘‘ رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ ہو سکے گا۔

اگر پاکستان کرکٹ ٹیم کی ورلڈ کپ کے میچز بالخصوص بھارت کے خلاف میچ کی بات کی جائے تو روایتی حریف کے خلاف مقابلے کے حوالے سے بہت کچھ تبصرے آ چکے ہیں۔ ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ نہ کرنے والے فیصلے پر ہر ایک نے تنقید کی۔ درست بات ہے۔کپتان سرفراز نے اس کا عجیب وغریب انداز میں دفاع کیا ہے کہ فیصلہ درست تھا، مگر ہمارے بولرز نے بہترین بولنگ نہیں کی۔

پوچھنا چاہیے کہ پہلی بار اس بولنگ لائن کے ساتھ کھیلے ہو؟ معلوم نہیں کہ پچھلے تین میچز، وارم اپ میچ اور انگلینڈ کے خلاف سیریز میں انہیں بولرز نے کیسی بولنگ کرائی، ان کی کیا فارم ہے اور نئی گیند سے یہ بالکل ہی وکٹیں نہیں لے رہے۔ جس کپتان کو اتنی سادہ باتیں معلوم نہ ہوں، جو کوچ ان چیزوں سے بے بہرہ ہے، کیاان کے ہاتھ میں پاکستان اور پاکستانی قوم کی نمائندگی کا جھنڈا پکڑانا درست ہے؟سرفراز میں تو اتنی بھی اخلاقی جرات ہی نہیں کہ کم ازکم اپنی یہ غلطی ہی تسلیم کر لیتے کہ ہاں ٹیم سلیکشن غلط تھی۔شعیب ملک سے رنز نہیں ہو رہے، آؤٹ آف فارم تو کیاہونا، ان کی کرکٹ کے آخری دن ہیں، ایک چلا ہواکارتوس ویسے بھی کیا شکار کر سکتا ہے؟

حارث سہیل تکنیکی اعتبار سے بہتر بیٹسمین ٹیم میں موجود ہیں، انہیں نہیں کھلایا۔ حسن علی آؤٹ آف فارم ہے، مسلسل شاٹ پچ گیندیں کرا کر چھکے کھاتا ہے۔ روہت شرما شاٹ پچ گیندوں کو تباہ کن انداز میں کھیلتا ہے ، حسن علی کا اس نے یہی حال کرنا تھا۔ محمد حسنین پاکستان کا تیز ترین بولر بنچ پر بیٹھا رہا،کم از کم اسے ہی کھلانے کا رسک لے لیتے کہ شائد اپنی غیر معمولی رفتار سے کھیل کے ابتداء میں ہی وکٹیں لینے میں کامیاب ہو جاتا۔

قدرت کے اپنے اصول ہیں، محنت کا بدلہ اچھا اور سستی ، نالائقی کا بدلہ برا ہی ملتا ہے۔ جن ملکوںنے کرکٹ ورلڈ کپ کے لئے محنت کی، اپنی ٹیم تیار کی، مخالفین کو سرپرائز پیکیج دیا، کھلاڑیوں میں جذبہ بھرا، ان کی خامیاں دور کیں اور لڑنے مرنے پر آمادہ کیا، انہیں ثمرات ملتے نظر آ رہے ہیں۔ انگلینڈ کی ٹیم پچھلے ورلڈ کپ میں بہت برا کھیلی، کوارٹر فائنل میں نہ پہنچ پائی۔ انگلینڈ نے اس کے بعد اپنا کپتان بدلا، کوچ تبدیل کیا، پورا ون ڈے سٹائل ہی بدل ڈالا۔

آج نہایت جارحانہ انداز سے مثبت، فیصلہ کن کھیلنے والی انگلش ٹیم سب کے سامنے ہے۔ اس ورلڈ کپ میں وہ فیورٹ ہے ، بھارتی ٹیم چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان سے ہاری۔ یہ واضح طور پر ایک تکا تھا، مگر اس سے پاکستانی کھلاڑیوں خاص کر سرفراز نے خوب فائدہ اٹھایا، دو سال تک کپتان بنا رہا اور کرکٹ پر خوب راج بھی کیا، بھارت نے اپنی اس ٹیم میں کئی اہم تبدیلیاں کیں۔ا یشون ان کا اہم بولر تھا،جبکہ یوراج سنگھ میچ ونر بیٹسمین،ویرات کوہلی نے اندازہ لگالیا کہ یہ کارتوس اب چل چکے ہیں۔ یوراج پاکستانی شعیب ملک سے ابھی تک بدرجہا بہتر کھلاڑی ہے، اس کے لئے مگربھارتی ٹیم میں جگہ نہیں تھی۔

ادھر شعیب ملک اپنی ناقص فارم اور خوفناک بیٹنگ سٹائل کے باوجود ٹیم میں شامل ہے۔ کوہلی نے ایشون کی جگہ مسٹری سپنر کلدیپ اور چاہل کو موقع دیا۔ دونوں نے بھارت کو کئی میچز اور ٹورنامنٹ جتوائے۔ پاکستان کے خلاف حالیہ میچ میں کلدیپ ہی نے فیصلہ کن وکٹیں لیں۔بمرا پر کوہلی نے اعتماد کیا، اس کی خامیاں دور کرائیں، آج وہ دنیا کا خطرناک ترین ون ڈے بولر ہے۔انضمام الحق پچھلے دو برسوں سے ٹیم کے ساتھ موجود ہیں ،مگر انہوں نے ٹیم میں موجود خامیوں کو دور کرنے کے لئے کچھ نہیں کیا۔

پہلی خامی خود کپتان سرفراز احمد ہیں، سرفراز کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی۔وہ اوسط سے کم درجے کے ون ڈے پلیئرہیں۔ کسی بھی اچھی ٹیم میں انہیں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ صرف اس لئے کھیل رہے ہیں کہ کپتان ہیں۔ سرفراز جیسی کیپنگ اور اس سے کئی گنا بہتر بیٹنگ کرنے والا رضوان موجود ہے، مگر اسے ٹیم میں نہیں شامل کر پا رہے۔سرفراز احمد بخوبی جانتے ہیں کہ اگر رضوان احمد ٹیم میں شامل کر لئے گئے تو ان کی قومی سکواڈ میں جگہ برقرار رکھنی مشکل ہو جائے گی۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کی یوں تو اور بھی بہت زیادہ خامیاں نظر آئیں تاہم سب سے بڑی خامی آخری دس اوورز میں اچھی بولنگ نہ کرنے والے بولرز ہیں، قارئین کو اچھی طرح یاد ہے کہ وسیم اکرم اور وقار یونس کی جوڑی آخری دس اوورز میں اس قدر تباہ کن بولنگ کرتی کہ حریف سائیڈز کے لئے 35 سے 40 رنز بھی بنانا مشکل ہو جاتے، وسیم اکرم کی اچانک اندر اور باہر جاتی ہوئی بولنگ اوربیٹسمینوں کے دلوں کو دہلا دینے والی وقار یونس کی یارکرز ہی گرین شرٹس کو فتح دلانے کے لئے کافی ہوتی تھیں لیکن افسوس صد افسوس موجودہ سکواڈ میں ہمارے پاس یارکر سپیشلسٹ بولرز نہیں، لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ لینے والی سلیکشن کمیٹی نے زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ ایسے بولرز ہی تلاش کر لئے جائیں جو وسیم، وقار اور شعیب اختر کا متبادل ثابت ہو سکیں۔

سوچنے اور محسوس کرنے کی بات یہ ہے کہ اگرچیف سلیکٹر کی ابتدائی ٹیم ورلڈ کپ کھیلتی جس میں عامر اور وہاب ریاض نہ ہوتے تو پاکستانی ٹیم کا کیا بنتا۔پاکستانی ٹیم میں ایک اور خامی آخری اوورز میں پاور ہٹرز لگانے والے بیٹسمینوں کا نہ ہونا ہے،قومی ٹیم کو عبدالرزاق کے بعد ایسا آل راؤنڈر ہی نہیں مل سکا جو ان کے خلا کو پورا کر سکے۔ عبدالرزاق خود متعدد بار پیشکش کر چکے ہیں کہ وہ مستقبل کے باصلاحیت آل راؤنڈرز تلاش کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ پی سی بی حکام کی طرف سے اس آفر کا مثبت جواب نہیں آیا ہے۔

ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی شرمناک کارکردگی کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ حرکت میں آ چکا ہے لیکن بورڈ حکام کی ان پھرتیوں کا کیا فائدہ جب چڑیا ہی کھیت چگ چکی ہوں، یا ایسے مکے کا کیا فائدہ جو لڑائی کے بعد مارا جائے، شائقین کرکٹ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی ناقص کارکردگی کا جائزہ لینے کے کمیٹی جولائی میں اپنی کاروائی کا آغاز کرے گی،یہ وہ کھیل ہے جو پی سی بی حکام سالہا سال سے کھیل رہے ہیں، اس بار بھی قومی ٹیم کے چند کھلاڑیوں اور مینجمنٹ کے کچھ عہدیداروں کو قربانی کا بکرا بنا کر بڑے سر بچا لئے جائیں گے، سلیکشن کمیٹی کو فارغ کرنے اور چیف سلیکٹر مکی آرتھر اور ان کے سپورٹنگ سٹاف کو ہٹانے کے دعوے کے جائیں گے،حالانکہ سلیکشن کمیٹی اور ٹیم مینجمنٹ کے اہم عہدیداروں کے معاہدے تو جولائی میں ویسے ہی ختم ہو رہے ہیں۔

عمران خان دنیائے کرکٹ کی ایک بڑی اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں، شائقین کو ایک امید بندھی تھی کہ ان کے وزیر اعظم بننے کے بعد ملکی کرکٹ پھلے پھولے گی، پی سی بی میںسالہا سال سے جاری اجارہ داری کا خاتمہ ہوگا،قومی ٹیم فتح وکامرانیوں کی نئی بلندیوں کو چھوئے گی لیکن افسوس صد افسوس ان کے ہوتے ہوئے بھی کچھ بھی تو نہیں بدلا، پاکستان کرکٹ ٹیم کا حال پہلے سے بھی برا ہو چکا ہے،اگر صورتحال جوں کی توں رہی تو دوسری ملکی کھیلوں کی طرح ہماری کرکٹ بھی ناکامیوں اور رسوائیوں کی اس گہری کھائیوں میں جا گرے گی جہاں سے نکالنا کسی کے بس کی بات نہیں ہوگی۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔