پاک رُوس قربتیں، رُوسی اسلحہ اور بھارتی پروپیگنڈہ

تنویر قیصر شاہد  پير 24 جون 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

سوویت یونین کے زمانے میں اور سرد جنگ کے دوران پا ک رُوس تعلقات نہایت سرد مہری کا شکار بنے رہے۔ پاکستان اور سوویت یونین ایک دوسرے کو شبے سے دیکھتے تھے۔ اگر ہم اُس دَور کے پس منظر میں ممتاز دانشور بریگیڈئر (ر) اے آئی ترمذی کی لکھی گئی دلچسپ کتاب Profiles of Intelligence کا مطالعہ کریں تو اسلام آباد اور ماسکو کے درمیان تعلقات کی ساری کہانی ایک فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔ سوویت یونین نے افغانستان میں یلغار کی تو بوجوہ پاکستان کو رُوسیوں کے خلاف کھڑا ہونا پڑا۔ تقریباً تین عشرے قبل افغانستان سے جارح رُوسی فوجوں کے نکل جانے کے بعد حالات خاصے تبدیل ہو چکے ہیں۔ پاکستان اور رُوس کے درمیان  کھنچی دیوار بھی منہدم ہو چکی ہے۔ دفاعی میدان میں بھی دونوں ممالک تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ پاکستان برسہا برس سے چینی اور مغربی اسلحے کا خریدار رہا ہے۔

اب وہ رُوسی ساختہ جدید ہتھیاروں کے حصول کی بھی کوششیں کر رہا ہے۔ پاکستان نے حال ہی میں رُوسی جنگی جہازوں اور اٹیک ہیلی کاپٹروں (سخوئی ایس یو 35 اور ایم آئی 35 ایم) کی خریداری میں اپنی گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ جون 2019ء کے وسط میں ’’شنگھائی تعاون تنظیم‘‘ کا 19 واں سربراہی اجلاس ’’بشکیک‘‘ میں ہُوا ہے۔ اس اجلاس کے دوران جناب عمران خان اور رُوسی صدر ولادیمر پوٹن کی باہمی اور خوشگوار ملاقات دونوں ممالک کے لیے ایک نیا جھونکا ثابت ہُوا ہے۔ اسی ملاقات کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہُوئے کہا تھا: ’’مجھے خوشی ہے کہ بدلتی دُنیا اور بدلتے حالات میں رُوس اور پاکستان ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ ہاں، ہم رُوسی ہتھیاروں کی خریداری میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے ہماری عسکری قیادت پہلے ہی سے رُوسی عسکری قیادت کے رابطے میں ہے۔‘‘ سیاسی و سفارتی محاذ پر پاک، رُوس تعلقات میں بہتری آنے سے دونوں ممالک کے فوجی تعلقات بھی بڑھے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال چند ماہ قبل اُس وقت سامنے آئی تھی جب پاکستانی فوجی دستوں نے رُوسی وار گیمز میں حصہ لیا تھا۔ اس کے بھی مثبت اثرات برآمد ہُوئے ہیں۔

رُوسی صدر پوٹن سے عمران خان کی حالیہ ملاقات سے قبل سپہ سالارِ پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ رُوس کا سرکاری دَورہ کر چکے ہیں؛ چنانچہ اس پس منظر میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ رُوس اور پاکستان کو قریب لانے میں جنرل باجوہ کی کوششوں کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ رواں برس کے ماہ فروری میں پاکستان کی (سابق) سیکریٹری خارجہ، تہمینہ جنجوعہ، نے اسلام آباد کے ایک تھنک ٹینک میں پاک ،رُوس تعلقات میں مزید بہتری اور قربت لانے کے لیے جو پانچ نکاتی تجاویز پیش کی تھیں، رُوس میں بھی انھیں سراہا گیا ہے۔ رُوس 2022ء میں دُنیا کی پانچویں بڑی معیشت بننے جا رہا ہے؛ چنانچہ پاکستان کی رُوس سے دوستی ثمر آور ہی ثابت ہو گی۔

بتایا جاتا ہے کہ 2025ء تک پاکستان اور رُوس کی باہمی تجارت 30 ارب ڈالر کو پہنچ جائے گی۔ ولادیمر پوٹن گزشتہ دو عشروں سے کامیابی کے ساتھ رُوس پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ اُن کا دَور ایک عام رُوسی کے لیے خوشحالی کا باعث بنا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم اس ضمن میں بھی رُوس سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ پلوامہ سانحہ اور بالا کوٹ واقعہ کے بیک گراؤنڈ میں جب پاک، بھارت تعلقات میں خطرناک کشیدگی دَر آئی تھی، رُوسی قیادت نے اس کشیدگی کے خاتمے میں ممکنہ حد تک کردار ادا کیا تھا۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان اگر رُوسی ہتھیار خریدنے میں دلچسپی رکھتا یا پروگرام بنا رہا ہے تو کئی عالمی شیطانی قوتیں اس راہ میں رکاوٹیں بھی ڈال رہی ہیں۔ مثال کے طور پر ’’دی ڈپلومیٹ‘‘ میں Krzysztof Iwanek کا پاکستان کے خلاف نہایت ہی دل آزار تازہ مضمون ۔ ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان مخالف ایسی مضمون بازی کے عقب میں کون ہو سکتا ہے؟

پاکستان کے برعکس سرد جنگ کے دوران بھارت، رُوس تعلقات میں خاصی قربتیں رہی ہیں۔ اب اگرچہ امریکا سے بھارتی تعلقات میں نئی قربتیں اور دوستی درآئی ہے لیکن بھارتیوں کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود بھارت، رُوس تعلقات میں کمزوری نہیں آئی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم، نریندر مودی، اور ولادیمر پوٹن کی اب تک تین باروَن آن وَن ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔

اپنے آخری بھارتی دَورے میں (5 اکتوبر 2018ء کو) پوٹن نے بھارتیوں سے تین اہم ڈیلیں کی تھیں: ساڑھے پانچ ارب ڈالر کی نقد ادائیگی سے بھارت ’’ایس 400‘‘ نامی جدید ترین رُوسی میزائل خریدے گا، بھارت میں رُوس کی طرف سے چھ ایٹمی پلانٹ لگائے جائیں گے اور بھارتی خلا بازوں کو رُوس اپنے ہاں تربیت دے گا۔ میزائل اگلے24 ماہ کے دوران بھارت کے حوالے کیے جائیں گے۔ امریکا نے رُوس کو یہ میزائل فروخت کرنے سے روکنے کے لیے CAATSA نامی ایک قانون بھی بنا رکھا ہے۔ بھارت کو مگر ان رُوسی مہلک ہتھیاروں کی فروخت پر امریکی خاموشی اُس کی منافقت اور دوغلے پَن کی تازہ مثال ہے۔ رُوس نے یہی ایس400 میزائل چین کو فروخت کیے تو امریکا نے فوری طور پر چین پر مخصوص فوجی پابندیاں عائد کر دی تھیں لیکن چین نے بھی کوئی پروا نہیں کی۔ ترکی بھی یہی میزائل خریدنے کے لیے رُوس سے معاہدہ کر چکا ہے لیکن امریکا مزاحم ہے۔ اُصولی طور پر انھی میزائلوں کی بنیاد پر بھارت کے خلاف امریکی قانون حرکت میں آنا چاہیے تھا لیکن امریکا خاموش ہے۔ وجہ؟ عالمی دفاعی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بھارت نے امریکا کو 18ارب ڈالر کے ’’دفاعی سازو سامان‘‘ کا جو آرڈر دے رکھا ہے، یہ ڈِیل بھی اُسے خاموش رہنے پر مجبور کر رہی ہے۔

جوں جوں پاک رُوس تعلقات میں بہتری آ رہی ہے، بھارتی پیٹ میں مروڑ اُٹھ رہے ہیں۔ بھارتی میڈیا کا جائزہ لیا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ اُسے یہ تعلقات ہضم نہیں ہو رہے؛ چنانچہ پاکستان کے ہر فیصلے کے خلاف بھارتی میڈیا میں گرد اُڑانے کی دانستہ کوشش کی جاتی ہے۔ بھارتی میڈیا دراصل پاکستان، بھارت تعلقات کو بلڈوز کرنے کی دانستہ کوشش کررہا ہے۔

ویسے تو نواز شریف کی طرف سے بھی بھارت سے دوستی کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں لیکن جب سے عمران خان وزیر اعظم منتخب ہُوئے ہیں، ان کوششوں کو  مزید مہمیز ملی ہے۔ بھارت کی طرف سے سرد اور منفی روئیے کے باوجود پاکستان نے جنوبی ایشیا میں کامل قیامِ امن کی خاطر بھارت کی طرف دوستی، مکالمے اور تعاون کا ہاتھ بڑھا رکھا ہے۔ ساری دُنیا یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ افسوس کی بات مگر یہ ہے کہ بھارتی میڈیا  بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر پاکستان کے خلاف شرانگیزی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ ہر بار ناکامی کے باوجود اُس کی ڈھٹائی برقرار ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ ایف اے ٹی ایف میں بھی پاکستان کے خلاف بھارتی کوششوں اور سازشوں کو ایک بار پھر خاک چاٹنا پڑی ہے۔ اس ضمن میں ہم چین، ترکی اور ملائیشیا کی مدد کے شکر گزار ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔