میثاق معیشت: اب نہیں تو کبھی نہیں!

علی احمد ڈھلوں  منگل 25 جون 2019
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

ایک عرصے سے ملکی اداروںکا جو آج حال بنا دیا ہے، اُس سے انکار ممکن نہیں، اپنی کرنسی، خزانے، بینکوں مطلب معیشت کو دیکھ لیںدل خون کے آنسو روتا ہے، چاروں صوبوں میں کرپشن کا جو لیول آج ہے، وہ کل کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا، کوئی پراجیکٹ یا فائل کھول لیں، ایک نئی کرپشن کہانی، یہ پانامے، اقامے، یہ منی لانڈرنگ، جعلی اکاؤنٹس کہانیاں، کل یہ سب کوئی سوچ سکتا تھا؟

یہ ایان سیریز، یہ انور ی داستانیں، یہ ہل میٹل قصے، یہ ٹی ٹی راج کپوروں کی ٹیکنیکل کارروائیاں، کل اتنے باریک کام کرنے والے ہنرمند کہاں تھے، اتنی بے رحم لوٹ مار، یہ تو زمانہ جاہلیت میں بھی نہ ہوئی۔

پنجاب کا برا حال، سندھ کا تو نہ ہی پوچھیں، قبرستان بن چکا، بلوچستان، کیا بات کریں، حکمرانوں سے کوئٹہ کی دو سڑکیں ہی ٹھیک نہیں ہو رہیں۔ بی آر ٹی منصوبے کے بعد خیبر پختونخوا کی بات ہی نہ کریں، ملک بھر میں صحت، تعلیم کا آج، کل سے برا، غریب، غربت کل سے زیادہ، مہنگائی، بے روزگاری ہر روز زیادہ، نہری نظام سے زرعی کھالوں تک، یوٹیلٹی اسٹوروں سے اسٹیل مل تک، پی آئی اے سے ریلوے تک، زراعت سے انڈسٹری تک، شرمندگی ہی شرمندگی۔ دیہات کی بات کریں، سب شہروں کا رخ کر رہے، شہروں کی بات کریں، صرف کراچی کو لے لیں، کبھی عربی شیخوں سمیت دنیا بھر سے لوگ یہاں ویسے ہی آیا کرتے، جیسے آج کل ہم دبئی جاتے ہیں۔

ان حالات میں کہیں این آر او کی آواز سنائی دے رہی ہے تو کہیں میثاق جمہوریت یا انتقام جمہوریت ! لیکن ان سب سے ہٹ کر آج ایک عرصے بعد پھر کسی نے کہا ہے کہ آئیں ’’میثاق معیشت‘‘ کر لیں۔ عمران خان نے تجویز کی تائید کرتے ہوئے اس پر عملدرآمد کے لیے تمام سیاسی پارٹیوں سے رابطہ کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ جب معاشی حالات اس قدر گھمبیر ہوں کہ عام آدمی بری طرح متاثر ہو رہا ہو تو کبھی کبھی سمجھوتے کر لینے چاہیئں۔ لہٰذا اس وقت واقعی ایک ایسے ’’میثاقِ معیشت‘‘ کی ضرورت ہے جس کا حصہ تمام قومی سیاسی پارٹیاں بنیں اور اسے پارلیمنٹ کی مکمل منظوری اور آئینی تحفظ فراہم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں، جس کے تحت ملک میں ہر پانچ سال یا اس سے پہلے جو بھی حکومت بنے وہ قومی معاشی اصلاحات کے ایجنڈے پر عملدرآمد کی پابند ہو۔

اس سلسلے میں نیشنل اکنامک چارٹر مرتب کرنے کے لیے پاکستان کے ماضی کے آٹھ دس سابق وزرائے خزانہ اور منصوبہ بندی کمیشن کے ماہرین اور آزاد معیشت دانوں کا پینل بنا کر قومی اقتصادی ایجنڈے کو کسی بھی سیاسی مقاصد سے بالاتر ہو کر مرتب کیا جانا چاہیے۔ جس کی اس وقت ضرورت پہلے سے کافی زیادہ ہے۔ ویسے بھی میثاق معیشت کوئی نیا کام نہیں ہے، دنیا بھر میں اسے اپلائی کیا گیا ہے اور خوبصورت بات یہ ہے کہ اس پر کسی کو اعتراض بھی نہیں ہوتا۔

اس کے لیے تحریک انصاف کو فوری طور پر اقدامات اُٹھانے چاہیئں، اور اگریہ لوگ واقعی مثبت پالیسیاں بناکر اس پر ثابت قدمی سے چلے تو پھر قوم بھی خودبخود ان کا ساتھ دے گی اور پھر دوسری پارٹیوں کو بھی چاہے نہ چاہے مجبوراً ان کا ساتھ دینا پڑے گا۔جیسا کہ وینزویلا میں ہیوگو شاویز نے اپنی پالیسیوں کی بدولت اپنی قوم کے دلوں پر راج کیا اور اس کے دور کے اختتام پر وینزویلا کی برآمدات 91.78 ارب ڈالرز تھی جو کہ ان کے ملک کی جی ڈی پی کا تقریباً پچیس فیصد ہے۔

ملائیشیاء میں بھی میثاق معیشت ہوا، مہاتیر محمد نے اپنی مثبت معاشی پالیسیوں کی بدولت اپنی قوم کا اعتماد حاصل کیا اور ملائیشیاء کی برآمدات جو 1981 میں 13ارب ڈالرز تھی، وہ اس کے دور کے خاتمے  پر 2003میں 117.85 ارب ڈالرز ہوگئی تھی جو ملائیشیاء کی جی ڈی پی کا 106.94فیصد بنتا ہے۔جب کہ آج ملائیشیا  کو دوبارہ مہاتیر محمد کی ضرورت پڑ گئی ہے تو وہ دوبارہ معاشی پالیسیوں کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں سے رابطے کر رہے ہیں۔

سنگاپورجو کراچی سے بھی چھوٹا ملک ہے اس کو جنرل لی نے انتھک محنت سے ایک معاشی طاقت بنادیا ہے ، انھوں نے اپنے ملک کے لیے کچھ نہ کیا سوائے اس کے کہ انھوں نے ہر سیاسی جماعت سے میثاق معیشت کا معاہدہ کیا اور کہا کہ آپ جیسی مرضی سیاست کریں مگر معیشت کو نقصان نہ پہنچے۔ سنگاپور کی برآمدات 800 ارب ڈالرز سے بھی زیادہ ہوچکی ہیں جو سنگاپور کی جی ڈی پی کا تقریباً 188فیصد ہے۔ تھائی لینڈ جو صرف سیر وسیاحت کے لیے مشہور تھا وہ بھی پاکستان سے معاشی طور پر انتہائی مضبوط ہوگیا ہے اور اس کی برآمدات 214.97 ارب ڈالرز ہے جو اس کی جی ڈی پی کا 75فیصد ہے۔ یہاں تک کہ بنگلہ دیش بھی معاشی طور پر ہم سے بہتر ہوچکا ہے۔

الغرض دنیا کے تمام ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں معیشت، تعلیم، بلدیاتی نظام اور داخلہ و خارجہ امور سمیت کم وبیش تمام شعبہ ہائے زندگی کی حکمت عملی کے بنیادی خد وخال بڑی حد تک مستقل بنیادوں پر متعین ہوتے ہیں اور حکومتوں کے آنے جانے سے ان میں کوئی بڑی تبدیلی شاذ و نادر ہی ہوتی ہے۔ امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی سمیت پوری مغربی دنیا اور جمہوریہ کوریا و جاپان وغیرہ جیسے ممالک اس حقیقت کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔

اس کے برعکس جن ملکوں میں جمہوری روایات مستحکم نہیں ہوتیں ان میں اقتدار میں آنے والا ہر گروہ ’’ہر کہ آمد عمارت نو ساخت‘‘ کے مصداق اپنی الگ شناخت قائم کرنے اور اپنی انفرادیت کا اظہار کرنے کے لیے اپنے پیشروؤں کی ہر پالیسی کو بدل ڈالنا ضروری سمجھتا ہے۔ وطن عزیز بھی اپنی عمر کی سات دہائیوں میں بارہا اس تجربے سے دوچار ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک اس ملک میں نہ کوئی مستقل تعلیمی نظام وجود میں آسکا ہے نہ معاشی پالیسیوں میں تسلسل اور استحکام ممکن ہوا ہے۔ ان حالات میں میثاق معیشت پر وزیراعظم کی آمادگی قومی مفاد کا تقاضا اور ہوشمندی کی راہ اپنانے کے مترادف ہے۔

یہ سب کچھ ماضی کے حکمرانوں کی آنکھوں کے سامنے ہوتا رہا مگر مجال ہے کے کانوں پر جوں بھی رینگی ہو۔یہ ہمارے قول وفعل کے تضادات، منافقتوں اور مصلحتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔لہٰذااگر موجودہ حکومت اس سلسلے میں سنجیدہ ہے اور نیک نیتی سے پاکستان کی معیشت کو مضبوط و مستحکم کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے انھیں خود آگے بڑھ کر اپنے فیصلوں اور عمل سے اس بات کو ثابت کرنا ہوگا اور اس کی بنیاد آزاد و خود مختارمعیشت پر رکھنی ہوگی۔ اس کے لیے شرط یہ ہے کہ پاکستان کے وسائل پر بھروسہ کیا جائے ، پاکستان میں پیداواری شعبوں پر توجہ دی جائے اور پاکستان میں تمام شعبوں میں ٹیکنالوجی کے ساتھ پیداوار شروع کی جائے۔

اس کے علاوہ ایڈہاک ازم ختم کرنا ہوگا ، انتظامی و غیر ترقیاتی اخراجات کے لیے اندرونی وبیرونی مالیاتی اداروں سے قرضوں کے حصول سے اجتناب کرنا ہوگا، افراط زر سے بچنے کے لیے نوٹوں کی پریس مشین کو تالا ڈالنا ہوگا، مالیاتی خسارے کو دور کرنے کے لیے درآمدات کو کنٹرول کرکے کم کرنا ہوگا اور برآمدات بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔

بہرکیف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی سوچ ترک کرکے صرف اور صرف پاکستان کی معیشت اور عوام کے لیے مشترکہ چارٹر مرتب کیا جائے جو دس سے بیس نکات سے زیادہ ہو۔ وزیر اعظم عمران خان مزید تاخیر کیے بغیر ماہِ جولائی میں قومی سطح کی ایک کانفرنس بلائیں جس میں تمام سیاسی پارٹیوں کے قائدین کو مدعو کرکے ان سے اپنے اپنے نمایندے نامزد کرنے کی درخواست کریں اور 14اگست 2019ء کو اتفاقِ رائے سے مرتب کردہ میثاقِ معیشت کا خاکہ تمام پارٹیوں کے نمایندوں کے دستخطوں کے ساتھ قوم کے سامنے ان نمایندوں کے ہمراہ پیش کر دیں۔ وزیراعظم کے اس اقدام کے آغاز ہی سے پتا چل جائے گا کہ حکومت مخالف سیاسی پارٹیاں اور گروپ کیا واقعی میثاقِ معیشت چاہتے ہیں یا محض سیاسی پوائنٹ اسکورنگ۔ اس حوالے سے سب سے مشکل صورتحال قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کے لیے ہوگی جو یقیناً اپنے دعوے کو عملی جامہ پہنانے سے گریز کریں گے۔

یہی صورتحال پاکستان پیپلز پارٹی کی ہوگی۔ وزیراعظم عمران خان کے لیے خود بھی دونوں بڑی پارٹیوں کے  ساتھ اتفاق رائے کرنا آسان نہیں ہوگا مگر حکومت میں ہونے کی وجہ سے یقینی طور پر عمران خان کو یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دنیا چاہیے۔ اس میثاقِ معیشت کے مسودے میں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی حوصلہ شکنی کے لیے خالص اقتصادی ایشوز پر فوکس کیا جانا چاہیے۔ یہی موقع ہے کہ ہم سب اکٹھے ہوں، معیشت کے لیے اکٹھے ہوں، ملک کے لیے اکٹھے ہوں تاکہ ہم مسائل کی دلدل سے نکل سکیں ورنہ اگر یہ موقع نکل گیا تو کبھی واپس نہیں آئے گا!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔