اے پی سی کا ممکنہ منظر نامہ

مزمل سہروردی  منگل 25 جون 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

مولانا فضل الرحمٰن نے آخر کار آل پارٹیز کانفرنس کی تاریخ کا اعلان کر دیا ہے۔ لیکن ابھی تک اس کے ایجنڈے اور اہداف کا اعلان نہیں کیا گیا۔ ایسے میں یہ سوال بہت اہم ہے کہ اس اے پی سی کا ایجنڈا اور اہداف کیا ہیں؟ کیا یہ  عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے منعقد ہو رہی ہے؟ کیا اس اے پی سی میں حکومت کو گرانے کے لائحہ عمل پر بات ہو گی؟

کیا ملک کی بڑی اپوزیشن جماعتیں اسلام آباد پر چڑھائی کے لیے تیار ہیں؟کیا سینیٹ میں تبدیلی کے لیے اسٹیج تیار ہے؟ کیا زرداری اور نواز شریف کے جیل میں ہوتے ہوئے پی پی پی اور ن لیگ کو ئی بڑی تحریک چلا سکتی ہیں؟ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور کی مصداق اس اے پی سی کے کھانے والے دانت کونسے ہیں اور دکھانے والے دانت کونسے ہیں؟

میں نہیں سمجھتا کہ اپوزیشن کی جماعتیں فوری طور پر اسلام آباد پر چڑھائی کے لیے تیار ہیں۔ خود مولانا فضل الرحمٰن بھی تیار نہیں ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی اپوزیشن کی جماعتوں کو بتایا ہے کہ وہ اکتوبر میں اسلام آباد میں چڑھائی کا ارداہ رکھتے ہیں۔ میں نے دوست سے پوچھا کہ اکتوبر کیوں؟ مولانا کا موقف ہے کہ ابھی گرمی ہے، لوگ نہیں آسکتے ہیں۔ اگست ٹھیک موسم ہے۔ لیکن اگست میں بڑی عید ہے۔ عید پر لوگ نہیں آئیں گے۔ عید کے بعد محرم آجائیں گے۔ اس لیے محرم کا بھی احترام کرنا ہوگا۔ اس طرح گرمی بڑی عید اور محرم کے بعد اکتوبر آجاتا ہے۔ لہذا سادہ بات تو یہی ہے کہ اس اے پی سی کے نتیجے میں حکومت کے خلاف فوری کسی بڑے ایکشن کا امکان نہیں ہے۔

اس منظر نامہ میں بھی ن لیگ کی بڑی اہمیت ہے۔ پی پی پی کے پاس پنجاب اور کے پی میں بڑی سیاسی قوت نہیں ہے۔ اسلام آباد پر چڑھائی کے لیے پنجاب اور کے پی کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ سندھ سے لوگوں کو اتنی بڑی تعداد میں اسلام آباد لاناممکن نہیں ہے۔ اگر اسلام آباد پر چڑھائی کرنی ہے تو کے پی اور پنجاب سے سیاسی قوت لانا ہوگی۔ مولانا کے پاس کے پی میں سیاسی قوت موجود ہے۔ پنجاب میں بھی مولانا کی جماعت جے یو آئی (ف) کی محدود سیاسی قوت موجود ہے۔ لیکن پنجاب میں ن لیگ اہم ہے۔ کیا ن لیگ ساتھ چلنے کے لیے تیار ہے؟ کیا کے پی سے اے این پی بھی رنگ بھر سکے گی؟ پی ٹی ایم کی حمایت بھی کے پی سے افرادی قوت لے آئے گی۔

تا ہم پنجاب کو متحرک کرنے کی کنجی ن لیگ کے پاس ہو گی۔ اور ن لیگ ابھی تک تیار نظر نہیں آرہی۔ سندھ سے پی پی پی کو بھی ایسا کوئی ریسپانس نہیں مل رہا ۔ جس سے یہ کہا جا سکے کہ پی پی پی سندھ سے بڑی افرادی قوت اسلام آباد لے آئے گی۔ پہلے ٹرین مارچ کے بھی کوئی اچھے نتائج نہیں تھے۔ اور اب نوابشاہ کے جلسے میں بھی لوگ بڑی تعداد میں نہیں آئے۔ اس کے مقابلے میں مولانا کے جلسے اور ملین مارچ بہت کامیاب رہے ہیں۔ ان میں لوگ آئے ہیں۔

کیا ن لیگ اسلام آباد پر چڑھائی کے لیے تیار ہے۔ مجھے نہیں لگتا۔ شہباز شریف ذاتی طور پر اسلام آباد پر چڑھائی کے حق میں نہیں ہیں۔ وہ نظام کو چلانا چاہتے ہیں۔ وہ محاذ آرائی نہیں بڑھانا چاہتے۔ لیکن نواز شریف کیا سوچ رہے ہیں، اہم ہے۔ کیا نواز شریف اسلام آباد پر چڑھائی کے حق میں ہیں؟ کیا وہ ضمانت کی جدو جہد چھوڑ کر اسلام آباد پر چڑھائی کا فیصلہ کر سکتے ہیں؟ اسی طرح پی پی پی بھی زرداری کی ضمانت پر ڈیل کر سکتی ہے۔ فریال تالپور کی ضمانت پر بھی ڈیل ممکن ہے۔ اس تناظر میں مولانا کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ دونوں بڑی جماعتوں کا کوئی پتہ نہیں، کب کہاں سے راستہ بدل لیں۔

کیا اے پی سی پارلیمنٹ کے اندر لڑنے کی کوئی حکمت عملی بنا سکتی ہے؟کیا سینیٹ میں تبدیلی پر کوئی اتفاق ممکن ہے؟ کیا اسلام آباد پر چڑھائی سے پہلے سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد پر اتفاق ہو سکتا ہے؟ پی پی پی ایسے اشارے دے رہی ہے کہ یہ ممکن ہے، اس پر بات ہو سکتی ہے۔ لیکن پی پی پی اس کے عوض چیئرمین سینیٹ کا عہدہ اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے۔ پی پی پی کا موقف ہے کہ خود نواز شریف نے کہا تھا کہ وہ رضا ربانی کو چیئرمین سینیٹ ماننے کے لیے تیار ہیں۔ تو اب رضا ربانی کو چیئرمین بنا دیا جائے۔ لیکن ن لیگ اب ایسا نہیں سوچتی۔ ن لیگ کا خیال ہے کہ وہ سینیٹ میں پی پی پی سے عددی اعتبار سے بڑی پارٹی ہے۔ اس لیے چیئرمین پر اس کا حق ہے۔ جب آفر کی گئی تھی تب قبول نہیں کی تھی۔ اس لیے اب اس آفر کی بات نہیں ہو سکتی۔

سینیٹ میں تبدیلی پی پی پی کے لیے آسان فیصلہ نہیں ہے۔ اس تعاون کے عوض ہی سندھ کی حکومت ملی تھی۔ اس تعاون کو ختم کرنے کی بنیاد پر سندھ کی حکومت ختم ہو سکتی ہے۔ پی پی پی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ تمام دروازے بند نہیں کرنا چاہتی۔ اس لیے ایک طرف دبے الفاظ میں یہ بات تو کرتی ہے کہ سینیٹ میں تبدیلی کے لیے تیار ہیں۔ لیکن پھر خود ہی اس سے ہٹ بھی جاتی ہے۔ کیا اے پی سی میں چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کا اعلان کر سکتی ہے۔ پی پی پر اس کے لیے دباؤ ہو گا۔ لیکن پی پی پی کے لیے یہ ایک کڑوی گولی ہوگی۔ کیا پی پی پی یہ کڑوی گولی کھانے کے لیے تیار ہے۔ یہ ایک سرپرائز ہوگا۔ اے پی سی کی کامیابی کا دارومدار اسی پر ہے ۔ اگر یہ فیصلہ بھی نہ ہو سکا تو اے پی سی کو مکمل طورپر ناکام کہا جا سکے گا۔

اے پی سی بجٹ کو مسترد کر دے گی۔ بجٹ کو عوام دشمن قرار دے دے گی۔ کہے گی کہ ہم عوام کے ساتھ ہیں۔ عوام کا مقدمہ لڑیں گے۔ مشکل وقت میں عوام کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ بجٹ کوپاس نہیںہونے دیں گے۔ اتحادیوں سے رابطوں کے لیے کمیٹی کا اعلان بھی ہو سکتا ہے۔ مینگل صاحب کو دعوت دی جا سکتی ہے۔

قومی اسمبلی میں عدم اعتماد لانے کا بھی اعلان ہو سکتا ہے۔ یہ ایک اچھی حکمت عملی ہو گی۔ کیونکہ اس سے عمران خان اپنے اتحادیوں کے مزید دباؤ میں آجائیں گے۔ حکومتی اتحادیوں کو تبدیلی کے لیے تیار کرنے سے عمران خان کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ ابھی بجٹ کو منظور کرانے کے لیے عمران خان کو اتحادیوں کی ناجائز شرائط ماننا پڑ رہی ہیں۔ ایسے میں اگر اے پی سی یہ اعلان کرتی ہے کہ وہ قومی اسمبلی کے اندر تبدیلی لانے کے لیے کوششیں شروع کر رہی ہے اور وزارت عظمیٰ حکومتی اتحادیوں کو دے سکتی ہے تو عمران خان کی مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔ عمران خان بند گلی میں آجائیں گے۔

کیا ن لیگ پنجاب میں ق لیگ کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ اگر یہ ممکن ہو جائے تو چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ نامزد کیا جا سکتا ہے۔ ایسی صورت میں ق لیگ ٹوٹ سکتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ن لیگ کو اس سب کا کیا فائدہ ہے۔ لیکن اس اے پی سی کا بنیادی نقطہ یہی ہے کہ سب کے فائدہ نقصان سے بالاتر ہو کر سوچنا ہوگا۔ تب ہی کچھ ممکن ہے۔ اگر فائدہ نقصان کے چکر میں ہوںگے تو کچھ ممکن نہیں ہوگا۔

اے پی سی چند بڑے جلسوں او رریلیوں کا بھی اعلان کر سکتی ہے۔لیکن ماضی میں اس کا تجربہ اچھا نہیں ہے۔ جب کسی ایک کی ذمے داری نہ ہو تو کسی کی ذمے داری نہیں ہوتی۔ اس لیے جلسہ اور ریلیاں ناکام ہو جاتی ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ پیسے کون لگائے گا۔ کیا پیسے لگانے والے ساتھ ہیں۔ اے پی سی کے فیصلوں سے صاف ظاہر ہو جائے گا کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔ جارحا نہ فیصلے بتائیں گے وہ ساتھ ہیں۔ بزدلانہ فیصلے بتائیں گے وہ ساتھ نہیں ہیں۔فیصلے بتائیں گے کہ کون کتنا لڑنے کے لیے تیار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔