بچپن کی بلوغت

شیخ جابر  جمعـء 6 ستمبر 2013
shaikhjabir@gmail.com

[email protected]

مائیں حیران اور نانیاں دادیاں پریشان ہیں کہ بچوں کو کیا ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا تو کبھی دیکھا نہ سنا تھا۔ لڑکے اور لڑکیاں بالغ ہوتی ہی تھیں لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا تھا کہ بچے بچپن ہی میں بالغ ہوجائیں۔ کیا قیامت ہے کہ بچوں میں 6 اور 7 برس کی عمر میں ہی بلوغت کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ آپ کے آس پاس بھی یقیناً ایسے کئی بچے ہوں گے جن کا لڑکپن اور نوجوانی کا زمانہ آتا ہی نہیں وہ براہِ راست نوزائیدگی اور بچپن کے بعد عالمِ شباب کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ معصوم بچوں سے اُن کا بچپن اور نوجوانی چھن چکا ہے۔ مستقبل قریب میں معصومیت، بچپن، لڑکپن اور نوجوانی قبیل کے الفاظ صرف لغات میں ملا کریں گے۔ ہماری نسلوں کا مستقبل ایسی معصومیت سے تہی نظر آتا ہے۔ جوش نے کہا تھا کہ ’ہمیں تو موت ہی آئی شباب کے بدلے‘۔ واقعہ یہ ہے کہ آج کے بچوں پر بچپن کے بدلے شباب ہی آتا ہے۔

یہ 1980 کے اواخر کی بات ہے جب ڈیوک یونی ورسٹی میڈیکل سینٹر، رتھ کیرولینا، امریکا کی ’’مارسیا ہرمین گڈنس‘‘ نے ’’امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس‘‘ کے ساتھ ایک مطالعے کی بنیاد رکھی۔ 17000 لڑکیوں کو شاملِ مطالعہ کیا گیا۔ حیران کُن نتائج سامنے آئے۔ ایسے کہ کسی کو توقع نہ تھی۔ نتائج کے مطابق سفید فام لڑکیوں میں بلوغت کی اوسط عمر 9.9 برس سامنے آئی جب کہ سیاہ فام لڑکیوں میں یہ عمر 8.8 برس تھی۔ یہ 1980 کے اواخر کی بات ہے جب کہ آج کے مطالعات یہ بتا رہے ہیں کہ آج امریکا میں 16 فیصد سے زائد لڑکیاں 7 برس کی عمر سے قبل ہی بالغ ہوجاتی ہیں۔ 8 برس کی عمر میں سِن بلوغت کو پہنچنے والی لڑکیوں کا اوسط آج 30 فیصد سے بھی زائد ہے۔

’’کیپلو وٹز‘‘ کا کہنا ہے کہ 1840 میں ’’اس کینڈے نیویا‘‘ میں لڑکیوں کی بلوغت کی عمومی عمر 16 یا 17 برس ہوا کرتی تھی۔ 1900ء میں امریکی لڑکیوں میں بلوغت کے آثار 14 برس کی عمر سے ظاہر ہونے لگے تھے۔ ایسا صرف یورپ ہی میں نہیں تھا چند دہائیوں قبل یعنی 1980ء تک چین کے دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی بلوغت کی اوسط عمر 17.3 تھی۔ آج یہ اعداد و شمار چین کی ترقی کے ساتھ ساتھ ترقی کرکے کہیں کے کہیں پہنچ گئے ہیں۔ آئرلینڈ میں بلوغت کی عمر 1986ء میں 13.52 تھی جو 2006ء تک 12.53 ہوگئی۔ جے ایم ٹیز کا خیال ہے کہ 1840ء سے 1950ء تک کی دہائیوں میں بلوغت کی عمر 4 ماہ کم ہوتی چلی گئی ہے۔ جاپان میں البتہ ایسا ہوا کہ یہ رجحان بہت بعد میں نظر آیا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ رجحان جاپان میں پھیلا بہت تیزی سے۔ مثال کے طور پر 1945ء سے 1975ء کی ہر دہائی میں لڑکیوں کی بلوغت کی عمر 11 ماہ کم ہوتی چلی گئی۔

آج کے دور نے بچوں سے اُن کا بچپن ہی نہیں چھینا اُن کی آزادی اور ان کی تفریحات بھی چھین لی ہیں۔ فلاڈلفیا کے بچوں کے اسپتال کے ’’پیڈیا ٹریشنر‘‘، ’’کرس فڈنر‘‘ کا کہنا ہے کہ جلد ظاہر ہونے والی بلوغت نے بچوں سے اُن کی معصومیت اور بچپن چھین لیا ہے، اس ظلم کے علاوہ بھی ہمارے بچے کئی طرح کے ظلم سہہ رہے ہیں مثلاً وہ فطرت اور فطری مظاہر سے دور ہوتے جارہے ہیں، نیز ان کی آزادی بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔ بچوں کی نسل فربہی مائل ہے، ان میں تحرک بھی کم ہوتا ہے۔ یہ آسانی سے متعدی امراض اور ہارمونی تبدیلیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔

اس رجحان کے نتیجے میں بچیوں میں طرح طرح کی پیچیدگیاں اور امراض جنم لے رہے ہیں۔ مغرب میں جس چیز نے خطرناک شکل اختیار کرلی ہے وہ ہے چھاتی کا سرطان۔ جلد بالغ ہونے والی لڑکیوں میں چھاتی کا سرطان ہونے کا خطرہ اس لیے بھی بڑھ جاتا ہے کہ ان میں دیگر لڑکیوں کے مقابلے میں زیادہ طویل عرصے ’’اسٹروجن‘‘ متحرک رہتے ہیں۔ نفسیاتی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں ایسی لڑکیاں شدید ذہنی اور جسمانی الجھنوں کا شکار نظر آتی ہیں۔ ایک جانب تو ان کا ذہن اور ان کا جسم اس اچانک اور اتنی بڑی تبدیلی کے لیے بالکل بھی تیار نہیں ہوتا دوسری جانب گھر کے افراد اور معاشرے کی نظروں میں وہ خود کو مجرم محسوس کرنے لگتی ہیں۔ بلاوجہ ہی ان کے لاشعور میں ایک گناہ کا سا تصور آن بیٹھتا ہے۔

تیسرا بُعد سہیلیوں سے دوری ہے۔ وہ اپنی ہی ہم جولیوں سے بلوغت سے قبل کی بے تکلفی نہیں رکھ پاتیں۔ دوسری طرف سے بھی یہ ہی معاملہ ہوتا ہے۔ سہیلیوں سے ایک قسم کی دوری اور تنہائی پاکستانی لڑکیوں میں بھی نوٹ کی گئی۔ ایک عمومی بلوغت میں بھی بچیوں کو تمام تر تبدیلیاں عجیب اور کسی قسم کا مرض دکھائی دیتی ہیں۔ ان خاص حالات میں تو وہ بہت ہی پریشان ہوجاتی ہیں۔ کچھ کو تو ساری دنیا ہی اجنبی اور ویران لگنے لگتی ہے۔ اس تمام تر ذہنی دبائو اور الجھن کا دوسرا سب سے بڑا شکار ایسی بچیوں کے والدین بنتے ہیں۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ وہ اپنا تمام تر غصہ اور جھنجھلاہٹ والدین پر نکالتی ہیں۔ والدین سے تعلقات میں خرابیاں آنے لگتی ہیں، گھر کا ماحول خراب رہنے لگتا ہے۔ بچیوں میں تبدیلی کا آغاز عموماً پسینے کی بو میں تبدیلی سے ہوتا ہے۔ ایسا کچھ جگہوں پر محض 5 برس کی عمر میں بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ بچوں کے ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ مائوں کو اس بارے میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

قبل از وقت بلوغت سے جنم لینے والے مسائل بے شمار ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہ 7 برس میں بالغ ہونے والی لڑکی کی شادی کی عمر کیا ہونی چاہیے؟ بلوغت کے کچھ عرصے بعد بچوں کو خودمختار تصور کیا جاتا ہے۔ 7 برس میں بالغ ہونے والی کو کب خودمختار تصور کیا جائے گا؟ کیا وہ اپنے فیصلے خود کرنے کی مجاز ہوگی؟ کیا اب والدین ان کی کفالت کے ذمے دار نہیں ہوں گے؟ جس طرح بلوغت کا ایک ’’نیو نارمل‘‘ سامنے آتا جارہا ہے، کیا اب اسی طرح کفالت کا بھی ایک ’’نیونارمل‘‘ طے کیا جائے گا؟ یا سرکار ان نئے بالغوں کی کفالت کی ذمے دار ہوگی؟ اگر ایسا ہوگا تو اس طرح جنم لینے والی نئی پیچیدگیوں اور جرائم کا ذمے دار کون ہوگا؟ اور اس کی سزا کس کو ملے گی؟ یا اس کی بھی بھینٹ 7 برس کی نابالغ عورتیں چڑھیں گی؟ کیا 10 سالہ بچے کو ووٹ کا حق دے دیا جائے گا کیوں کہ وہ بالغ ہے؟ اور کیا 10 سالہ بچی اسمبلی کے انتخابات کی اہل ہوگی؟ اگر نہیں تو بلوغت کے کتنے عرصے بعد یہ حق ملنا چاہیے؟ مثلاً اگر بلوغت کے 5 برس بعد تو کیا 5 برس کی عمر میں بالغ ہونے والی بچی 10 برس کی عمر میں ملک کی وزیرِاعظم بننے کی اہل قرار پاسکے گی؟ وغیرہ۔

ماہرین کے نزدیک بچوں کی معصومیت چھیننے والے اس خطرناک رجحان کے اسباب نامعلوم ہیں۔ جدیدیت، ترقی، کیمیائی مادے، عریانی و فحاشی قبل از وقت بلوغت کے اسباب ہوسکتے ہیں۔ وہ افراد جو کسی بھی طرح ’’اسٹروجن‘‘ یا ’’زینو اسٹروجن‘‘ وغیرہ کے زیر اثر آجائیں تو ان میں اور ان کی نسل میں قبل از وقت بلوغت کا رجحان نظر آتا ہے۔ آج تیز اور خطرناک کیمیکل کہاں نہیں ہیں؟ صابن، ٹوتھ پیسٹ، شیمپو، لوشن، خوشبویات، مچھر مار ادویات، میک اپ کا تمام تر سامان، غذائیں، دودھ، گوشت سب کچھ خطرناک کیمیائی مادوں کے زیرِ اثر ہیں۔

یہ انسانی تاریخ کی ظالم ترین تہذیب ہے جس نے بچوں سے ان کی معصومیت تک چھین لی ہے۔ یہ جتنا بڑا ظلم ہے اتنی ہی بڑی سزا کا حق دار بھی۔ اگر فطرت نے اس تہذیب کو سزا دی تو تاریخ کا اگلا صفحہ سادہ ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔