میرٹ کا جنازہ ہے۔۔۔۔۔۔

ایاز خان  جمعـء 6 ستمبر 2013
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

زمبابوے کے خلاف پہلے کرکٹ ٹیسٹ میں قومی ٹیم کی بے بسی دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ مصباح الحق اور اظہر علی پہلی اننگز میں ففٹیاں نہ کرتے تو عین ممکن تھا پاکستان یہ میچ چوتھے دن ہی ہار جاتا۔ زمبابوے کی ننھی منی بولنگ نے پہلے ہماری تجربہ کار بیٹنگ لائن کو تہس نہس کیا اور پھر بولروں کو بے بس کر کے رکھ دیا۔ پاکستانی بیٹسمینوں کو 249 تک محدود کرنے کے بعد زمبابوے نے 327 رنز بنا ڈالے۔ پاکستان کی دوسری اننگز کے آغاز پر بھی مجھے یوں لگا کہ مخالف بولر زمبابوے کے نہیں ویسٹ انڈیز کے عروج کے زمانے کے فاسٹ بولر ہیں جن کی گیندیں وکٹ پر پڑنے کے بعد دکھائی نہیں دیتی تھیں۔ صرف 27 رنز پر تین وکٹیں گر چکی تھیں۔ پہلے مصباح اور پھر عدنان اکمل سنچری میکر یونس خان کا ساتھ نہ دیتے تو شکست کی ہزیمت سے بچنا بہت مشکل تھا۔ آج پہلے ٹیسٹ کا آخری دن ہے‘ پاکستان اب جیت بھی جائے تو بڑی بات نہیں ہوگی۔

زمبابوے کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو پاکستان کرکٹ کی سپر پاور ہے۔ زمبابوین کرکٹ بورڈ کے پاس کھلاڑیوں کو میچ فیس ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں‘ دوسری طرف ہمارے کھلاڑی دولت میں کھیلتے ہیں۔ ان کے بورڈ کی غربت کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے پلیئرز کو ہوٹل میں ٹھہرا سکتے ہیں نہ کنوینس فراہم کر سکتے ہیں۔ زمبابوین پلیئرز کو اپنے گھروں سے پبلک یا پرائیویٹ ٹرانسپورٹ سے گرائونڈ میں آنا پڑتا ہے۔ تمام میچ ہرارے میں کرانے کی وجہ بھی پیسوں کی کمی تھی۔ زمبابوے کے دورے میں ہم دونوں ٹی ٹوئنٹی میچ جیتے‘ ون ڈے سیریز میں پہلا میچ ہارنے کے بعد ہوش آیا اور تین میں سے دو میچ جیت کر فاتح ٹھہرے۔ ٹیسٹ میچ کا فیصلہ آج ہو جائے گا۔ دوسرے ٹیسٹ میں کیا معرکہ ماریں گے اس کا بھی پتہ چل جائے گا۔ ہم جیتے ضرور لیکن ایک بڑی اور ایک چھوٹی ٹیم کا فرق کہیں نظر نہیں آیا۔

پاکستانی ٹیم کی اتنی بری پرفارمنس کی وجہ کیا ہے؟ ویسٹ انڈیز میں ہماری کارکردگی ٹھیک تھی۔ زمبابوے کے مقابلے میں ویسٹ انڈیز کہیں بہتر ٹیم ہے۔ پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ ماضی قریب میں بہترین پرفارم کرنے والی ٹیم اتنا برا کھیلنے لگی۔ مجھے لگتا ہے ٹیم کی سلیکشن ٹھیک نہیں ہوئی۔ پتہ نہیں چیف سلیکٹر کون تھا۔ واقفان حال کہتے ہیں جس کو ٹیم کے ساتھ بھجوایا جانا مجبوری تھی‘ ٹیم کی سلیکشن بھی اسی نے کی ہے۔ میدان میں ٹیم اتارنے میں بھی لگتا ہے ’’چیف سلیکٹر‘‘ ہی کردار ادا کر رہا ہے۔ مصباح الحق چونکہ ہرارے کے پہلے ٹیسٹ میں ’’بزرگ‘‘ ترین قومی کپتان کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں‘ اس لیے وہ ٹیم کی سلیکشن کے وقت اپنی رائے دینے سے گریز ہی کرتے ہوں گے۔

عمر اکمل کے ساتھ جو کیا گیا وہ یقیناًکپتان کے ذہن میں تازہ ہو گا۔ پہلے ٹیسٹ کی وکٹ پر گھاس چھوڑی گئی تھی۔ یعنی ہماری  بولنگ کی کمزوری کا احساس ہمارے کمزور ترین حریف کو بھی تھا۔ فاسٹ بالروں کی گیندوں میں جان نظر بھی آئی۔ ٹاس بھی زمبابوے جیت گیا۔ میچ کے لیے ٹیم کی سلیکشن بھی ایسی ’’کمال‘‘ کی تھی کہ تیز بولروں کی مددکرنے والی وکٹ پر پاکستان ایک فاسٹ بولر اور دوسرے راحت علی کے ساتھ میدان میں اترا۔ شاہ دماغوں نے محمد عرفان کو ون ڈے سیریز کے بعد گھر بھجوا دیا۔ وہاب ریاض ٹیم کے ساتھ ہونے کے باوجود ریزرو میچوں پر بیٹھے رہ گئے۔ جنید خان نے اچھی بولنگ کی لیکن دوسرے اینڈ پر راحت علی کی کمزور بولنگ نے ان کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔ راحت علی کو کھلانا کسی کی مجبوری تھی تو عبدالرحمان کی جگہ وہاب ریاض کو کھلا کر ٹیم کو بیلنس کیا جا سکتا تھا۔ سعید اجمل نے سات آئوٹ کیے تو کسی حد تک عزت بچ گئی ورنہ پچاس ساٹھ کی لیڈ ہو جاتی تو ہماری بیٹنگ پریشر میں ہی ڈھیر ہو جاتی۔

پی سی بی اس وقت نگرانوں کی نگرانی میں ہے۔ وہ اپنی من مرضی کرنے میں آزاد ہیں۔ انھیں جس قدر ’مینڈیٹ‘ دیا گیا ہے وہ اس کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ٹیم کی سلیکشن ہو یا میڈیا رائٹس دینے کا معاملہ سب کچھ ان کی مرضی سے ہو رہا ہے۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو مجھے خدشہ ہے سری لنکا اور جنوبی افریقہ کے ساتھ سیریز میں ہماری ٹیم کی وہ درگت بنے گی کہ اس کی مثال کرکٹ میں مشکل سے ملے گی۔ نیتوں میں فتور ہو تو یہ ممکن نہیں ہوتا کہ نتائج مثبت مل جائیں۔ زمبابوے جیسی کمزور ٹیم کے خلاف خرم منظور کی ’’شاندار‘‘ کارکردگی بھی سب نے دیکھ لی۔ پی سی بی میں سفارش اور کوٹہ سسٹم چلے گا تو کرکٹ کا بیڑہ غرق ہونا یقینی ہے۔ قومی ٹیمیں عالمی سطح پر قوموں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ٹیلنٹ کی جگہ اپنی پسند کے کھلاڑیوں کو ان ٹیموں میں شامل کرنا شروع کردیا جائے تو تباہی مقدر بن جاتی ہے۔ ٹینس اور اسنوکر کے علاوہ کرکٹ ہی وہ کھیل ہے جہاں سے کبھی کبھار کوئی اچھی خبر آ جاتی ہے۔ لگتا ہے اس کی تباہی کا بھی آغاز کر دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کرکٹ کے شوقین ہیں‘ وہ کھیلتے بھی رہے ہیں۔ ان کے دور میں کرکٹ تباہ ہو گئی تو اس سے زیادہ بدقسمتی اور کیا ہو گی۔

اب تو عمران خان بھی سیاست میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ اس طرف دھیان دینے کے لیے ان کے پاس بھی وقت نہیں ہے۔ کسی اور کو اس طرف توجہ کرنے کی ویسے بھی ضرورت نہیں ہے۔ انڈین کرکٹ ٹیم جو پاکستان کا مقابلہ کرنے سے ڈرتی تھی آج ٹیسٹ کرکٹ کی ریٹنگ میں ہم سے اوپر ہے۔ انڈین کرکٹ بورڈ اس پوزیشن میں آ چکا ہے کہ اس نے انگلینڈ کے خلاف 5 ٹیسٹ میچوں کی سیریز حاصل کر لی ہے۔ 1959ء کے بعد یہ موقع آیا ہے کہ انڈیا‘ انگلینڈ میں 5 ٹیسٹ میچ کھیلے گا۔ ہمارے کرکٹ کے میدان پہلے ہی ویران پڑے ہوئے ہیں‘ شاید کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ باہر کے میدانوں میں اپنے پلیئرز کی عمدہ کارکردگی سے خوش ہونے والوں سے یہ ’عیاشی‘ بھی چھین لی جائے۔ عمر اکمل کو سپر فٹ قرار دے دیا گیا ہے۔ کسی حکومتی عہدیدار میں اتنی ہمت ہے کہ وہ عمر کو محض ایک خبر پر باہر بٹھانے والوں کا احتساب کر سکے۔ خبر دینے والے کے سورس کا قصور ہو سکتا ہے لیکن جنھوں نے اندھا دھند اس خبر پر اعتبار کر کے اتنا بڑا فیصلہ کر لیا ان سے تو پوچھا جا سکتا ہے۔ بہر حال فیصلہ کرنے والوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں‘ کوئی ان سے کچھ نہیں پوچھے گا۔ وہ مستقبل میں اور زیادہ پرکشش عہدے حاصل کر لیں گے۔ یہاں صرف اچھے تعلقات ہی کام آتے ہیں۔

ہاکی کا جنازہ نکل چکا ہے‘ کرکٹ کو بھی دھیرے دھیرے موت کے منہ میں دھکیلا جا رہا ہے۔ ایک ایک کر کے سارے ادارے تباہ ہو رہے ہیں۔ ہم انھیں بچانے کے بجائے ان کی مزید تباہی کا سامان کر رہے ہیں۔ فلم انڈسٹری تباہ ہوئی تو کسی کو فرق نہیں پڑا۔ بسنت کے تہوار کو ہندوانہ قرار دے کر شجر ممنوع بنا دیا گیا۔ کیا آپ نے یوم آزادی سڑکوں پر منانے والے نوجوانوں کو میوزک پر ناچتے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہ میوزک پاکستانی نہیں تھا۔ ہمارے نوجوان پاکستان کا یوم آزادی انڈین میوزک پر ناچ کر منا رہے تھے۔ اپنا سب کچھ اپنے ہاتھوں سے تباہ کیا جائے تو پھر دوسروں کی چیزوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ چاہے وہ میوزک ہی کیوں نہ ہو۔ کرکٹ کو بچانے کے لیے کون آگے آئے گا؟ کوئی آئے گا بھی یا نہیں۔ میرٹ کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔