ماؤں کی گود اُجاڑتے یتیم خانے

محمد زبیر نیازی  پير 9 ستمبر 2013
انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے امریکا نے چین اور روس کو دنیا کے بدترین ممالک قرار دیا ہے. فوٹو : فائل

انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے امریکا نے چین اور روس کو دنیا کے بدترین ممالک قرار دیا ہے. فوٹو : فائل

یہ روز کینڈس کی زندگی کا انتہائی الم ناک دن تھا۔ وہ چین کے چھوٹے سے شہر ’’شائو گوان‘‘ کے ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھی اپنے آنسو پونچھنے کوشش کر رہی تھی، مگر اُس کی یہ کوشش بار آور ثابت نہیں ہو رہی تھی۔

کچھ دیر قبل اُس کے ساتھ بیٹھے شخص نے اُسے یہ الم ناک خبر دی تھی کہ، جس بچی کو اُس نے چار سال قبل ایک یتیم خانے سے گود لیا تھا، درحقیقت وہ بچی اُس یتیم خانے کو کسی نے فروخت کی تھی۔ یتیم خانے کی دستاویزات کے مطابق کینڈس کو یہ بتایا گیا تھا کہ یہ بچی ایک شخص کو سڑک پر لاوارث ملی تھی جو اسے یتیم خانے لے آیا تھا، حالاں کہ ایسا نہیں تھا۔

کینڈس اب ہزاروں میل کا سفر طے کر کے امریکا سے چین آئی ہے اور اپنے بیٹی ایریکا (فرضی نام) کے حقیقی والدین کو تلاش کر رہی ہے؟ لیکن تین برس گزرنے کے باوجود آج بھی وہ اپنی منزل سے کوسوں دور ہے۔

کینڈس کی طرح لیو لی کِن کی زندگی کا بھی یہ بہت بُرا دن تھا۔ وہ اپنی ملازمت کے سلسلے میں گھر سے باہر تھا کہ اُسے اُس کی اہلیہ کا فون موصول ہوا۔ اُس نے روتے ہوئے بتایا کہ اُس کا دو سال کا بیٹا ’’لیو جِنگ جُن‘‘ لاپتا ہوگیا ہے۔ لیو اپنے گھر کی طرف دوڑا اور اپنے بیٹے کی تلاش میں لگ گیا۔ دونوں میاں بیوی نے رشتے داروں کو فون کیے، پولیس سے رابطہ کیا، مگر بے سود۔ جوں جوں سورج ڈھل رہا تھا، لیو اور اُس کی بیوی کی پریشانی بڑھ رہی تھی۔ بالاخر لیو کے ذہن میں ایک ترکیب سوجھی، وہ جہاں رہتا تھا وہاں سڑک پر ایک عمارت میں کیمرے نصب تھے۔ اُس نے سوچا کیوں نہ ان کیمروں سے مدد لی جائے۔ کیمرے کی فوٹیج جب دیکھی گئی تو اُس نے لیو کے اوسان خطا کر دیے۔ اس ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا کہ ایک شخص بچے کو اغواء کر کے لے جا رہا ہے۔

چین میں بچوں کا اغواء، یتیم خانوں کی اغواء کاروں کے ساتھ ملی بھگت اور ان بچوں کی بیرون ممالک منتقلی کی جب بھی بات ہوگی تو فطری طور پر ہمارا ذہن اُس ’’ سرد جنگ‘‘ کی طرف جائے گا جو چینی اور مغربی میڈیا کے مابین گذشتہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ دونوں طرف وقتاً فوفتاً ایک دوسرے پر مختلف قسم کے الزامات دھرتے رہتے ہیں اور کسی صورت ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ لیکن اس سرد جنگ سے قطع نظر دنیا کے مختلف ممالک کی طرح چین میں بھی بچوں کے اغواء اور غیرقانونی طریقے سے اُن کی بیرون ملک اسمگلنگ کا مسئلہ نہ صرف موجود ہے بلکہ گذشتہ عشرے کے دوران اس میں حیرت انگیز اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔

خود چین حکومت کو بھی مسئلے کی سنگینی کا احساس ہے اور اُس نے اس سے نمٹنے کے لیے خاطرخواہ اقدامات بھی کیے ہیں، جن کے نتیجے میں بڑی حد تک مسئلے پر قابو بھی پایا جا چکا ہے، لیکن یہ کہنا کہ اس مسئلے کو بالکل جڑ سے اُکھاڑ پھینکا گیا ہے، صحیح نہیں ہوگا۔ گذشتہ برس چینی پولیس نے ملک کی سب سے بڑی آبادی والے دو صوبوں گانگ دونگ اور سچوان میں کارروائی کر کے 89 بچوں کو اغواء کاروں کے قبضے سے بازیاب کروایا تھا۔ اس موقع پر ملک بھر سے 355 مشتبہ افراد کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔ اس جیسی درجنوں کارروائیاں ہمیں گذشتہ برسوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔

بچوں کے اغواء اور ان کی خرید و فروخت کے خلاف پہلی کارروائی 10 برس قبل مئی 2002ء میں اُس وقت عمل میں آئی جب گوانژی صوبے کی پولیس نے ایک بس سے 28 معصوم بچیوں کو بازیاب کیا۔ تمام بچیوں کی عمریں تین ماہ سے کم تھیں۔ رپورٹ کے مطابق انہیں خواتین کے استعمال کردہ ہینڈ بیگز میں رکھا گیا تھا۔ ان میں سے ایک بچی ہلاک ہوگئی، جب کہ دیگر کی حالت انتہائی نازک تھی۔ ان تمام بچیوں کو گوانژی صوبے سے بارہ سے چودہ ڈالر میں خریدا گیا تھا اور انہیں صوبہ Anhui لے جایا جا رہا تھا۔

چینی بچوں کے اغواء کی وارداتوں میں اضافے اور بعض یتیم خانوں کے اس مکروہ دھندے میں ملوث ہونے کی دو بڑی وجوہات بتائی جاتی ہیں۔ پہلی وجہ تو بعض چینی اور امریکی یتیم خانے ہیں جو پیسے کے لیے کسی بھی قسم کا غیرقانونی اور غیراخلاقی عمل کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ عموماً دنیا بھر میں وہ مائیں جن کی گود سونی ہوتی ہے وہ اپنی مامتا کی تڑپ بجھانے کے لیے یتیم خانوں سے بچے گود لیتی ہیں۔ یہ ایک پسندیدہ اور اخلاقی عمل ہے جسے دنیا بھر میں سراہا جاتا ہے، لیکن جب سے اس عمل میں پیسے کی ریل پیل شامل ہوئی ہے، اس نے اس پسندیدہ عمل کو گدلا کردیا ہے۔ بعض یتیم خانے پیسے کی لالچ میں زیادتی کی آخری حدوں تک چلے جاتے ہیں۔ اُنہیں صرف بچہ چاہیے جسے فروخت کر کے وہ اپنی پیسے کی ہوس بُجھا سکیں، چاہے وہ بچہ کوئی اغواء کار کسی ماں کی گود اُجاڑ کر ہی کیوں نہ لایا ہو۔

بچوں کے اغواء کی دوسری بڑی وجہ اندرون ملک کئی برسوں سے رائج ’’ایک بچہ پالیسی‘‘ ہے۔ وہ والدین جن کے ہاں اولاد نہیں ہوتی یا اولاد ہے مگر بیٹا نہیں، وہ اپنے بڑھاپے کے سہارے کے لیے یتیم خانوں سے بھاری رقوم کے عوض لڑکے گود لیتے ہیں۔ اس عمل سے جہاں والدین کو لڑکے ملتے ہیں وہیں یتیم خانوں کی بھی چاندی ہو جاتی ہے۔

ایک چینی خاتون اسمگلر نے 2010ء میں ایک نشریاتی ادارے سے بات چیت میں اعتراف کیا تھا کہ 90ء کی دہائی میں وہ چند ڈالرز کے عوض یتیم خانوں کو بچے سپلائی کرتی تھی، پھر یتیم خانوں نے مزید بچے مانگنا شروع کر دیے۔ پہلے یتیم خانے فی بچہ 120 ڈالر دیتے تھے، پھر اُنہوں نے250 ڈالر دینا شروع کیے اور 2005ء میں یہ رقم بڑھ کر 500 ڈالر تک جا پہنچی۔

گوانگ ژاہو صوبے میں واقعی امریکی قونصلیٹ کے ایک بیان کے مطابق چینی بچوں کو گود لینے کا سب سے بڑا مرکز امریکا ہے، جہاں مجموعی طور پر ایک تہائی بچے گود لیے جاتے ہیں۔ قونصلیٹ کے مطابق گذشتہ چند برسوں کے دوران اُنہوں نے70 ہزار بچوں کے لیے ویزے جاری کیے۔ سب سے زیادہ تعداد 2005 میں دیکھی گئی جب آٹھ ہزار بچوں کو امریکیوں نے ایڈوپٹ کیا۔ ’’ہونان اسکینڈل‘‘ کے بعد پولیس کی پھرتیوں کے سبب اس تعداد میں خاصی کمی آئی اور گذشتہ برس 2587 بچوں کے ویزے جاری ہوئے، جن میں سے اکثریت لڑکیوں کی تھی۔

چین حکومت بھی اس سنگین مسئلے سے غافل نہیں ہے۔ حال ہی میں حکومت کی جانب سے بچہ گود لینے کے قوانین سخت کیے جانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ سرکاری میڈیا کے مطابق بیجنگ حکومت ملک میں بچوں کی اسمگلنگ اور غیرقانونی طور پر بچہ گود لینے کے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت قوانین بنانے پر غور کر رہی ہے۔ حکومت کی بچوں کو گود لینے سے متعلق امور کی ایجنسی کی سربراہ جی گانگ نے ’’ڈیلی چائنا‘‘ نامی اخبار کو بتایا کہ اس سال کے آخر میں نیا قانون پیش کر دیا جائے گا، جس میں صرف سرکاری یتیم خانے ہی بچوں کو قانونی طور پر گود لے سکیں گے۔

چین میں بچوں کے اغواء کے بعد والدین کو کس کرب سے گزرنا پڑتا ہے اور وہ والدین جو اپنے رضاعی بچوں کے حقیقی والدین کو تلاش کرنا چاہتے ہیں، اُنہیں کس قسم کی مشکلات پیش آتی ہیں، ان تمام سوالوں کا جواب جاننے کے لیے ایک دستاویزی فلم کا جائزہ لیتے، جس کے خالق ’’چارلی کسٹرجل‘‘ ہیں۔

اس فلم میں چین سے اغواء ہونے والے بچوں کے حوالے سے بہت سے سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ ڈکومنٹری ’’لیو لی کِن‘‘ اور روز کینڈس نامی دو والدین کے گرد گھومتی ہے، جن کا مضمون کے ابتدائیہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ دونوں والدین میں سے ایک کی زندگی اپنے مغوی بیٹے کی تلاش میں جہنم بنی ہوئی تو دوسری ماں اپنی رضائی بچی کے حقیقی والدین کو تلاش کرتی پھر رہی ہے۔ آئیے اس ڈکو منٹری پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

چارلی لکھتے ہیں کہ میری ’’لیو لی کن‘‘ سے پہلی ملاقات اپنی ڈکومنٹری کے سلسلے میں ہوئی تھی، ممکن ہے روز کینڈس اور لیو لی کن کا پس منظر کچھ زیادہ مختلف نہ ہو لیکن دونوں والدین گزشتہ چند برسوں سے اپنے بچوں کے بارے میں حقیقت جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دونوں اس حوالے سے بھرپور کوشش کر چکے ہیں لیکن سوائے انہیں مایوسی کے کچھ حاصل نہیں ہوا۔

چین میں بچوں کی اسمگلنگ اور اُنہیں گود لیے جانے کے درمیان تعلق نہ صرف پیچیدہ بلکہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جس پر سب نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ہر سال کتنے بچے اغواء ہوتے ہیں اور پھر وہ کہاں جاتے ہیں، اس بارے میں حتمی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ موضوع کی حساسیت کے باعث چینی سرحدوں کے باہر بھی لوگ اس موضوع پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ امریکا اور یورپ میں ہزاروں ایسے خاندان ہیں جنہوں نے چینی بچے گود لے رکھے ہیں۔

حتمی طور پر بھلے ہی ان اعداد و شمار کے بارے میں زیادہ معلومات نہ ہوں لیکن یہ مسئلہ اُس سے کئی گنا زیادہ سنگین ہے، جتنا کہ لوگ اس کے بارے میں جانتے ہیں۔ اس ڈکومنٹری کو بناتے ہوئے میں اور میری بیوی نے درجنوں ایسے چینی باشندوں سے گفت گو کی جن کے بچے اغواء ہوئے۔ علاوہ ازیں ہم نے اُن امریکیوں سے بھی گفت گو کی جنہوں نے چینی بچے گود لے رکھے ہیں۔ ان میں سے کئی ایسے ہیں جنہیں پتا ہے کہ اُن کے بچے یتیم خانوں کو ملے نہیں تھے بلکہ اُنہیں فروخت کیا گیا تھا، لیکن وہ خاموش ہیں۔ شاید اس لیے کہ کوئی اُن سے اُن کے بچے چھین نہ لے ۔

36 سالہ روز کینڈس (جو کہ اوہائیو کی رہائشی اور ایک تھیریپیسٹ ہیں) نے جب بچہ گود لینے کا فیصلہ کیا تو اُس نے چین کا انتخاب کیا۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو یہ کہ چین میں بچہ گود لینا دنیا کے کسی بھی ملک کی نسبت کافی سستا ہے۔ دوسرا یہ کہ کینڈس سمجھتی تھی کہ چینی بچے کسی بھی دوسرے ملک کے بچوں کی نسبت کافی کیوٹ ہوتے ہیں۔ کینڈس وہ دن کبھی نہیں بھول سکتی جب اُس نے ایریکا کو گود لیا تھا۔ یہ بہت خوش گوار دن تھا اور کیوں نہ ہوتا۔ نہ صرف کینڈس بلکہ ہر اُس شخص کے لیے یہ دن خوش گوار ہوتا ہے جن کی عمر ڈھل رہی ہو اور اُسے اولاد ہونے کی کوئی امید بھی دکھائی نہ دے رہی ہو۔

کینڈس بتاتی ہے کہ جس کمپنی سے اُس نے رابطہ کیا تھا اُس نے اپنی تشہیر کچھ ان الفاظ میں کی تھی: ’’ یہ 20 سال پرانی کمپنی ہے جو اب تک درجنوں بچوں کو نئے والدین سے ملوا چکی ہے۔‘‘ جب بچی کو گود لینے کا وقت آیا تب بھی ایسا کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا جسے دیکھ کر انسان شکوک و شبہات میں مبتلا ہو۔ کینڈس نے پہلی بار جب ایریکا کو دیکھا تو اُسے اُس کے اندر ایک اپنائیت کا احساس ہوا۔ یتیم خانے میں موجود تمام افراد کا رویہ بڑا دوستانہ تھا اور وہ بڑے پر جوش نظر آ رہے تھے۔ کینڈس کو ایسے لگا جیسے اُس کا سپنا پورا ہوگیا ہو۔ یتیم خانے کا ڈائریکٹر اُنہیں ایک خوب صورت لان میں لےگیا، جہاں دوران گفت گو اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ کینڈس بتاتی ہے کہ اُس نے بڑی خوب صورت اداکاری کی۔ بہرحال دونوں ماں بیٹی گھر گئے اور اپنی نئی زندگی کا آغاز کیا۔

ابتدائی طور پر تو حالات معمول پر رہے لیکن ایریکا جب چار برس کی ہوئی تو اُس نے اپنے حقیقی والدین سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اُس نے کینڈس سے کہا کہ کیا وہ اُس کے حقیقی والدین کو تلاش کرنے میں اُس کی مدد کر سکتی ہے؟

کینڈس اس بارے میں واقعی کچھ نہیں جانتی تھی، لیکن بچی کے پُرزور اصرار پر اُس نے انٹر نیٹ پر سرچنگ شروع کی۔ اُسے Research china.org‘‘ نامی ایک ادارہ ملا، جو گود لیے گئے بچوں کو اُن کے حقیقی والدین سے ملانے کی خدمات انجام دیتا ہے۔ اس ادارے کے بانی ’’برین ایچ اسٹو‘‘ ہیں۔ برین نے خود بھی تین بچوں کو گود لے رکھا ہے۔ برین نے ایریکا کے کاغذات پر نظر ڈالی اور کینڈس کو ایک بری خبر سنائی۔ اُس نے کہا کہ یوں لگتا ہے جیسے ایریکا کے ایڈوپشن کا تعلق صوبہ ’’ہونان‘‘ میں ہونے والے اغواء اسکینڈل کے ساتھ ہے۔‘‘

یہ اسکینڈل، نومبر 2005ء میں منظر عام پر آیا تھا اور اس نے امریکا کے اُن لوگوں کو حواس باختہ کر دیا تھا، جنہوں نے چینی بچے گود لے رکھے تھے۔ خبر کے مطابق صوبہ ہونان اور دیگر صوبوں سے نومولود بچوں کو چین کے بعض بڑے یتیم خانوں کو فروخت کیا گیا اور جن والدین نے ان یتیم خانوں سے بچوں کو گود لیا تھا اُنہیں بچوں کی جائے پیدائش سے متعلق غلط معلومات فراہم کی گئی تھیں۔ اسٹو کا کہنا تھا کہ اس اسکینڈل کے منظر عام پر آنے اور حکومت کی جانب سے سخت اقدامات کے بعد اُس یتیم خانے، جہاں سے ایریکا کو گود لیا گیا تھا، میں بچوں کو گود لیے جانے کی شرح گھٹ گئی تھی، جس کا واضح مطلب تھا کہ یتیم خانہ اس قبیح فعل میں ملوث تھا۔

اسٹو بتاتے ہیں کہ بہت سے والدین نے اس خبر کے بعد خاموشی اختیار کر لی (حالاں کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ بچوں کے حقیقی والدین تک پہنچنے کی کوشش کر تے، اور اُن سے پوچھتے کہ کیا واقعی اُنہوں نے اپنی مرضی سے بچہ یتیم خانے کے حوالے کیا تھا یا اُن کے بچے کو کسی نے اغواء کیا تھا) لیکن کینڈس نہیں رکیں۔

اُس نے مجھے کہا کہ میں:’’میں (حقیقت) جاننا چاہتی ہوں۔‘‘ لہٰذا وہ بچی کے حقیقی تلاش میں لگی رہیں۔ اُس نے ایک شخص کو ملازمت پر رکھا اور اُس کے ذمے ایریکا کے یتیم خانے کے اردگرد اشتہارات لگانے کی ذمے داری سونپی گئی۔ ان اشتہارات میں بچی سے متعلق معلومات درج تھیں۔ کینڈس کی یہ کوشش رائیگاں گئی، لیکن اُس نے ہمت نہیں ہاری۔ کینڈس ہر ماہ برین اور لان (سٹو کی بیوی) کو باقاعدگی سے فون کرتی۔ دو سال تک جدوجہد کے بعد بالاخر کینڈس کی جدوجہد رنگ لائی اور اُسے یہ کام یابی ملی کہ ’’لان‘‘ اُس کے ساتھ چین کا سفر کرنے اور ایریکا کی اصل جنم بھونی تلاش کرنے پر آمادہ ہو گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ڈکومینٹری میں کینڈس کے ساتھ دوسرا کردار ’’لیو لی کن‘‘ کا ہے جس کے بیٹے ’’ جنگ جن‘‘ کو اغوا ء کرلیا گیا تھا۔ لیو لی کِن نے اپنے بیٹے کی تلاش میں چپہ چپہ چھان مارا، مگر اُس کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ اغواء کے پہلے ہفتے وہ اور اُس کی بیوی بمشکل ہی سو پائے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہم پر دن اور رات کیسے گزرتے تھے ہم بیان نہیں کر سکتے۔ بچے کی تلاش میں پولیس نے بھی تھوڑی بہت ہماری مدد کی لیکن کچھ حاصل نہ ہو سکا۔ آج اس واقعے کو تین سال بیت چکے ہیں لیکن جِنگ جن کی فائل آج بھی کھلی ہوئی ہے۔ لیو کی ایک سات سال کی بیٹی ہے، اس کے علاوہ اُس کی کوئی اولاد نہیں ۔ دوست اور رشتے دار لیو پر زور دیتے رہے کہ وہ اپنی بیوی کو چھوڑ دے۔ وہ ’’جنگ جن‘‘ کی گم شدگی کا ذمے دار اُسے سمجھتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بیٹے پر ٹھیک سے نظر نہیں رکھتی تھیں۔ جواب میں لیو ہمیشہ یہی کہتا:’’میرے لیے یہ ممکن نہیں۔‘‘

اپنی سات سالہ بیٹی کے ساتھ دونوں میاں بیوی کبھی مقامی اخبارات تو کبھی ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے دفاتر میں ملتے۔ اُنہوں نے بچے کا نام لاپتا بچوں کی درجنوں ویب سائٹس پر دیا۔ اُس کے رشتے دار ہر اُس جگہ گئے جہاں تک وہ جا سکتے تھے۔ اُس نے دیگر لوگوں سے بھی رابطے کیے، جن کے بچے گم ہو گئے تھے تاکہ ریلیاں نکال کر حکومت پر دبائو ڈالا جا سکے۔ اس طرح کی ایک ریلی میں میں نے شرکت بھی کی، جہاں والدین اپنے پیاروں کی تصویریں اُٹھائے حکومت سے بچوں کی بازیابی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کینڈس جب لان کے ہم راہ چین پہنچی تو وہ سب سے پہلے شوائو گوان گئے جہاں اُنہوں نے ’’ہی زائولن‘‘ نامی شخص کا سراغ لگایا۔ یہ وہی شخص تھا جس کا نام ’ایریکا‘ کے کاغذات میں اُس کے متلاشی (Finder) کی حیثیت سے درج تھا۔ یہ شخص اُن کے ساتھ کھانا کھانے پر آمادہ ہو گیا، لیکن یہاں کینڈس نے ’’مسٹر ہی‘‘ سے ایک ایسی بات سنی جس نے اُس پر بجلی گرا دی۔ ’’ ہی زائولِن‘‘ کا کہنا تھا کہ اُسے کبھی کوئی بچہ ملا ہی نہیں۔ وہ تو فقط یتیم خانے کے ایک ڈائریکٹر کا دوست تھا۔

اُس نے بتایا کہ وہ ’کیو جیانگ‘ ضلع میں سول افیئر بیورو کا ڈائریکٹر ہے، لہٰذا ممکن ہے کہ اُس کا نام کاغذی کارروائی کے لیے استعمال کیا گیا ہو۔ اُس نے بتایا کہ:’’اِن بچوں کو صوبہ ’’ہونان‘‘ سے خریدا گیا تھا۔‘‘ اُس نے ( وہیں بیٹھے بیٹھے) اپنے دوست، جو کہ اُس وقت یتیم خانے کا ڈائریکٹر تھا، کو فون کیا۔ دوران گفت گو ایسا محسوس ہوا کہ یتیم خانے کے ڈائریکٹر نے بھی اس بات کی تصدیق کی، کہ اُنہوں نے بچے کو کسی سے خریدا تھا۔ ہمارے شکوک و شبہات کی وجہ مسٹر ہی کا وہ جملہ تھا جس میں اُس نے اس بات کو دہرایا کہ:’’ہم نے ان بچوں کو خریدا تھا۔‘‘

ظہرانے کے بعد مسٹر ہی اُنہیں قریب ہی واقع بُدھوں کے مندر لے گیا، شاید اس نیت سے کہ کینڈس کو کچھ سکون مل جائے۔ کینڈس نے کچھ وقت مندر میں گزارا اور یہ سوچنے لگی کہ آخر وہ اپنی بیٹی کو کیا جواب دے۔ آئندہ چند دن کینڈس سے جو ہو سکتا تھا اُس نے کیا۔ وہ یتیم خانوں کے ملازمین سے بھی ملی، اُنہیں رقم کی پیش کش بھی کی مگر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ اُس نے ’’ہی زائولن‘‘ سے مزید معلومات حاصل کرنے کی بھی کوشش کی مگر اُس نے فون کا جواب دینا بھی بند کر دیا۔

ایریکا کو کسی یتیم خانے کو فروخت کیا گیا تھا یہ بات بڑی حد تک واضح ہو چکی تھی، لیکن اسے کہاں سے لایا گیا تھا اس کی تلاش ابھی باقی تھی۔ ہمارے اس دورے کا سب سے تلخ مرحلہ اُس وقت آیا جب اسکائپ پر ویڈیو چیٹ کے دوران ہم نے ایریکا کو بتایا:’’ہم اُس کے حقیقی والدین کو ڈھونڈنے میں کام یاب نہیں ہو سکے ہیں۔‘‘ یہ سن کر ایریکا کا چہرہ زرد پڑ گیا۔ اُس نے روہانسے انداز میں ہماری طرف دیکھا، اُس کے منہ سے آہ نکلی اور پھر اُس نے رونا شروع کر دیا۔ یہ لمحہ میرے لیے بڑا ہی دل خراش تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چین میں جن والدین کے بچے اغواء ہو جاتے ہیں اُنہیں بہت جلد یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ اُن کے لاپتا بچے اُن کے لیے کتنے بڑے مسائل پیدا کر گئے ہیں۔ ہم جن والدین سے بھی ملے اُن کا کہنا تھا کہ پولیس عمومی طور پر تھوڑی بہت مدد کر تی ہے وہ بھی کاغذی کارروائی کی حد تک۔ لیو کی طرح اکثر والدین سے کہا گیا کہ وہ اپنے بچوں کو خود تلاش کریں۔ اکثر پولیس اسٹیشن لاپتا بچوں کا مقدمہ 24 گھنٹوں سے قبل درج ہی نہیں کرتے۔ بدقسمتی سے ان چوبیس گھنٹوں میں بچہ کئی میل دور پہنچ چکا ہوتا ہے۔ اکثر لوگ پولیس کے رویے کی بھی شکایت کر تے ہیں کہ وہ اُن کے ساتھ مناسب تعاون نہیں کر تے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کینڈس جب دوبارہ امریکا لوٹی تو وہ جانتی تھی کہ اُسے بہت کچھ کرنا ہے لیکن کیا کرنا ہے اس بارے میں اُسے اطمینان نہیں ہو رہا تھا۔
اُس کی بیٹی غم میں گھل رہی تھی۔ اُسے اب ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ ہمیشہ کے لیے اپنے حقیقی ماں باپ کو کھو چکی ہے۔ کینڈس اس بات پر بھی فکر مند تھیں کہ کس طرح سے وہ فراڈ اور اسمگلنگ کے خلاف دنیا بھر میں شعور اُجاگر کرے۔ کچھ دوستوں نے کہا کہ وہ مقامی رکن پارلیمنٹ سے ملے۔ اُس نے یہ سب بھی کر کے دیکھ لیا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ عالمی تنظیموں نے اسمگلنگ کی تعریف بڑی وضاحت کے ساتھ کی ہے، ان میں اقوام متحدہ بھی شامل ہے، لیکن جہاں تک امریکا کا تعلق ہے وہاں اغواء شدہ، اسمگل شدہ، کسی یتیم خانے کو فروخت کردہ یا جعلی دستاویزات کے ساتھ کوئی بچہ ایڈوپٹ کرنا اسمگلنگ کی تعریف میں ہی شامل نہیں۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک عہدے دار کے مطابق:’’ہم ’ہاگ ایڈوپشن کنویشن‘ میں دیے گئے بہترین قوانین پر یقین رکھتے ہیں جو غیرقانونی طریقوں سے پیسوں کے حصول کے لیے بچوں کے اغواء اور اسمگلنگ سے متعلق ہیں۔ چین بھی ہاگ ایڈوپشن کنوینشن کا حصہ ہے۔‘‘

ایڈوپشن سے متعلق تمام کنویشنز کے مطابق امریکی کونسلر آفس مجموعی ضابطوں کا جائزہ لے گا اور اس بات کی تصدیق کرے گا کہ تمام ضابطے کنونشن کے مطابق طے پائے ہیں۔ اس کے بعد اُس بچے کو امریکا لے جانے کی اجازت دی جائے گی۔ کینڈس اور اُس کے ساتھی یہ سمجھتے ہیں کہ ’’ہاگ کنونشن‘‘ میں کچھ خامیاں ہیں جس کی وجہ سے ایریکا جیسے کیسز سامنے آرہے ہیں۔ کینڈس اب اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ان قوانین میں ترمیم کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ:’’وہ بچے جنہیں گود لینے کی غرض سے خریدا جاتا ہے، اُن کی قانونی وضاحت ہونی چاہیے۔‘‘

اس مقصد کے لیے کینڈس نے کانگریس کے محققین اور اُن کے معاونین سے متعدد ملاقاتیں کیں تاکہ پبلک ہیئرنگ کی راہ ہم وار ہو سکے، لیکن اُن کی محنت بار آور ثابت نہ ہو سکی۔ کینڈس کہتی ہیں کہ یہ مرحلہ اُس کے لیے بہت تھکا دینے والا تھا لیکن وہ اسے کسی صورت چھوڑنے پر تیار نہیں تھیں۔‘‘

یہ درست ہے کہ امریکا کی ایڈوپشن کمیونٹی چین میں بچوں کی اسمگلنگ پر بات کرنے سے کتراتی ہے۔ ڈکومینٹری کی تشکیل کے دوران درجن بھر اُن امریکی ایڈوپشن ایجنسیز سے رابطہ کیا گیا جو خصوصی طور پر چینی بچے گود لیتی تھیں، سوائے چند ایک کے تمام نے اس موضوع پر بات کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اس کی ایک وجہ پیسہ بھی ہو سکتا ہے۔

امریکا، چین ایڈوپشن ایک بہت بڑا کاروبار ہے۔ امریکی ایڈوپشن ایجنسیز اس سے بہت مال بناتی ہیں۔ کینڈس کہتی ہیں کہ اُس نے اپنی بیٹی کو گود لینے کے لیے تقریباً 20 ہزار ڈالر خرچ کیے۔ بہت سی ایجنسیز اس حوالے سے کھلے عام لسٹ جاری کرتی ہیں۔ امریکا میں اگر اس پروگرام کو بند کیا گیا تو یہ بہت ساری ایڈوپشن ایجنسیز کی کمائی پر ضرب ہوگی اور کئی ایجنسیاں بند ہو جائیں گی۔ چین کی اگر بات کی جائے تو وہاں یتیم خانے گود لینے والے والدین سے پیسہ کماتے ہیں اور اغواء شدہ بچے کی مد میں اغواء کاروں کو پانچ سو ڈالر ادا کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ان اغواء شدہ بچوں کو فوری طور پر بیرون ملک منتقل کر دیا جائے تو یہ اُن کے لیے بہت نفع بخش ثابت ہوتا ہے۔

ہر چند کہ دونوں ممالک کے لیے یہ اتنا حساس اور غیر مقبول موضوع ہے، اس لیے بہت کم لوگوں نے اس پر سنجیدہ تحقیق کی ہے۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق چین میں ہر سال تقریباً بیس ہزار بچے اغواء ہوتے ہیں اور بعض آزاد ذرائع کے مطابق یہ تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ہزاروں ایسے حل شدہ کیسز اور حقائق ہیں جن میں اغواء ہونے والے لڑکے ہیں، جنہیں شاید ہی عالمی سطح پر ایڈوپٹ کیا جاتا ہے۔

یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ ان میں سے اکثر بچوں کو ملک کے اندر ہی فروخت کیا جاتا ہے، لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ان میں سے کچھ بیرون ممالک بھی پہنچتے ہیں، جن میں سے بہت سے ایریکا جیسے بھی ہوتے ہیں جو جعلی کاغذات کی وجہ سے بیرون ممالک پہنچتے ہیں۔

برین اسٹو کا کہنا ہے:’’چین سے جتنے بھی بچے ایڈوپٹ کیے جاتے ہیں اُن میں تین چوتھائی سے زاید دھوکا دہی اور اسمگل شدہ ہوتے ہیں۔‘‘ برین اسٹو ایڈوپشن کے شعبے میں ایک متنازعہ کردار ہیں۔ والدین ان پر چین میں ایڈوپشن پروگرام بند کرنے کے ایجنڈے کا الزام عاید کرتے ہیں۔ لیکن یہ وہ واحد شخص ہے جس نے اس حوالے سے بہت کام کیا ہے اور یہ جانتا ہے کہ کون سا یتیم خانہ بچوں کی خریداری میں ملوث ہے اور اُس کے کام کا طریقہ کار کیا ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ سرکاری میڈیا پر اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کے بلند بانگ دعوئوں کے باوجود آج بھی بچوں کی خرید و فروخت جاری ہے۔ جنوری کے وسط میں صوبہ جیانگ ژی کے ’’گوژی یتیم خانے‘‘ کے ملازم نے یتیم خانے پر بچوں کی خریداری اور غیر قانونی طریقوں سے اُنہیں بیرون ممالک بھیجنے کے الزامات عاید کیے تھے۔

اس مقدمے کی تفتیش آج بھی جاری ہے اور ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ آیا یہ الزامات درست ہیں یا غلط، تاہم سوسان مورگن، جنہوں نے دو بچوں کو گود لے رکھا ہے، اور ان بچوں میں سے ایک ’’گوژی یتیم خانے‘‘ سے لیا گیا ہے، نے جب سے یہ خبر سنی تو وہ پریشان ہو گئیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ : ’’ میں یہ بات جانتی تھی کہ عالمی سطح پر بچوں کو گود لیے جانے میں دھوکا دہی ہوتی ہے لیکن جب مجھے پتا چلا کہ میرے اپنے بچوں کے یتیم خانے میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے، تو اس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔

سوسان کا کہنا ہے کہ بہت سے والدین جنہوں نے چینی بچوں کو گود لے رکھا ہے، وہ نہیں جانتے کہ یہ کتنا سنجیدہ معاملہ ہے اور اس معاملے کا بچوں کی اسمگلنگ اور اغواء کے ساتھ تعلق بھی ہو سکتا ہے۔ یقیناً والدین اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتے جس کی وجہ بہت واضح ہے۔‘‘ اُنہیں ڈر ہوتا ہے کہ کہیں وہ اپنے بچے کھو نہ دیں۔

اسٹو کے مطابق بچوں کو گود لینے والے والدین اکثر و بیش تر ’’گوژی اسکینڈل‘‘ جیسے واقعات کو انفرادی واقعات کہہ کر صرف نظر کر دیتے ہیں۔ اُس نے کہا کہ اس چھوٹی سی آگ کو آسانی سے بجھایا جا سکتا ہے۔ ہمیں اس وقت یہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم لوگوں کو بتائیں کہ پورا ملک جل رہا ہے۔‘‘

انسانی اسمگلنگ: چین اور روس بدترین ممالک
انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے امریکا نے چین اور روس کو دنیا کے بدترین ممالک قرار دیا ہے۔ اس درجہ بندی کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے خلاف پابندیاں بھی عاید کی جا سکتی ہیں۔
رواں برس جون میں امریکی محکمۂ خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والی سالانہ رپورٹ میں چین اور روس کے ساتھ ساتھ ازبکستان کو بھی انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے بدترین درجے کا ملک قرار دیا گیا ہے۔ تینوں ممالک کو ’’ ٹیئر تھری‘‘ کی نچلی ترین سطح پر رکھا گیا ہے۔

ایران، شمالی کوریا، کیوبا، سوڈان اور زمبابوے وہ دیگر ممالک ہیں جنہیں ’’ٹیئر تھری‘‘ کا درجہ دیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ امریکا کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ انسانی اسمگلنگ کا خاتمہ چیلینج کے طور پر کرے۔ اْنہوں نے اس عمل کو آزادی اور بنیادی انسانی وقار پر ایک حملہ قرار دیا۔ امریکا کے اندازوں کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 2 کروڑ 70 لاکھ افراد غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ رپورٹ میں مرد، خواتین اور بچوں کو جبری مشقت اور جسم فروشی کا پیشہ اختیار کرنے پر مجبور کرنے کے حوالے سے چین کو ایک ’ذریعہ، راہ داری اور منزل‘ قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومتِ چین کی طرف سے ’’ایک بچہ پالیسی‘‘ اختیار کرنے کے نتیجے میں ملک میں بالترتیب لڑکوں اور لڑکیوں کی شرح بالترتیب 118 اور 100ہوگئی ہے، جِس کے باعث دلہنیں اور جبری جسم فروشی کی روش سے منسلک خواتین بیرون ملک سے اسمگل ہوتی ہیں۔

رپورٹ میں روس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ 10لاکھ کے لگ بھگ افراد ایسے ہیں جن سے جبری مشقت لی جاتی ہے اور انہیں خدمات کے عوض تن خواہیں بھی ادا نہیں کی جاتیں۔ علاوہ ازیں ان کے جسمانی استحصال بھی کیا جاتا ہے اور یہ لوگ بہت ہی کٹھن حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ریاست کی طرف سے کپاس چُننے کے سالانہ موسم میں بیگار کو جائز قرار دینے پر، ازبکستان کی درجہ بندی میں مزید کمی لائی گئی ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما ستمبر تک اس بات کا تعین کریں گے آیا چین، روس اور ازبکستان پر پابندیاں لگائی جانی چاہییں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔