بجٹ پر حکومتی مشکلات، سفارشات پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی تیاری

ارشاد انصاری  بدھ 26 جون 2019
بجٹ سازی کے بعد وفاقی کابینہ میں مزید توسیع اور ردوبدل کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔

بجٹ سازی کے بعد وفاقی کابینہ میں مزید توسیع اور ردوبدل کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔

 اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے پیش کردہ پہلے وفاقی بجٹ پر پارلیمنٹ میں جاری بحث اہم مرحلے میں داخل ہوگئی ہے تو دوسری جانب قومی اسمبلی اور سینٹ کی قائمہ کمیٹیوں برائے خزانہ کے اجلاس میں وفاقی بجٹ کی شقوں کا جائزہ لے کر سفارشات کو حتمی شکل دی جا رہی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ رواں ہفتے کے دوران وفاقی بجٹ بارے قومی اسمبلی اور سینٹ کی قائمہ کمیٹیوں کی جانب سے سفارشات کو حتمی شکل دے کر پارلیمنٹ میں پیش کردی جائیں گی جس کے بعد بجٹ کی پارلیمنٹ سے منظوری کا مرحلہ شروع ہو جائے گا۔

چونکہ آئندہ ماہ (جولائی)کے پہلے ہفتے آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کا پاکستان کے چھ ارب ڈالر کے قرضے کی منظوری دینے کا جائزہ لینے کیلئے اہم اجلاس ہونے جا رہا ہے جس کیلئے پاکستان نے آئی ایم ایف کو لیٹر آف انٹینٹ بھی بھجوا دیا ہے۔

اگرچہ حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کرنے کا دعوی کیا گیا ہے لیکن چین، یو اے ای اور سعودی عرب سے حاصل کردہ شارٹ ٹرم فنانسنگ کو رول اوور کروانے سے متعلق آئی ایم ایف کی اہم شرط بارے ابھی تک حکومت کی جانب سے کوئی واضح جواب سامنے نہیں آیا ہے کہ کیا آئی ایم ایف نے اس شرط میں کوئی نرمی دکھائی ہے یا پاکستان نے اپنے دوست ممالک سے شارٹ ٹرم فنانسنگ رول اوور کرنے کے سرٹیفکیٹس حاصل کر کے آئی ایم ایف کو فراہم کردیئے ہیں یا آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں ان دوست ممالک کے نمائندے آئی ایم ایف بورڈ کو پاکستان کو فراہم کردہ شارٹ ٹرم فنانسنگ بارے کوئی یقین دہانی کروائیں گے لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ تمام تر امیدوں کے باوجود اگر اس شرط کے باعث آئی ایم ایف بورڈ سے پاکستان کا پروگرام منظور نہیں ہوتا یا اس میں تاخیر ہوتی ہے تو کیا حکومت کے پاس کوئی متبادل پلان موجود ہے جو اس اس فنانسنگ گیپ کو پورا کر سکے اور وہ بجٹری فنانسنگ کو وہ ہدف جو حکومت نے آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں مقرر کررکھا ہے کیا وہ پورا کر پائے گی مگر حکومتی ٹیم پراعتماد ہے کہ نہ صرف آئی ایم ایف بورڈ کی جانب سے پاکستان کے چھ ارب ڈالر کے قرضے کی منظوری مل جائے گی بلکہ آئی ایم ایف پروگرام کے بعد ایشیائی ترقیاتی بینک اور عالمی بینک سے بھی تین سے چار ارب ڈالر کی بجٹری سپورٹ ملے گی جس سے مالی پوزیشن میں بہتری آئے گی اس لئے توقع ہے کہ آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس سے پہلے پارلیمنٹ سے بجٹ منظور کروا لیا جائے گا جس کیلئے حکومت سرجوڑے ہوئے ہے اور بجٹ منظوری کیلئے اپنی اتحادی جماعتوں کو اپوزیشن سے بچانے کیلئے بھی کوشاں ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے پاکستان مسلم لیگ(ق)کے رہنماوں سے اہم ملاقات کی ہے یہی نہیں بلکہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ اتحاد مضبوط بنانے کیلئے اور موسمی پرندوں کو اڑان روکنے کیلئے دانا ڈالا جا رہا ہے۔

بجٹ سازی کے بعد وفاقی کابینہ میں مزید توسیع اور ردوبدل کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ اتحادی جماعتوں کو ان کا حصہ دینے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ایم کیو ایم کو مزید وزارت دینے اور ق لیگ کو بھی مزید وزارتیں دینے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ دوسری جانب اپوزیشن بھی کمر کس رہی ہے، ایک جانب مریم نواز کے بیانئے میں لچک کی بجائے وقت کے ساتھ ساتھ مزید سختی آتی جا رہی ہے اور حالیہ پریس کانفرنس میں مریم نواز کی جانب سے عوام کے سامنے جو مقدمہ رکھا گیا ہے اس سے عوامی حلقوں میں پاکستان مسلم لیگ(ن) کو مزید پذیرائی ضرور ملی ہے مگر اس سے حالات پرسکون ہونے اور سدھرنے کی بجائے مزید بگاڑ اور انتشار کی جانب بڑھتے معلوم ہو رہے ہیں۔

حکومت و اپوزیشن کے درمیان ٹکراو و تصادم کے خطرات مزید بڑھ گئے ہیں ایسے میں کسی ایک فریق کو نرمی دکھانا ہوگی کیونکہ بڑوں کی لڑائی میں نقصان ملک اور عوام کا ہے خصوصی طور پر حکومت اور ریاست کو ماں کا کردار ادا کرتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھانا ہوگا کیونکہ دوسری جانب مولانا فضل الرحمٰن آل پارٹیز کانفرنس کی تیاریوں کو حتمی شکل دے رہے ہیں اور حزب اختلاف کی جماعتوں کی اے پی سی میں شرکت کو یقینی بنانے کیلئے حزب اختلاف کی جماعتوں کے رہنماوں سے اہم ملاقاتیں کر رہے ہیں اور پھر سردار اختر مینگل کے حوالے سے بھی حکومت کچھ پریشان نظر آرہی ہے اور اگر سردار اختر مینگل بارش کا پہلا قطرہ بنے تو حکومت کی مشکلات بہت بڑھ جائیں گی جبکہ سردار اختر مینگل حکومت کو کئے گئے وعدے یاد دلارہے ہیں لہذا دونوں طرف سے بھرپور تیاریاں کی جا رہی ہیں اور حکومت ہر صورت نہ صرف وفاقی بجٹ پارلیمنٹ سے منظور کروانے کیلئے پُرعزم ہے بلکہ اپوزیشن جماعتوں کے درمیان پیدا ہوتی قربت اور متوقع اپوزیشن اتحاد کا شیررازہ بکھیرنے کیلئے بھی حکمت عملی طے کر رہی ہے کیونکہ اپوزیشن جماعتوں نے تمام تر نظریں اے پی سی پر لگا رکھی ہیں اور حکومت کے مستقبل کا فیصلہ بھی حزب اختلاف کی اے پی سی کے فیصلوں اور ان پر عملدرآمد سے منسلک ہے۔

اگر حزب اختلاف کی جماعتیں اے پی سی میں عوامی و احتجاجی سیاست کے ذریعے حکومت گرانے یامنتخب نمائندوں کے ذریعے ان ہاؤس تبدیلی لانے پر متفق ہو جاتی ہیں تو دونوں صورتوں میں یقینی طور پر حکومت کیلئے ایک بڑی مشکل کھڑی ہو جائے گی کیونکہ اگر اپوزیشن بھی پی ٹی آئی کے راستے پر چلتی ہے اور حکومت کے خلاف عوام کو سڑکوں پر لانے کا اعلان کرتی ہے تو اس سے بھی سیاسی عدم استحکام پیدا ہونے کا خطرہ ہے جو کہ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کیلئے کسی طور بھی خوش آئند نہیں ہے اور اگر ان ہاوس تبدیلی کیلئے نمبر گیم کھیلنے پر اتفاق ہوتا ہے تو اس صورت میں بھی حکومت کو ایک بڑے امتحان سے گزرنا ہوگا اور شائد اسی خدشے کے باعث بعض حلقوں کی جانب سے مستقبل میں مزید اہم گرفتاریوں کی پیشگوئیاں کی جا رہی ہیں، یہی نہیں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کی بھی جلد نیب میں پیشی ہونے والی ہے اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے کیس میں بھی پیشرفت ہو رہی ہے۔

یہ تمام ڈویلپمنٹ آنے والے دنوں میں ملکی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کریں گی۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)کے اندر بھی ٹوٹ پھوٹ اور تقسیم کا خدشہ موجود ہے اس کیلئے پاکستان مسلم لیگ (ن)کی رہنما مریم نواز کی حالیہ پریس کانفرنس اور قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کے بیانیہ میں پائے جانیوالے فرق کو بنیادی وجہ قرار دیا جا رہا ہے جبکہ بعض حلقوں کی طرف سے مستقبل میں مسلم لیگ(ن)کے اندر مزید فارورڈ بلاک بننے اور چوہدری نثار کے پھر سے اہم کردار ادا کرنے کیلئے سرگرم ہونے کی پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں۔

امیر قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی کے دورہ پاکستان کے ثمرات نظر آنے لگے ہیں۔ قطر نے پاکستان میں 3 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے اور مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے نئی قطری سرمایہ کاری کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ شیخ تمیم بن حمد الثانی نے پاکستانی خزانے میں جمع کروانے اور سرمایہ کاری کیلئے تین ارب ڈالرکا اعلان کیا ہے اس پر امیر قطر کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔  اس نئی سرمایہ کاری کے بعد قطر کی پاکستان میں سرمایہ کاری 9 ارب ڈالرز تک پہنچ جائے گی۔ قطر کی جانب سے بروقت مدد نے حکومت کیلئے رواں ماہ کے دوران کی جانیوالی ادائیگیاں آسان بنا دی ہیں لیکن ملکی معیشت کو مستقل بنیاد فراہم کرنے کیلئے ایڈہاک ازم سے نکلنا ہوگا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔