قبائلی اضلاع میں الیکشن اعتراضات پر حکومتی اسکیم پر پابندی

شاہد حمید  بدھ 26 جون 2019
الیکشن کمیشن آف پاکستان مذکورہ انتخابات کی تیاریوں کے سلسلے میں کمر کس چکا ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان مذکورہ انتخابات کی تیاریوں کے سلسلے میں کمر کس چکا ہے۔

پشاور:  قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات نزدیک آگئے ہیں جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی سرگرم ہوگیا ہے جس نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان اور سینئر وزیر عاطف خان دونوں کو ہی نوٹس جاری کیے ہیں، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو قبائلی اضلاع کے لیے انصاف روزگار سکیم کے تحت قرضوں کے اجراء پر نوٹس جاری کیا گیا ہے اور ساتھ ہی انتخابات کے انعقاد تک اس سکیم پر پابندی بھی عائد کردی ہے۔

صوبائی حکومت مذکورہ منصوبہ کے ذریعے قبائلی اضلاع میں انتخابی فضا کو اپنے حق میں کرنے کی خواہاں تھی تاہم الیکشن کمیشن نے ہوا کا رخ موڑ دیا ہے تاکہ تمام سیاسی جماعتوں کو وہاں انتخابی میدان میں یکساں مواقع مل سکیں، قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات 20 جولائی کو منعقد ہو رہے ہیں جس میں اب ایک ماہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے جس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کی اب قبائلی اضلاع میں سرگرمیاں تیز ہوں گی اور مقامی قائدین کے علاوہ پارٹیوں کے سربراہ بھی ان قبائلی اضلاع کا رخ کریں گے تاکہ زیادہ سے زیادہ نشستوں کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔

قومی اسمبلی سے منظور شدہ بل کے مطابق قبائلی اضلاع کے لیے صوبائی اسمبلی کی مجموعی نشستوں کی تعداد کو21 سے بڑھا کر31 کرنے کی منظوری دی گئی تاہم مذکورہ بل چونکہ تاحال سینٹ آف پاکستان میں پھنسا ہوا ہے اور وہاں سے اس کی منظوری نہیں ہو پائی جس کی وجہ سے 20 جولائی کو24 کی بجائے16جنرل نشستوں پر ہی پولنگ ہوگی جبکہ اسمبلی کے مجموعی طور پر 21 قبائلی ارکان حصہ بنیں گے،ایک جانب یہ صورت حال ہے تو ساتھ ہی دوسری جانب قبائلی اضلاع میں منعقد ہونے والے انتخابات پر ناامیدی کے بادل بھی چھائے ہوئے ہیں اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ قبائلی اضلاع کے انتخابات کو عین وقت پر ملتوی کردیا جائے جس کے لیے وجہ یہ بیان کی جا رہی ہے کہ اگر سینٹ آف پاکستان فوری طور پر قبائلی اضلاع میں انتخابات سے متعلق بل کی منظوری دے دیتا ہے تو اس صورت میں اس بل کے حوالے سے قائم کمیٹی کی سفارشات کے تحت مذکورہ انتخابات چھ ماہ سے ایک سال تک کے عرصہ کے لیے ملتوی بھی ہو سکتے ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان مذکورہ انتخابات کی تیاریوں کے سلسلے میں کمر کس چکا ہے اور الیکشن کمیشن کی درخواست پر پاک فوج کو 18سے21 جولائی تک پولنگ سٹیشنوں پر سیکورٹی فرائض کی انجام دہی کے لیے بلا لیا گیا ہے جس کے خلاف عوامی نیشنل پارٹی نے باقاعدہ طور پر آواز اٹھائی ہے جس کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے الیکشن کمیشن کو خط بھی لکھا تھا جس کے جواب میں انھیں واضح کردیا گیا تھا کہ قبائلی اضلاع میں انتخابات فوج کی نگرانی ہی میں ہونگے، اے این پی مسلسل مطالبہ کر رہی ہے کہ فوج پولنگ سٹیشنوں کے اندر تعینات نہ کی جائے تاہم یہ فیصلہ اب ہو چکا ہے جس پر عمل درآمد کیا جائے گا۔

اے این پی کے ساتھ جماعت اسلامی بھی اس اقدام کی مخالفت کر رہی ہے تاہم قبائلی اضلاع کی جو صورت حال ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ بات بالکل واضح ہے کہ وہاں صوبائی اسمبلی کے انتخابات 20 جولائی کو منعقد ہوتے ہیں یا اس کے بعد لیکن ہونگے یہ فوج کی نگرانی ہی میںاور سیاسی جماعتوں کو اسی صورت حال میں الیکشن میں حصہ لینا پڑے گا۔ ماہ جولائی شروع ہوتے ہی قبائلی اضلاع میں انتخابی مہم تیز ہو جائے گی اسی لیے شمالی وزیرستان کی صورت حال میں تبدیلی لانے کا مطالبہ کیاجا رہا ہے تاکہ سیاسی جماعتیں وہاں اپنی انتخابی مہم چلاسکیں جہاں دیگر سیاسی جماعتوں کے علاوہ پی ٹی ایم کا عنصر بھی موجود ہے جس نے عام انتخابات میں بھی وہاں سے قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے اس لیے سیاسی جماعتوںکو انتخابی مہم چلاتے ہوئے پی ٹی ایم کو بھی نظر میں رکھنا ہوگا ، سیاسی جماعتوں کے حوالے سے صورت حال کا اندازہ اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد ہی ہوگا کہ وہ کیا کرتی ہیں تاہم ایک بات واضح ہے کہ قبائلی اضلاع کے انتخابات کے لیے اپوزیشن جماعتوں کا کوئی بڑا اتحاد بننے کے امکانات نہیں۔

سیاسی جماعتوں کے مابین جو مخاصمت پائی جاتی ہے اس کے اثرات خیبرپختونخوا اسمبلی کے بجٹ سیشن میں بھی بڑے واضح انداز میں نظر آرہے ہیں۔ بجٹ پر جاری بحث پر سیاسی ایشوز حاوی نظر آتے ہیں اور حکومت و اپوزیشن دونوں جانب سے ایک دوسرے کو زچ کرنے کے لیے سیاسی ایشوز کو چھیڑتے ہوئے میدان گرم کرنے کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے اسمبلی کا بجٹ سیشن مکمل طور پر سیاسی رنگ لیے ہوئے ہے اور اسی ماحول میں بجٹ کی منظوری بھی لی جائے گی جس کے لیے پی ٹی آئی کو ایوان میں اپنے ارکان کی حاضری کو یقینی بنانا ہوگا ۔

صوبائی اسمبلی کا جو ماحول ہے اس کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ اس دوران اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی اگر کوئی سخت فیصلے کرتی ہے تو اس کی وجہ سے یہ ماحول مزید گرم ہو جائے گا کیونکہ سیاسی جماعتوں کی صوبائی قیادت ہو یا مرکزی،وہ تمام اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی کی منتظر ہیں تاکہ انھیں واضح ڈائریکشن مل سکے، اے پی سی کوئی سخت فیصلہ کرتی ہے یا نہیں لیکن صوبائی اسمبلی کے حوالے سے صورت حال یہ ہے کہ وزیراعلیٰ اور اپوزیشن جماعتوں کے مابین جو فیصلے ہوئے تھے اور ترقیاتی فنڈز کی فراہمی کے لیے جو وعدے کیے گئے تھے وہ بھی خطرے میں پڑ گئے ہیں کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے بجٹ پیش ہونے کے موقع پر شدید احتجاج کیا جبکہ وزیراعلیٰ کے ساتھ ملاقات میں طے پایا تھا کہ احتجاج نہیں کیا جائے گا تاہم پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن)کے ارکان کا احتجاج اس لیے کرنا ضروری ہوگیا تھا کیونکہ دونوں جماعتوں کی قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر وزیراعلیٰ سے ملاقات میں احتجاج نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی جس کا ان پارٹیوں کی قیادت نے نہ صرف نوٹس لیا بلکہ اپنے ارکان کو باقاعدہ طورپر بجٹ سیشن کے موقع پر احتجاج کرنے کی ہدایت کی۔

جمعیت علماء اسلام(ف) خیبرپختونخوا کے انٹرا پارٹی انتخابات میں تبدیلی برپا ہوگئی ہے، مولانا گل نصیب خان ہوشیارانسان ہیں اس لیے انہوں نے ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے مولانافضل الرحمن کے برادر اصغر مولانا عطاء الرحمن کے لیے میدان خالی کردیا جنھوں نے گزشتہ انتخابات میں جنرل سیکرٹری کے عہدہ پر شکست کا زخم کھایا تھا ، مولانا عطاء الرحمن نے مولانا شجاع الملک سے جنرل سیکرٹری کے عہدہ پر شکست کھائی تھی لیکن اس مرتبہ انہوں نے نہ صرف صوبائی امارت حاصل کی بلکہ ساتھ ہی جنرل سیکرٹری کے عہدہ پر مولانا شجاع الملک کو مولانا عطاء الحق درویش کے ذریعے باہر کا راستہ بھی دکھادیا،اے این پی کے بعد جے یو آئی کے سربراہ بھی مرکز کے بعد صوبائی صدارت بھی اپنے خاندان میں لے جانے میں کامیاب ہوگئے ہیں جس سے معاملات پر ان کی گرفت مزید مضبوط ہو گی اور گزشتہ ادوار میں جو مشکلات اور مسائل ان کے لیے پیدا ہوتے رہے ہیں وہ اب اس طریقے سے نہیں ہونگے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔