پاکستان بمقابلہ نیوزی لینڈ: امیدوں کے دیئے اب بھی ٹمٹما رہے ہیں!

شاہد کاظمی  بدھ 26 جون 2019
آپ اچھا کھیلیے تو سہی، پھر ہار بھی جائیں تو عوام کا ردعمل خود دیکھ لیجیے گا کتنا شاندار ہوگا۔ (فوٹو: فائل)

آپ اچھا کھیلیے تو سہی، پھر ہار بھی جائیں تو عوام کا ردعمل خود دیکھ لیجیے گا کتنا شاندار ہوگا۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان کی کرکٹ ورلڈ کپ میں جاری مہم میں ٹوٹتی امیدوں کو جنوبی افریقہ کے خلاف فتح سے ایک نئی جلا ملی ہے؛ اور شائقین کرکٹ دوبارہ سے پر امید ہیں کہ ہماری ٹیم اس ٹورنامنٹ میں واپس آسکتی ہے اور سیمی فائنل کی دوڑ میں شامل ہوسکتی ہے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی ہمیشہ سے غیر یقینی کا شکار رہی ہے۔ کبھی یہ خود سے مضبوط ٹیم کو ناکوں چنے چبوا دیتی ہے تو کبھی اپنے سے کمزور ٹیم کے سامنے چاروں شانے چت ہو جاتی ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ اس ورلڈ کپ میں بھی یہ روایت برقرار رہے اور اندازوں کے برعکس کارکردگی سامنے آجائے۔ لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ قسمت سے زیادہ کارکردگی اہم ہوتی جا رہی ہے۔ باقی ٹیمیں اس قدر تیاری کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے ہمارے صاحبان عقل پر، کہ وہ چلے ہوئے کارتوسوں کے ساتھ آدھا ٹورنامنٹ کھیل جاتے ہیں اور ان فارم حارث سہیل جیسے ہیرے کو تب سامنے لاتے ہیں جب ٹورنامنٹ میں وجود برقرار رکھنا بھی عذاب بنا ہوتا ہے۔

ہم ایک عجیب قوم ہیں کہ میچ ہارنے یا جیتنے کے بجائے اس بات میں وقت صرف کرتے نظرآتے ہیں کہ 92 میں بھی ہم چھٹا میچ جیتے تھے تو اس بار بھی جیت گئے ہیں، اب ورلڈ کپ کی فتح یقینی طور پر ہمارے نصیب میں ہے۔ کوئی شک نہیں کہ نصیب میں ہو تو بظاہر لگائے گئے تمام اندازے غلط ثابت ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہم کب تک نصیب کے چکر میں کارکردگی سے پہلو تہی کرتے رہیں گے؟ ہمارے مہان کھلاڑی کب تک صرف سینئر ہونے کی وجہ سے جونک کی طرح چمٹے رہیں گے؟ ہم دنیا کی باقی ٹیموں کی طرح کب ایسا وقار پائیں گے کہ کھلاڑی اپنے کیریئر کے بدترین دور کو اپنے کھیل کا خاتمہ سمجھ کر الگ ہوجاتے ہیں۔ ہم تو یہاں جب تک نکال باہر نہ کیے جائیں، ٹیم کی جان چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔

ویسٹ انڈیز کے ساتھ میچ میں کیا ہوا؟ اس پر بندہ بحث کرے بھی تو کیا کرے کہ اپنی ٹیم کا پتا ہے، پل میں تولہ پل میں ماشہ۔ اور ہمارے پروفیسر، ڈاکٹر، انجینئر سب اس میچ میں ویسٹ انڈیز کے سامنے ایسے ڈھیر ہوئے کہ جیسے کلب میچ کھیل رہے ہوں۔ پھر انگلینڈ کے خلاف فتح نے بحث کا موقع ہی فراہم نہ کیا۔ قدرے آسان میچ میں سری لنکا کے خلاف بارش نے مزہ کرکرا تو کیا لیکن امیدیں بہرحال قائم رہیں کہ ہماری ٹیم اتنی گئی گزری نہیں، آگے چل کے کچھ نہ کچھ کرے گی۔ اور آسٹریلیا کے خلاف جب ہماری بولنگ نے برے آغاز کے باوجود اچھی کارکردگی دکھاتے ہوئے، آسٹریلوی ٹیم کو نسبتاً کم اسکور تک محدود کردیا تو شائقین جیت سے پہلے ہی خوش ہوگئے کہ اب میچ آسان ہو گیا (موجودہ ورلڈ کپ میں تین سو پچاس اسکور، نوے کی دہائی کے دو سو پچاس جیسا ہوگیا ہے)۔ لیکن ہوا کیا؟ جو ورلڈ کپ میں مشکل سے شامل ہوئے، وہ کارکردگی دکھا گئے اور مضبوط جگہ والے دھڑام… اور اپنی روایت اس میچ میں برقرار رکھی کہ تیس سے چالیس رنز بنا کر ہانپنے لگے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔

بھارت کے خلاف جب مجموعہ چار سو نظر آرہا تھا، دوبارہ بولنگ نے ذمہ داری سنبھالی اور ناقص فیلڈنگ کے باوجود تین سو چھتیس۔ لیکن نتیجہ پھر وہی ڈھاک کے تین پات۔ کچھ بارش کی مہربانی اور باقی رہی سہی کسر ہماری سست روی نے پوری کردی۔ خدا خدا کرکے جنوبی افریقہ کے خلاف، جو پہلے ہی گرتی ہوئی دیوار سی ہے، فتح نے بجھتی امیدیں پھر روشن کر دی ہیں۔ اب امتحان ہے نیوزی لینڈ، ٹورنامنٹ فیورٹ (موجودہ)، ناقابل شکست، مضبوط بیٹنگ، شاطر بولنگ، شاندار فیلڈنگ کا۔

اب ہم شاید ایسے مرحلے میں ہیں کہ قسمت پر انحصار کے ساتھ کارکردگی میں بھی کچھ تبدیلی لانا ہوگی۔ بلیک کیپس دھاک بٹھا چکے ہیں۔ لیکن ہمیں فخر و امام کو سمجھداری سکھانا ہوگی تو حارث سہیل کا اب کی بار ایک مرتبہ پھر بہتر استعمال کرنا ہوگا۔ اور خدارا، خدارا، خدارا! ہمارے سینئر مہان کھلاڑیوں کو ذمہ داری نباہنا ہوگی، کہ اب نہیں تو پھر کب؟ ٹیل اینڈرز ہمارے ویسے ہی تگڑے ہیں، تو مڈل آرڈر میں کوئی معجزہ ہوجائے تب ہی ہم نیوزی لینڈ کو قابو کرسکتے ہیں۔ بیک فٹ پر نہیں، کپتان کو کپتانی فرنٹ فٹ پر بہادری سے کرنا ہوگی۔ تین سو سے اوپر اسکور گیا نہیں کہ ہماری سانسیں بے ترتیب ہو جاتی ہیں۔ جناب جدید کرکٹ کھیلیے! خود پر اس میچ میں یقین رکھیے اور دکھادیجیے کہ نیوزی لینڈ کو بھی ہرا سکتے ہیں۔ آپ اچھا کھیلیے تو سہی، پھر ہار بھی جائیں تو عوام کا ردعمل خود دیکھ لیجیے گا کتنا شاندار ہوگا۔ آپ جی جان سے آج کے میچ میں بہادری سے لڑیئے۔ نتیجہ جو بھی ہو، عوام آپ کے ساتھ ہوں گے۔ عوام بس آپ کا خلوص دیکھنا چاہتے ہیں۔

ویسٹ انڈیز کے کارلوس بریتھ ویٹ میچ کو اتنے قریب لے گئے، ہار گئی ویسٹ انڈیز، لیکن اپنے تو اپنے غیر بھی تعریف کرنے پر مجبور ہوگئے۔ افغانستان جیتی باز ہار گیا انڈیا کے خلاف، لیکن محنت سب کو نظر آئی، سب تعریف کے پل باندھ رہے۔ آپ بھی تھوڑا محنت کی طرف آئیے۔ اچھا کھیلیے، اور پھر ہار بھی جائیں تو ہم کہہ سکتے ہیں: ’’تم جیتو یا ہارو، ہمیں تم سے پیار ہے۔‘‘ ایسے اگر کھیلیں گے کہ میچ کی پہلی گیند سے آپ کے چہرے اترے ہوں، ٹانگیں کانپ رہی ہوں، حواس سلامت نہ ہوں، کیچ ڈراپ کر رہے ہوں، فیلڈنگ میں گیند ہاتھوں سے پھسلتی نظر آئے تو پھر شائقین سے کیسی امید کہ وہ آپ کے ساتھ کھڑے ہوں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شاہد کاظمی

شاہد کاظمی

بلاگر کی وابستگی روزنامہ نئی بات، اوصاف سے رہی ہے۔ آج کل روزنامہ ایشیئن نیوز اور روزنامہ طاقت کے علاوہ، جناح و آزادی کے لیے بھی کالم لکھتے ہیں۔ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ بلاگر سے ان کے فیس بک پیج www.facebook.com/100lafz پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔