صحافیوں کے تحفظ میں میڈیا ہاوسز کا کردار   

کامران سرور  بدھ 26 جون 2019
صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے کچھ میڈیا ہاوسز کی پالیسی نسبتاً بہتر ہے۔

صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے کچھ میڈیا ہاوسز کی پالیسی نسبتاً بہتر ہے۔

 کراچی: بلاشبہ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے جس سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے لیکن دیگر شعبہ جات کے برعکس صحافت ایک مشکل ترین شعبہ ہے، صحافی نہ صرف عوامی مسائل اورانتظامی اداروں کے بارے میں اطلاعات فراہم کرتے اور سچ کی کھوج لگا کر اسے عوام تک پہنچاتے ہیں بلکہ حکومت اور رعایا کے مابین پل کا کردار بھی ادا کرتے ہیں جب ایک صحافی عوام کو آگاہی دینے کے لئے، معاشرے کے ناسوروں کو ان کے انجام تک پہنچانے کے لیے حقائق کو سامنے لانے کی کوشش کرتا ہے تو انہیں سنگین نتائج تک کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور بیشتر صحافی اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران لقمہ اجل بھی بن چکے ہیں لیکن اس کے باوجود آج بھی نظریاتی صحافی اور ادارے آزادی اظہار اور حرمت قلم کیلئے سربکف ہیں۔

صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیم پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) کی رپورٹ کے مطابق 2002 سے لے کر اپریل 2019 تک صحافیوں کے قتل، تشدد، اغوا سمیت دیگر 699 واقعات رونما ہوئے اس دوران 72 صحافیوں کو قتل کیا گیا جن میں 48 صحافی معلومات کی فراہمی اور دیگر 24 صحافیوں کو مختلف وجوہات کی بنیاد پر قتل کیا گیا۔

پاکستان میں گذشتہ ایک دہائی میں صحافتی اداروں نے تو خوب ترقی کی لیکن صحافیوں کے حالات نہ بدل سکے اور وہ آج بھی وہ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں صحافتی اداروں کو وقتا فوقتاً ریاستی اداروں کی جانب سے نقصان پہنچایا گیا۔ پی پی ایف رپورٹ کے مطابق گزشتہ 18 برس میں پاکستان میں صحافتی اداروں پر کم سے کم 32 بار حملے کیے گئے، اس کے علاوہ صحافیوں کے گھروں پر بھی حملوں کے تقریباً 11 واقعات رونما ہوئے۔ میڈیا ہاؤسز کو مختلف عناصر کی جانب سے مالی گزند پہنچا کر انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا کوئی نئی بات نہیں، آمریت ہو یا جمہوریت ہر دور کے ریاستی اداروں نے صحافت کی آزادی کے حق کو دبانے کی ناکام کوششیں کی ہیں لیکن یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے تمام تر حالات کے باوجود صحافی اپنے اداروں کے ساتھ کھڑے رہے لیکن کیا میڈیا ہاوسز نے بھی اپنے صحافیوں کی مدد کی، کیا وہ اپنے ادارے سے وابستہ صحافیوں کی مشکل حالات میں مالی واخلاقی مدد فراہم کرتے ہیں اس کے لیے تحقیق کی ضرورت ہے۔

ایک صحافی اپنے ادارے کے لیے کٹھن مراحل سے گزر کر خبریں نکالتا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ صحافیوں کی سنسنی خیز اسٹوریز کی بدولت میڈیا ہاوسز اپنی ریٹنگ تو بڑھاتے ہیں لیکن ان اسٹوریز کی تلاش میں صحافیوں کو جن مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے بیشتر میڈیا ہاؤسز کو اس کا قطعی احساس نہیں، اسی لیے انہیں وہ سہولیات فراہم نہیں کی جاتی ہیں جس کے صحافی حق دار ہیں تاہم مختلف میڈیا ہاؤسز سے بات کرنے کے بعد میں نے صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے کچھ میڈیا ہاوسز کی پالیسی صحافیوں کے حق میں نسبتاً بہتر پائی۔

پی پی ایف کے ڈیٹا بیس میں ایکسپریس نیوز کی ڈی ایس این جی پر فائرنگ کا کیس موجود ہے جس میں 17 جنوری 2014 کو نامعلوم افراد کی جانب سے ایکسپریس نیوز کی ڈی ایس این جی پر فائرنگ کی گئی تھی جس کے نتیجے میں  ٹیکنیشن وقاص عزیز خان، ڈرائیور محمد خالد اور گارڈ محمد اشرف جاں بحق ہوگئے تھے۔

اس حوالے سے میں جاں بحق ہونے والے تینوں افراد کے ساتھ کام کرنے والے لوگوں سے بات کی تو انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مجھے بتایا کہ ادارے نے انہیں ہرممکن مدد فراہم کی تھی اور ٹیکنیشن وقاص خان کو 10 لاکھ جب کہ ڈرائیور محمد خال اور گارڈ محمد اشرف کو 5،5 لاکھ روپے کی رقم ادا کی گئی تھی، میں نے ان سے نمبرز کا مطالبہ کیا تو مجھے صرف ٹیکنیشن وقاص کے اہل خانہ کا نمبر فراہم کیا گیا۔ میں نے اس بات کی تصدیق کرنے کے لیے وقاص کی والدہ سے بات کی تو انہوں نے کہا اس بات کی تصدیق کی کہ ایکسپریس نیوز کی انتظامیہ نے نہ صرف یہ رقم دی تھی بلکہ مالی کے ساتھ اخلاقی مدد بھی کی تھی۔ صحافتی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے ان سے زیادہ سوالات نہیں کیے۔

ایکسپریس نیوز سے ہی وابستہ ایک اور صحافی نے مجھے بتایا کہ کراچی میں لائیو کوریج کے دوران ہمارا ساتھی کیمرہ مین عمران علی قریب کھڑی بس میں آگ بھڑک اٹھنے سے بری طرح جھلس گئے تھے اور ادارے نے ان کا مکمل علاج کروایا جس پر میں نے خود عمران علی سے رابطہ کرکے اس بات کی تصدیق چاہی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جیسے ہی حادثہ پیش آیا میں پہلے عباسی اور پھر سول اسپتال گیا لیکن ایکسپریس نیوز کی انتظامیہ نے مجھے فوری طور پر پٹیل اسپتال منتقل کیا جہاں جھلسے ہوئے افراد کا اچھا علاج ہوتا تھا اور 2 ماہ تک میرا علاج چلتا رہا یعنی میں اسپتال میں تھا اس دوران میری پوری تنخواہ ملتی رہی اس کے علاوہ ڈاکٹرز نے میری جھلسی ہوئی جلد کی بہتری کیلیے کچھ فروٹ کھانے کا کہا تھا وہ بھی مجھے چینل انتظامیہ کی جانب سے ملتے رہے اور اس کے لیے میری تنخواہ کے علاوہ مجھے ماہانہ 50 ہزار روپے ملتے رہے۔ انہوں نے بتایا کہ  ایکسپریس نیوز کے مالک کی جانب سے یہ حکم آیا تھا کہ اس بندے کو بچانے کیلیے جس اسپتال بھی منتقل کرنا پڑے کرو۔ انہوں نے بتایا کہ جنوری 2011 میں یہ حادثہ پیش آیا تھا اور مارچ 2015 تک مجھے علاج کے پیسے ملتے رہے جس کے بعد میں نے خود ہی ادارہ چھوڑ دیا تھا۔

میں نے پاکستان پریس فاؤنڈیشن کے لیے اپنی پچھلی اسٹوری میں سینئر صحافی احسان کوہاٹی کا تذکرہ کیا تھا جنہیں 28 نومبر 2011 کو مزار قائد کے سامنے نمائش چورنگی پر مذہبی جماعتوں کے دو رہنماؤں کی ہلاکت کے بعد پھوٹ پڑنے والے ہنگاموں کی کوریج کے دوران 4 گولیاں ماری گئیں تھیں جس کے بعد وہ 3 ماہ تک بستر پر رہے اس دوران انہوں نے مجھے اپنے ادارے کی جانب سے پیش آنے والی مشکلات سے آگاہ کیا۔

احسان کوہاٹی نے مجھے بتایا کہ ایک صحافی کتنا بے بس ہوتا ہے، اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ فرائض کی انجام دہی کے دوران جس صحافی کو 4 گولیاں (سینے ، ہاتھ ، پیٹ اور گردن) میں لگی ہوں اور وہ اس حال میں بھی اپنی جان بچانے کے لیے اچھے سے اچھے اسپتال جانے کے بجائے حساب کتاب کرنے لگ جائے کہ میں کون سے اسپتال کا بل برداشت کرسکتا ہوں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ جب مجھے گولیاں لگی تو جو مجھے اسپتال پہنچارہے تھے انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کون سے اسپتال لے جایا جائے تو میں نے آغا خان کے بجائے دوسرے اسپتال (نام نہیں بتایا) کو ترجیح دی کہ وہ نسبتاً تھوڑا سستا ہے۔

احسان کوہاٹی نے مجھے بتایا کہ میرا جتنا بھی علاج ہوا ، میرے ادارے (وقت نیوز) نے مجھے سے کوئی تعاون نہیں کیا، میرا اسپتال کا خرچہ، دیگر صحافی دوستوں کی مہربانی سے سندھ حکومت نے بڑی مشکل سے ادا کیا۔ انہوں نے مجھے ایک اور دلچسپ بات بتائی کہ سندھ حکومت سے جو لیٹر جاری کیا گیا اور مجھے جس کمرے میں رکھا گیا تھا اس میں روزانہ کی بنیاد پر ایک ہزار روپے کا فرق تھا یعنی مجھے مہنگے کمرے میں رکھا گیا تو مجھے امید تھی کہ چلو، چند ایک ہزار روپے جو اوپر بنیں گے وہ میرا ادارا ادا کردے گا لیکن افسوس جس ادارے کے لیے رپورٹنگ کرتے ہوئے میں نے سینے پر گولیاں کھائیں اس نے میرے لیے اتنا بھی نہیں کیا۔ انہوں نے بتایا کہ جب میں صحت مند ہوا اور دوبارہ سے ادارہ جوائن کیا تو میرے ہاتھ کی سرجری ہونا باقی تھی اور ایک چھوٹا سا آپریشن ہونا تھا جس پر نسبتاً خرچ بھی کم آنا تھا تو میں نے ادارے سے درخواست کی اور انہوں نے یقین دہانیاں تو بہت کروائیں لیکن پیسے نہیں دیے، آخرکار مجھے وہ پیسے اپنی جیب سے ہی ادا کرنے پڑے۔ البتہ میں میرے ادارے نے مجھ پر اتنا احسان ضرور کیا کہ میری 3 ماہ کی بیماری کے دوران میری تنخواہ نہیں روکی۔  انہوں نے مجھے بتایا کہ جب مجھے گولیاں لگیں تو دیگر صحافیوں کے ساتھ ملکر ایک مہم چلائی جس کے بعد تمام چینلز نے اپنے رپورٹرز کو بلٹ پروف جیکٹس اور ہیلمٹ فراہم کیے اس سے پہلے کچھ بھی نہیں تھا۔ اس کے علاوہ صحافیوں کو کسی قسم کی تربیت نہیں دی جاتی، رپورٹرز اور کیمرہ مین کے تحفظ کے حوالے سے تربیتی پروگرام منعقد کروانے چاہیے۔

ادارے کی جانب سے مالی معاونت نہ کرنے پر میں نے ادارے کا موقف حاصل کرنے کا ارادہ کیا لیکن چونکہ وقت نیوز بند ہوچکا ہے لہذا میں نے کراچی میں موجود نوائے وقت کے دفتر سے متعدد بار رابطہ کیا مگر کامیاب نہ ہوسکا جس کے بعد میں نے خود دفتر کا رخ کیا لیکن وہاں موجود لوگ اس بات سے لاعلم تھے۔

پی پی ایف کے ڈیٹا بیس میں موجود ایک اور کیس سما نیوز کے کیمرہ مین محمد سفیر کا ہے جس کو 22 اگست 2016 کو ایم کیو ایم کے جلسے میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ سفیر نے مجھے بتایا کہ 22 اگست والے دن ایونٹ پر بھیجنے سے پہلے مجھے ادارے کی جانب سے یہ نہیں بتایا گیا کہ حالات خراب ہیں اور ان حالات میں فیلڈ میں بھیجنے کے لیے کسی قسم کا حفاظتی سامان فراہم نہیں کیا گیا اور مجھے بیماری کے دوران ہی آفس بلالیا گیا تھا اور بعد ازاں مجھے بیماری میں اسے آسائمنٹ دیے گئے جس سے میں نوکری چھوڑنے پر مجبور ہوگیا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ادارے نے مجھے میڈیکل کا خرچہ بھی نہیں دیا جو میں نے اپنی جیب سے ادا کیا۔ محمد سفیر کے بیان پر میں نے ان کے ادارے کا موقف لینے کے لیے ان کے ایچ آر ڈیپارٹنمنٹ متعدد بار کالز کی لیکن مجھے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکریٹری  رانا عظیم نے بتایا کہ ملک میں سوائے چند اداروں کے صحافیوں کو وقت پر تنخواہیں نہیں ادا کی جاتی، ایسے اداروں میں نہ تو صحافیوں کی ملازمتوں کو تحفظ حاصل ہے اور نہ ہی انہیں صحت کی یا دیگر سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کئی اخبار اور چینل سرکاری اشہتارات اور دیگر سہولتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں مگر اپنے ملازموں کو وقت پر تنخواہیں ادا نہیں کرتے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ تمام اخبارات اور ٹی وی چینلز کو دیے جانے والے سرکاری اشتہارات کو ان کے ملازمیں کی تنخواہوں کی ادائیگی سے مشروط کرے۔

کراچی یونین آف جرنلسٹ (دستور) کے صدر طارق الحسن نے مجھے بتایا کہ جب کسی صحافی کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اس پر پہلی ذمہ داری اس ادارے کی ہوتی ہے جس سے وہ وابستہ ہے، اس دوران ہمارا کام یہ ہوتا ہے کہ متاثرہ صحافیوں کو انصاف دلانے یا ان کا حق دلوانے کے لیے کوششیں کرتے ہوئے ان اداروں کو یاددہانی کروائیں، اس کے علاوہ کوئی صحافی مدد کے لیے ہمارے پاس آتے ہیں وہ ہم انہیں بھرپور قانونی مشاورت فراہم کرتے ہیں۔

آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) کے سابق رکن اور ماہنامہ گلوبل سائنس کے ایڈیٹر علیم احمد سے جب میں نے بات کی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے قوانین نہ صرف اے پی این ایس بلکہ سی پی این ای سمیت ہر تنظیم میں موجود ہیں لیکن بیشتر میڈیا ہاؤسز کے پاس اول تو وسائل ہی نہیں ہیں اور جن کے پاس وسائل بھی ہیں ان میں سے اکثریت صحافیوں کے تحفظ کا بہت زیادہ خیال نہیں رکھتے اور چھوٹے اداروں کے لیے صحافیوں کے تحفظ کے مالی اخراجات برداشت کرنا ممکن نہیں کیوں کہ وہ مشکل سے اپنے دیگر اخراجات پورے کرتے ہیں لہذا حکومت کو چاہیے کہ کسی بھی چینل کو لائسنس دینے سے پہلے اس بات کا پابند بنائے کہ وہ صحافیوں کے تحفظ کو اہمیت دیں گے اور جن میڈیا اداروں کا ماضی صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے زیادہ اچھا نہیں انہیں اس کا پابند بنایا جائے۔

میڈیا کے حالیہ بحران اور صحافیوں کی جبری برطرفی پر وفاقی حکومت کی جانب سے اخبارات اور ٹی وی چینلز کے لیے اشتہارات کی نئی پالیسی متعارف کرانے کا فیصلہ کیا تھا اور یہ کہا گیا تھا کہ اشتہارات صرف ان اداروں کو دیے جائیں گے جو اپنے چینلز سے وابستہ صحافیوں کا خیال رکھیں گے اس حوالے سے جب میں نے حکومتی موقف حاصل کرنے کے لیے وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ونشریات فردوس عاشق اعوان اور افتخار درانی سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ملی جس پر میں نے پی ٹی آئی حکومت کے صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی سے رابطہ کیا۔ ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے شوکت یوسف زئی نے کہا کہ جن اداروں نے صحافیوں کو فارغ کردیا ہے ان کے ساتھ مزاکرات جاری ہے اور کچھ بے روزگار صحافیوں کو دوسرے اخبارات میں نوکری دی جاچکی ہیں جب کہ محکمہ اطلاعات تمام اخبارات کے مالکان کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے اور جن صحافیوں کو نوکری سے نکالا جاچکا ہے ان کو ایک بار نہ صرف دوسرے اداروں میں ملازمتیں دی جائیں گی بلکہ ہر ادارے میں صحافیوں کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔