پل پل نہ مانے ٹنکوجیا

سعد اللہ جان برق  جمعرات 27 جون 2019
barq@email.com

[email protected]

یہ تو سب مانتے ہیں کہ’’ٹنکوجیا‘‘پل پل نہ مانے۔یہ بھی جانتے کہ عشق کا منجن بھی گھسے ہے پیا اور پیار کا انجن بھی چلاتاہے لیکن یہ بات کوئی نہیں جانتا کہ یہ’’ٹنکوجیا‘‘ہے کون۔جو ہروقت ایسی نامعقول حرکات کرتارہتاہے۔

یہ تو ہم بعد میں تحقیق کے ذریعے ثابت کریں گے کہ یہ’’ٹنکوجیا‘‘کون ہے کیاہے کب ہے کہاں ہے اور کیوں ہے۔لیکن سب سے پہلے یہ پتہ کرنا ضروری ہے کہ آخر یہ’’عشق‘‘کا منجن کیوں گھسے ہے،یہ اتنے سارے ٹوتھ پیسٹ موجود ہیں ٹوتھ برش ہیں پاوڈر ہے اور بھی بہت کچھ ہے جودانتوں کے’’سو‘‘ڈیڑھ سو امراض کے لیے تیر بہدف ہے لیکن یہ کم بخت گھستا ہے تو عشق کا منجن۔اور یہیں یہ سوال دُم ہلانے لگتاہے،کہ ’’عشق کا منجن‘‘کیاہے جسے ہروقت یہ ٹنکوجیا گھستارہتاہے اور پھر ’’منجن‘‘کو تو بعد میں گھسیں گے یہ عشق کیاہے؟۔پرانے زمانے ہوتے تو ہم کسی بھی شاعر سے جاکر پوچھ لیتے اور وہ’’دولفظوں‘‘میں ساری پریم کہانی سنادیتا’’عشق‘‘کا سارا بائیوڈیٹا،مالہ وماعلیہ اور ویراباوٹ بتادیتا مثلاً:

یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لو تم

اک آگ کا دریاہے اور ڈوب کے جاناہے

اب’’عشق‘‘کے معاملے میں عقل کودخل اندازی کی سخت ممانعت تھی ورنہ کوئی پوچھ سکتاتھا کہ آگ کے دریا میں کوئی قدم رکھے گا تو اس کا’’جانا‘‘تو اوپر سے طے ہوجاتاہے پھر وہ ڈوب کے کیسے جائے گا۔اور یہ کہ’’آگ کا دریا‘‘تو قرۃ العین حیدر کے قبضے میں ہے کوئی اور اسے پارکرسکتاہے۔لیکن موجودہ دور میں’’عشق‘‘بہت زیادہ ملٹی پرپز کثیرالجہت اور کثیرالمقاصد ہوگیاہے اس کا دائرہ کسی لڑکے لڑکی تک نہیں رہاہے لیڈروں،پارٹیوں،مزاروں اور نعروں تک دراز ہوچکاہے ہے روٹی کپڑا مکان سے بھی عشق ہوجاتاہے انصاف کے تیزنظر کے بھی اسیر ہوجاتے ہیں اور نیا پرانا کے عشق میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

جاندار تو جان دار کہ بے جان چیزوں کے بھی عاشق صادق بلکہ صادق وامین پیدا ہوجاتے ہیں جیسے وزارت سفارت امارت اور کرسی وغیرہ بلکہ سب سے زیادہ مبتلا تو قوم اور ملک کے عشق میں ہوجاتے ہیں اور خدمت کے تو کیاکہیے کہ ایک ڈھونڈو ہزار عاشق ہر وقت راہوں میں پڑے رہتے ہیں۔اب ایسی حالت میں جب’’عشق‘‘اتنا پھیل گیاہے تو اس کے منجن ٹوتھ پیسٹ،ٹوتھ برش،صابن،شیمپو اور ہئیر آئیل کا پتہ کون لگائے؟

سفینہ چاہیے اس بحربیکراں کے لیے

اگرچہ یہ پورا تحقیقی پراجیکٹ بہت بڑا اور کسی فرد واحد کاکام نہیں ہے بلکہ دوچار’’اکیڈمیاں‘‘بھی اس کے لیے کم پڑجائیں گی۔لیکن خدا ہمارے ٹٹوئے تحقیق کو سلامت رکھے اور کسی شہرت پسند ٹٹوئن کی نظرہراسانی سے بچائے اس نے ایک لائن آف ایکشن ہمیں سمجھادی کہ’’عشق‘‘کو بھی گولی ماریے اور اس کے منجن کوبھی بلکہ’’ٹنکوجیا‘‘ کوتو کلاشن کوف کا پورا برسٹ مارے ساری توجہ’’دانتوں‘‘پرفوکس کردیجیے بلکہ دانتوں پربھی نہیں اس بیماری پرجس کے لیے’’منجن گھسے ہے‘‘ کی ضرورت پڑگئی یعنی دانتوں کو وہ ’’کونسا کیڑا‘‘ یا پڑوسی ملک کی اصطلاح میں’’کٹانوں‘‘لگے ہوئے ہیں جس کے لیے منجن گھسانے کی فکرپڑگئی۔ پھرہمیں یاد آیا کہ ایک بچی پورے خاندان کی توجہ کامرکز بنی ہوئی ہے اور ہر کوئی اسے کچھ نہ کچھ کھلا رہاہے لیکن اس کی ماں ایک طرف فکرمند بیٹھی ہوئی کہہ رہی ہے۔

سب اس سے پیار کرتے ہیں لیکن مجھے اس کی کیوٹی کی فکرہے۔یہاں پرایک ڈاکٹر آئی ایم ایف بن کر اسے سمجھاتاہے کہ ہاں ایسی’’چیزوں‘‘سے کیوٹی ہوسکتی ہے لیکن تم فکرنہ کرو یہ ہمارا’’قرض‘‘ نام ٹوتھ پیسٹ لو اور ’’کیوٹیوں‘‘ سے بے فکر ہوجاؤ۔گویا سارا مسئلہ ’’ٹنکوجیا‘‘کایہ ہے کہ وہ’’میٹھا‘‘بہت کھاتاہے جو تقریباً ہرپارٹی کی ’’دکان‘‘میں پڑا ہواہے اور ہر کوئی’’ٹنکوجیا‘‘کوپکڑپکڑ کر اپنی مٹھائی بے تحاشا کھلا رہا ہے۔ اب جب ’’ٹنکوجیا‘‘ سے سب اتنا ’’پیار‘‘ کرتے ہیں تو ’’کیوٹی‘‘کی فکر تو یقیناً کرنا پڑے گی سیدھا سادا لیکن ’’سارے‘‘اس سے اتنا پیار جو کرتے ہیں،سب کا ’’لاڈلہ‘‘ جوہے آئی ایم ایف سویٹ اینڈ کنفکشینز کی مٹھائیاں تو لذیذ بھی غضب کی ہوتی ہیں جو ایک مرتبہ منہ کو لگیں تو پھر چھٹتی نہیں ہیں منہ سے یہ کافر لگی ہوئیں۔اس لیے سوائے اس کے اور کوئی راستہ نہیں کہ’’ٹنکوجیا‘‘گھسنا شروع کردے اور وہ گھس رہاہے۔کوئی کچھ بھی کہے لیکن:

پل پل نہ مانے ٹنکوجیا

عشق کا منجن گھسے ہے پیا

بیچارے’’ٹنکوجیا‘‘کرے بھی تو کیاکرے ہے، ایک طرف اتنے سارے’’پیارکرنے والے‘‘جو اسے مٹھائیاں کھلائے وہ بھی آئی ایم ایف سوئٹ اینڈکنفکیشنرز کی تلی ہوئی ہیں اور دوسری طرف کیوٹی اور کٹاؤں کا ڈر سوائے عشق کا منجن گھسے ہے، کربھی کیاسکتاہے اس عشق کا منجن۔جس کا’’جزواعظم‘‘گا۔گے۔گی ہوتاہے اور ہرپارٹی کے پاس بے پناہ ہوتاہے۔اب بات رہ گئی یہ کہ یہ’’ٹنکوجیا‘‘کون ہے؟تو اس کا جاننا ذرا مشکل بلکہ بہت مشکل ہے کیونکہ ٹنکوجیا کوباقی سب کچھ پسند ہے لیکن آئینہ دیکھنا بالکل بھی پسند نہیں ہے بلکہ اگر آئینہ کہیں ملتا ہے تو اسے توڑے بغیر نہیں رہتا۔اور دکھانے والے کو پتھر مارتاہے۔تو ایسے میں ہم کیاپاگل ہیں جو اسے آئینہ دکھائیں۔ہاں اگر آپ چاہیں تو ضرور دکھاسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔