اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے

غلام محی الدین  پير 9 ستمبر 2013
 سٹی کونسل ایران کے لیے منتخب ہونے والی نینا کو اپنی نشست کا حلف اْٹھانے کے لیے محض اس لیے روک دیا گیا کہ وہ بہت زیادہ خوبصورت اور حسین چہرے کی مالک ہے۔فوٹو: فائل

سٹی کونسل ایران کے لیے منتخب ہونے والی نینا کو اپنی نشست کا حلف اْٹھانے کے لیے محض اس لیے روک دیا گیا کہ وہ بہت زیادہ خوبصورت اور حسین چہرے کی مالک ہے۔فوٹو: فائل

سنتے آئے ہیں کہ ماضی میں حسین چہرے سلطنتوں کو اپنے زیر اثر کر لیا کرتے تھے مگر عہد حاضر میں اس کے بالکل الٹ ہو چکا ہے۔

ایرانی شہر قزوین میں مقیم 27 سالہ نینا سیاھکالی مْرادی نے جب حالیہ بلدیاتی انتخابات میں دس ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تو ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہو گا کہ ان کا اپنا ہی دلکش سراپا اس کے انتخاب کو کالعدم اور اسے نا اہل قرار دلادے گا۔ سٹی کونسل ایران کے لیے منتخب ہونے والی نینا کو اپنی نشست کا حلف اْٹھانے کے لیے محض اس لیے روک دیا گیا کہ وہ بہت زیادہ خوبصورت اور حسین چہرے کی مالک ہے۔

برطانوی جریدے انڈی پنڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق ایرانی شہر قزوین میں مقیم 27 برس کی نینا سیاھکالی مْرادی کا شہری کونسل کے انتخاب کے لیے 163امیدواروں سے مقابلہ تھاجس میں اس کا 14واں نمبر تھا۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ کے مطابق ’’ ایران کے نئے صدر حسن روحانی جو اصلاح پسند سمجھے جاتے ہیں، انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اور بہت سے وعدوں کے ساتھ یہ بھی عہد کیا تھا کہ وہ اپنے دورِحکومت میں کوشش کریں گے کہ خواتین کے حقوق کو بہتر بنایا جائے لیکن ان کے برسراقتدار آنے کے چند روز بعد ہی ایک خاتون کونسلر کو جاذب نظر اور پْرکشش ہونے کی بنا پر نااہل قرار دے دیا گیا ہے‘‘۔

برطانوی روزنامے ڈیلی ٹائمز کے مطابق ’’مذہبی قدامت پسندوں نے نینا کے پْرکشش حسن کی وجہ سے اس کے انتخاب کو کالعدم قرار دے دیا۔ نینا مْرادی آرکیٹیکچر انجینئرنگ میں گریجویٹ کی طالبہ ہیں اور اس نے اپنے دوستوں کی مدد سے اپنی انتخابی مہم کو لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا دیا تھا۔ بھرپور انتخابی مہم کے نتیجے میں نینا مرادی شہری کونسل کی رکن تو منتخب ہوگئیں لیکن ان کا دلکش چہرہ اور جاذب نظر خوبصورتی ان کے انتخاب میں رکاوٹ بن گئی اور ایران کے شدت پسند مذہبی اجارہ داروں نے اْنہیں ماڈل قرار دے کر انہیں کونسلر بننے سے ہی روک دیا‘‘ ۔ برطانوی روزنامے سے ایک سینیئر عہدے دار نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم شہری کونسل میں ایک کیٹ واک ماڈل نہیں چاہتے‘‘۔

نینا مْرادی نے ’’نوجوان مستقبل کے لیے نوجوان نظریات‘‘ کا نعرہ لگایا تھا اور اسے کامیابی بھی ملی۔اس نے قزوین میں خواتین کے بہتر حقوق، قدیم شہر کی بحالی اور شہری منصوبہ بندی (ٹاؤن پلاننگ) میں نوجوانوں کے بہتر کردار کی بات کی تھی۔ ایرانی عدلیہ اور انٹیلی جنس سروسز نے بطور امیدوار اس کے کاغذات کی جانچ پڑتال کی تھی اور اسے انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دی تھی۔ اس کے آزاد خیال ہونے کی وجہ سے بھی اسے ووٹروں میں پذیرائی حاصل ہوئی لیکن قدامت پسند مذہبی حلقوں نے نینا مرادی کی انتخابی مہم کے پوسٹروں کو ’’بے ہودہ‘‘ قرار دے دیا ۔

حالاں کہ نینا مرادی کی انتخابی مہم کے لیے تیار کیے گئے پوسٹروں پر مکمل حجاب کے ساتھ اس کی تصاویر پرنٹ کی گئی تھیں۔ اس کے باوجود قدامت پسند مذہبی حلقوں کی جانب سے نینا کے خلاف ایک طوفان کھڑا کردیا گیا اور جیسے ہی انتخابات میں ان کی کامیابی کا اعلان ہوا، شدت پسند مذہبی حلقوں نے ان کی نااہلی کا مطالبہ شروع کردیا۔انڈی پنڈنٹ کے مطابق ’’ایران میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی مہم کا کہنا ہے کہ نینا کی نااہلی کی بہ ظاہر وجہ ان کی اسلامی اصولوں کی عدم تعمیل کو قرار دیا گیا اور ان کے حریفوں نے ان کی انتخابی مہم کے پوسٹروں پر بہت زیادہ شور مچایا تھا‘‘۔

انتہا پسند مذہبی گروہوں کے اتحاد نے قزوین کے گورنر کو ایک خط تحریر کیا جس میں انہوں نے نینامْرادی کے انتخابی پوسٹروں کو ’’غیر شائستہ اور مذہب مخالف‘‘ لکھااوراس کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ انہوں نے لکھا کہ نینا کے انتخابی پوسٹروں سے اسلامی قانون کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ نینا مْرادی نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ تقریباً دس ہزار لوگوں نے میرے حق میں ووٹ دیے، اس بنیاد پر مجھے شہری کونسل کی رکن بننے کا حق ملنا چاہیے تھا۔‘‘

ایرانی پارلیمنٹ میں قزوین کے نمائندے اور جائزہ بورڈ کے رکن سید رضا حسینی نے ایرانی نیوز ایجنسی ایران وائر سے بات کرتے ہوئے کہا ’’نینا کو ملنے والے ووٹ ان کی نااہلی کی وجہ سے کالعدم قرار دے دیے گئے ہیں، جائزہ بورڈ نے ان کی سرکاری تصدیق کو منظور نہیں کیا، ہم نے انہیں بتا دیا ہے کہ اسے کس وجہ سے نااہل قرار دیا گیا ہے‘‘۔ لیکن جب اس سلسلے میں نینا مْرادی سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا ’’جائزہ بورڈ نے نہ تو ان سے رابطہ کیا ہے اور نہ ہی ان سے کوئی وضاحت پیش کی ہے‘‘۔

نینا کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس لڑکی کو اس کی جوانی اور حسن کی وجہ سے منتخب کیا تھا۔ مخالفین نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ انتخابی مہم کے دوران نینا کے حمایتوں کا رویہ اسلام کی روایتی سوچ کے برعکس تھا۔ قزوین کے ایک قانونی ماہر محمد اولیاء فرد کا کہنا ہے کہ ’’اگر کوئی انتخابات کے دوران قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو جائزہ بورڈ اور الیکشن کمیٹی اس فرد کا جائزہ لیتے ہوئے کارروائی کرسکتی ہے لیکن جب انتخابی نتائج کا اعلان ہوجائے تو انہیں اس کو کالعدم قرار دینے کا کوئی حق حاصل نہیں رہتا، اس لیے الیکشن ریویو بورڈ کی یہ حرکت غیرقانونی ہے۔ ایک فرد کو پہلے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی، جب اْس نے کامیابی حاصل کرلی، تو اس کو نا اہل قرار دے دیا گیا۔ اب جو کچھ بھی کہا جارہا ہے وہ ایک کامیاب امیدوار کو شہری کونسل کا رکن بننے سے روکنے کا محض بھونڈا بہانہ ہے۔‘‘

دل چسپ بات یہ بھی ہے کہ یہ تنازعہ اْس وقت سامنے آیا ہے جب ایران کے نو منتخب صدر نے شہری حقوق کے حوالے سے بہت سی مثبت تبدیلیوں کے حوالے سے اپنا عزم دہرایا تھا۔ انہوں نے ایرانی معاشرے میں خواتین کے کردار میں اضافے کا وعدہ کیا اور قانونی امور کے لیے ایک خاتون وائس پریزیڈنٹ کا تقرر بھی کیا تھا۔صدارتی انتخاب کے دوران ایک ٹیلی ویژن مباحثے میں حسن روحانی نے کہا تھا کہ ’’خواتین کو کام کرنا چاہیے لیکن انہیں مساوی حقوق نہیں دیے جاسکتے، میں خواتین کے امور سے متعلق ایک وزارت قائم کروں گا تا کہ انہیں ان کے حقوق کی پامالی سے محفوظ رکھا جاسکے‘‘۔ ایران وائر نے مقامی میڈیا کے حوالے سے مزید یہ اطلاع بھی دی ہے کہ ایرانی حکام نے دو خاتون امیدواروں مریم نخوستین احمدی اور شہلا عطفہ کے ناصرف پوسٹروں کو ضبط کرلیا تھا بل کہ انہیں پوچھ گچھ کے لیے حراست میں بھی لیا گیا ۔

وائٹ ہاوس میں پہلی مرتبہ سیاہ فام کتوں کا راج
امریکا کے صدر باراک اوباما کے کنبے میں ایک نئے رکن ’’سنی‘‘ کا اضافہ ہو چکا ہے۔

کتیا سنی کا تعارف دنیا کے لیے وائٹ ہاوس کی انٹر نیٹ سائٹ سے جاری ہو چکا ہے ۔ سنی اب وائٹ ہاوس میں ’’بو‘‘ کے ساتھ رہے گی، کیوں کہ بو طویل عرصے سے تنہا تھا لیکن اب وہ سنی کے ساتھ وائٹ ہاوس کے جنوبی باغیچے میں کھیل سکے گا۔ سنی، بو کی طرح شام کے کھانے کے بعد اوباما کنبے کے ساتھ واک کیا کرے گی اور اوول آفس میں اوباما کے ساتھ رہے گی۔ سنی بو کی طرح پرتگالی واٹر ڈاگ کی نسل سے ہے اور اس نسل کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ الرجی نہیں کرتی ، جب کہ اوباما خاندان کو عام کتوں سے الرجی ہے ۔ اوباما نے کتیا کو سنی کا نام اس کی شوخ طبعیت کی وجہ سے دیا ہے۔ واضح رہے کہ امریکا میں سال 1923 سے سب صدور کا کم از کم ایک کتا ضرور رہا ہے ۔ سنی کے اعزاز میں اوباما خاندان نے ہیومن سوسائٹی کو رقم بھی عطیہ کی۔

’’امریکہ کے وائٹ ہاوس میں کتے پالنے کی روایت بہت پرانی ہے۔ صدر کینیڈی کے پاس 15 اور لنڈن بی جانسن کے پاس 5 پوڈلز تھے۔ جمی کارٹر نے صرف ایک کتا پال، رونالڈ ریگن کے آتے ہی پالتو کتوں کی تعداد بڑھ گئی۔ بل کلنٹن نے ’’بڈی‘‘ کو بہت ناز ونعم میں پال تھا مگر وہ مر گیا تو شاہی پروٹوکول اور اعزاز کے ساتھ اس کی تدفین ہوئی۔ جارج بش جونیئر کو بھی کتے پالنے کا شوق تھا لہٰذا اس نے تین وفادار کتے رکھے ہوئے تھے اپنے پیش رو امریکی صدور کی طرح اوباما بھی کتے پال ہیں۔

انہوں نے پہلی باروائٹ ہاوس میں سیاہ فام کتوں کو جگہ دی ۔ ان کے پاس ’’بو‘‘ نام کا ایک ڈاگ پہلے سے موجود تھا، اس کی تنہائی دور کرنے کے لئے امریکی صدر نے ایک نیا (فی میل )کتا گود لیا ہے جس کا نام سَنی رکھا گیا ہے۔اس کے باپ کا نام ہنری تھا۔ اس کے منجمد سپرم موجود تھے اس لئے سنی کی پیدائش ممکن ہوئی۔امریکا میں انسانوں کو اپنے باپ کا نام معلوم ہو نہ ہو مگر وہ کتوں کا شجرہ نسب ضرور دیکھتے ہیں۔ سی این این کے مطابق ’’سَنی‘‘ پہلے والے پوڈلز سے زیادہ وفادار اور اطاعت شعار ہے۔ جوش و جذبے میں یہ ’’بو‘‘ سے کہیں آگے ہے مگر اس کے باوجود وائٹ ہاوس میں اسے آداب سکھانے کے لئے تربیت جاری ہے ظاہر ہے امریکی صدر کو ہاتھ ملانے والے کتے کوئی معمولی کتے نہیں ہوتے۔ کب کہاں کس پر بھونکنا ہے‘ کب کس پر جھپٹنا ہے اور کب دم دبا کر بھاگنا ہے یہ باتیں تربیت کا بنیادی خاصا ہوتی ہیں ورنہ تو امریکی کتے بھی عام کتوں کی طرح ڈھیٹ اور ہٹ دھرم ہو جائیں کہ ان کی دْم کبھی سیدھی ہی نہ ہو‘‘۔

امریکی حکومت کی طرف سے جاری کردہ صدر کے اثاثوں کی تفصیلا ت کے مطابق سب سے زیادہ قابل توجہ صدر اوباما کا ‘‘خاندانی کْتا بو‘‘ ہے گو کہ وہ انہیں تحفے میں ملا ہے لیکن اسکی بھی قیمت کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ خاندانی کْتا سولہ سو ڈالر کا ہے۔ ہے نا یہ قسمت کی بات کہ’’ بو‘‘ کی قمیت اپنے ہاں ایک اچھے خاصے سرکاری ملازم کی سالانہ تنخواہ کے برابر ہے۔ امریکا میں کتوں کے الگ قبرستان ہیں۔ ان کی تدفین اور آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے ہر شہر میں فنرل سینٹرز موجود ہیں۔

گزشتہ چند سال سے ایک ایسی صنعت بھی وجود میں آ چکی ہے جو کتوں کی موت کے بعد انہیں حنوط کر کے اسی گھر میں مورتی کی طرح سجانے کا کام کرتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکیوں نے2012ء کے دوران 61 ارب ڈالر پالتو جانوروں پر خر چ کئے جن میں سے 53ارب ڈالر صرف کتوں کی دیکھ بھال پر خرچ کئے گئے۔ امریکا میں ایک کتا پالنے پر اوسطاً 2000 ڈالر سالانہ خرچ ہوتے ہیں۔ ہر کتے پر سالانہ 356 ڈالر تو صرف علاج کی مد میں خرچ ہوتے ہیں۔ دنیا جہان کے مسائل میں گھرے امریکی صدر کے پاس اب بھی کافی فرصت ہے اس لیے تو انہوں نے اب ایک نیاء کتا پال لیا ہے۔ امریکی صدر براک اوباما کا یہ پپی بڑا پر خلوص ہے اس لیے انہوں نے اس کتے کا نام سنی رکھ دیا ہے۔ گزشتہ برس مشی گن میں پیدا ہونے والے اس کتے کا انتخاب بڑی تحقیق کے بعد کیا گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔