شام ۔۔۔۔۔ عبرت کا ایک اور لہو لہو باب !

انوار فطرت  پير 9 ستمبر 2013
 وہ ناسور جو امریکا نے عراق میں پالا  تھا پھیلتے پھیلتے اگر شام و مصر تک پہنچ سکتا ہے تو خود امریکا بھی اس سے کچھ زیادہ دور نہیں ہے۔ وٹو: فائل

وہ ناسور جو امریکا نے عراق میں پالا تھا پھیلتے پھیلتے اگر شام و مصر تک پہنچ سکتا ہے تو خود امریکا بھی اس سے کچھ زیادہ دور نہیں ہے۔ وٹو: فائل

شام خاصا جل بجھا ہے، باقی جو رہ گیا ہے، ویت نام، عراق اور افغانستان وغیرہ کے ’’نیک دل‘‘ قاتل اس پر تیل چھڑک چکے ہیں، بہت ممکن ہے یہ سطریں شائع ہونے تک وہ اسے تیلی دکھا چکے ہوں۔

الزام، وہی پرانی فلم کا نیا پرنٹ، جو حربہ عراق کے خلاف استعمال کیا گیا اور اس کی تمازت یہاں تک پہنچ رہی ہو وہی شام کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ عراق پر (MDW) تباہ کن ہتھیاروں کا الزام تھا جو اب ثابت ہو چکا ہے کہ دروغ بافی کی اعلیٰ مثال تھا اور اب شام پر باغیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام ہے۔ اس الزام میں کتنی صداقت ہے، اس کا اندازہ کرنے سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اس وقت شام کے اندر ہو کیا رہا ہے۔

دمشق ایک زمانے میں عالم اسلام کا عروس البلاد رہا ہے جہاں اس کے تخت پر ایک وقت میں یزید براجمان رہا ہے وہاں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے بھی خلافت کی اور یوں کہ اپنے حسنِ کردار کے باعث عمرثانی کہلائے۔ کبھی یہ عثمانی سلطنت کا حصہ رہا اور کبھی اس پر فرانسیسی مسلط ہو گئے۔ آزادی ملی تو اس کے اپنے ہی اس کے بیری ہو گئے خاص طور پر اس کی فوج، جو بار بار اسی کو فتح کرتی رہی، کبھی کرنل حسنی الزائم نے تختہ الٹا تو کبھی کرنل سمیع الحنانی نے اس کا تیا پانچا کیا، وہ ہنوز دم نہ لینے پایا تھا کہ اس پر ادیب شیشا کلی چڑھ دوڑا۔

1958 میں ایک موقع ایسا بھی آیا جب شام کے صدر شکری القواتلی نے مصر کے جمال عبدالناصر کے ساتھ مصر و شام کے ادغام کا اعلان کرکے متحدہ عرب جمہوریہ (یونائیٹڈ عرب ری پبلک) بنانے کا ڈھونگ رچایا، جو لگ بھگ 13 برس تک جاری رہا۔ 8 مارچ 1963 کو ایک بار پھر فوج نے عرب سوشلسٹ بعث پارٹی کے بینر تلے لیفٹیننٹ کرنل محمد عُمران، میجر صلاح جدید اور کیپٹن حافظ الاسد کی سربراہی میں ملک پر قبضہ کر لیا۔

یہ کیپٹن حافظ الاسد، دمشق کے صدارتی تخت پر 1971ء یوں بیٹھا کہ مر کر ہی اٹھا لیکن جاتے جاتے اپنا تسلط بعدِ مرگ بھی قائم رکھنے کے لیے ملک اپنے ’’لائق و فائق صاحب زادے‘‘ بشارالاسد کو سونپ گیا۔ ظلم و جبر کی اتنی طول طویل حکم رانی کے دور میں عوام کو خوب خوب لوٹا گیا۔ اس خاندان نے اپنے اقتدار کے پائے جمائے رکھنے کے لیے انسانی ہڈیوں کا سیمنٹ انسانی لہو ہی میں بھگو کر استعمال کیا۔

بہارِ عرب کا جب تیونس سے آغاز ہوا اور اس کا پھل مصر و لیبیا سے ہوتے ہوئے شام تک 15 مارچ 2011 کو پہنچا، اس کی تاثیر چند ہی دنوں میں پورے شام میں پھیل گئی۔ وہ طاقتیں جو اسد خانوادے کو منظر سے ہٹانے کے لیے ایک مدت سے گھات لگائے بیٹھی تھیں، اللہ دے اور بندہ لے کے مصداق کھل کر سامنے آ گئیں۔

مخالفین کے ساتھ سرکاری عساکر اور عوام کی ایک قابل لحاظ تعداد بھی جا ملی، پہلے تو بے قاعدہ ہجوم محض احتجاجوں پر گزارہ کرتا رہا لیکن جلد ہی انہیں امریکا اور سعودی عرب وغیرہ کی کمک اسلحے کی صورت میں ملنا شروع ہوگئی اور احتجاجی تحریک مسلح جنگ میں تبدیل بن گئی۔ خانہ جنگی کے ان دو برسوں میں اب تک ایک لاکھ سے زیادہ شامی مارے جا چکے ہیں، لاکھوں ملک سے فرار ہو کر ہم سائہ ملکوں اردن اور لبنان میں پناہ گزین ہو گئے۔

مسلح جنگ کا آغاز دراصل سعودی حمایت یافتہ جبہت النصرہ کے باغیوں کے ساتھ شامل ہونے اور اس کے جواب میں حکومت کا ساتھ دینے کے لیے ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ کے در آنے سے ہوا۔ اب گہرائی میں دیکھا جائے تو دراصل شام کی آڑ میں سعودی عرب، قطر اور دوسری طرف سے ایران ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں اور مزید کریدا جائے تو اُدھر امریکا اور اِدھر روس ایک دوسرے کے مسل آزما رہے ہیں۔ امریکا باغیوں کو اسلحے کے ذخیرے فراہم کر رہا ہے اور حکومت کو روس گولہ بارود کے ڈھیر عطا کیے چلا جا رہا ہے۔ دونوں طرف کے اسلحے کی زد پر بہ ہرحال شامی کھڑا ہے۔ حکومت کی عمل داری ملک کے 40 فی صد حصے پر ہے جہاں ملک کی کل آبادی کا 60 فی صد موجود ہے، ملک کا شمال و مشرق مکمل طور پر فسادات کی لپیٹ میں ہے۔

اب عوام پر قیامت تو حکومت اور باغی، دونوں جانب سے ٹوٹ رہی ہے لیکن امریکا، یورپی یونین، عرب لیگ وغیرہ حکومت کی مذمت میں ’’رطب اللسانی‘‘ کے جوہر دکھا رہی ہیں، عرب لیگ نے تو خیر سے شام کی رکنیت ہی معطل کر دی اور اس کی نشست شام قومی اتحاد یعنی باغیوں کے حوالے کر دی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق جون 2013 تک ایک لاکھ سے زیادہ شامی موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں، کچھ سرکار نے، کچھ اغیار نے مارے۔

اس دوران غوطہ کے علاقے میں 21 اگست کو ایک بڑا سانحہ رونما ہوا جس میں کیمیائی مواد استعمال کیا گیا۔ اس کا الزام سرکاری فوج پر عائد کیا جا رہا ہے۔ اس حملے کے نتیجے میں سرکاری اطلاعات کے مطابق 322 افراد لقمۂ اجل بنے جب کہ باغیوں نے یہ تعداد 1729 بتائی ہے۔ طبی ذرائع کا کہنا ہے کہ مارے جانے والے افراد میں سے کسی ایک کے جسم پر کسی زخم یا چوٹ کا نشان نہیں تھا جو اس امر کا مظہر ہے کہ یہ اجتماعی مرگ کیمیائی مواد سے واقع ہوئی ہے۔

امریکا، شامی حکومت کے خلاف 100 ٹوماہاک کروز میزائل استعمال کرنے کا منصوبہ تیار کیے بیٹھا ہے جس کے جواب میں ایران نے دھمکی دی ہے کہ شام پر حملہ کیا گیا تو وہ اسرائیل پر چڑھ دوڑے گا، اُدھر روس بھی ایک بار جواباً سعودی عرب کے خلاف کارروائی کی دھمکی دے چکا ہے جب کہ چین بھی شام کے آمروں کی پشت پر موجود ہے تاہم لگتا ایسا ہے کہ باقاعدہ امریکی حملہ شروع ہوا تو یہ دونوں ممالک بھی اپنا بوریا بستر لپیٹ کر چلتے بنیں گے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس، امریکا کے ارادوں کے سامنے ڈٹا ہوا ہے لہٰذا واشنگٹن کے لیے یہ راہ مسدود ہے سو وہ شام پر کروز حملوں کے لیے اپنا ’’قانون خانہ‘‘ استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ روس کا موقف ہے کہ اس طرح کا حملہ بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہو گا۔ چین اور روس دونوں نے خبردار کیا ہے کہ شام میں (غیر ملکی) مداخلت کے نتائج انتہائی گمبھیر برآمد ہوں گے۔

یہ معاملہ تو خیر اب گہرا سرخ رنگ لائے گا۔ اس کا جواز بنایا جا رہاہے غوطہ میں کیمیائی مواد کا ہول ناک حملہ، غوطہ، ضلع دمشق کا حصہ ہے اور دارالحکومت دمشق کے نواح میں ہے۔ یہ اور کچھ اور نواحی علاقوں میں کرد بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔

سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی
بن گیا روئے آب پر کائی

کے مصداق ان کردوں نے ترکی، عراق اور ایران میں دال نہ گلنے کے بعد یہاں پر یہ سوچ کر کہ حکومت اور باغی ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں سو موقع اچھا ہے، جھٹ سے اپنی آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کا اعلان کر مارا۔ وہ بھول گئے تھے کہ النصرہ (القاعدہ) بھی اسی علاقے میں ڈیرا لگائے بیٹھی ہے اور کہ اس مرتبہ القاعدہ کا امریکا کے ساتھ پنجہ آزمائی کا کوئی ارادہ نہیں ہے بل کہ وہ سعودی عرب کے مفادات کی نگران ہے اور سعودی عرب، امریکا کا اتحادی ہے ۔

یہ ایک ایسا وقت تھا جب شام کی فوج باغیوں پر غالب آ رہی تھی اور باغی یکے بعد دیگرے ان علاقوں سے پسپا ہو رہے تھے جو اس نے دو اڑھائی برس کی جدوجہد کے بعد اپنے زیرنگیں کر لیے تھے، یہ ہی وہ وقت بھی تھا جب مصر میں فوج نے مرسی کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر قاہرہ کو ایک بار پھر فتح کر لیا تھا۔ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ اور عوام کی نظر شام کے بہ جائے التحریر چوک پر جا لگی تھی۔ یہ 19 مارچ کا دن تھا جب خان الاصل پر کیمیائی حملہ کیا گیا۔ اس حملے کی وڈیو جو بنائی گئی ہے اس میں بہ ظاہر تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ حملہ آور شامی فوج کی وردی میں ملبوس ہیں اور مظاہرین پر گرج برس رہے ہیں، اس کے فوراً بعد کیمیائی حملہ کر دیا گیا۔ اب اس کے نتیجے میں فوری طور پر جو ہلاکتیں ہوئیں ان میں 26 افراد شامل تھے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ ان 26 میں 16 سرکاری فوجی تھے اور 10 افراد شہری۔ اس کے بعد الزام اور جوابی الزام کا سلسلہ شروع ہوا۔ حکومت نے کہا یہ باغیوں کاکیا دھرا ہے اور باغیوں نے کانٹوں کایہ تاج حکومت کے سر دھرا۔ حکومت کا استدلال یہ تھا کہ اگر شام کی سرکاری فوج نے حملہ کیا ہوتا تو یہ لاشیں سرکاری فوجیوں کے بہ جائے باغیوں کی ہوتیں لیکن ان میں باغیوں کی ایک لاش بھی شامل نہیں، فوجیوں کے علاوہ مارے جانے والے 10 افراد تو سویلین ہیں۔

اس پر امریکا سرکار بھی چکرا کر رہ گئی کہ صورت الٹتی دکھائی پڑتی ہے لہٰذا خاموشی بہتر ہے، اسی لیے جب امریکی دفتر خارجہ کی خاتون ترجمان سے پوچھا گیا کہ اس خیال کے میں یہ کیمیائی حملہ کس نے کیا ہو گا تو اس نے ’’مجھے نہیں پتا‘‘ کہ کر بات کو ٹالنے کی کوشش کی، ادھر شامی حکومت کو غالباً اپنے معصوم ہونے کا زعم تھا اس نے کہا کہ اقوام متحدہ کے نمائندوں پر مشتمل گروپ آ کر بہ چشم خود صورت حال ملاحظہ کرکے یقین کر لے کہ سچ کیا ہے۔ اُدھر تو سرکار نے یہ اقدام کیا تاکہ اہلِ عالم اصل صورت حال سے آگاہ ہو جائیں اِدھر ابھی یہ ٹیم راستے ہی میں تھی کہ غوطہ پر کیمیائی حملہ ہو گیا۔

اب بات یوں سمجھ میں آتی ہے کہ اقوام متحدہ کی ٹیم خود شامی سرکار نے منگوائی اور کیمیائی حملے کا الزام بھی اسی پر عاید کیا جا رہاہے تو کیا شامی حکومت کی سٹی گم ہو چکی کہ اس کی دعوت پر معائنہ کاروں کی آمد آمد ہے اور وہ خود ہی کیمیائی حملہ کرکے بلا اپنے سر لینے کے درپے ہے۔ یہ بات فہم سے بالاتر ہے کہ جو خاندان 1971 سے شام پر مسلط ہے، یعنی لگ بھگ 45 برس سے، اس کے پاس کوئی خاص ایسی ذہانت بہ ہرحال ہو گی کہ بے شمار سازشوں کے باوجود اسے ہٹایا نہیں جا سکا، وہی اب اس قدر گھابڑ ہو چکاہے کہ جس شاخ پہ بیٹھا ہے اسے کاٹ رہا ہے۔ یہ ہی نہیں بل کہ اپنے حملے کی ویڈیو بھی بنوا رہاہے اور اسے ذرائع ابلاغ کو فراہم بھی کر رہا ہے۔ یہاں تو دال میں کچھ کالا ہے۔

تجزیہ نگار بھی یہ ہی محسوس کر رہے ہیں کہ بات دل کو لگتی نہیں۔ خیر اس واقعہ کی ویڈیو جب عالمی سطح پر دیکھی گئی تو اس پر خاصے دکھ درد کااظہار کیا گیا اور شامی حکومت کے خلاف خوب نفرت پھیلائی گئی۔ اس سے ایک اور بڑا مقصد جو حاصل ہوا وہ مصر کی صورت حال کو پس پشت ڈلوانا تھا کیوں یہاں بھی صاف محسوس کیا جا رہا تھا کہ اس کے ذمہ دار بھی وہی ہیں جنہوں نے دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق تقسیم کرنے کا ٹھیکا لے رکھا ہے اور عاقبت نااندیش پڑوسی مسلمان ریاستیں اپنی چھاتی پر مونگ دلوانے کے لیے سام راج کا ساتھ دے رہی ہیں حال آں کہ یہ معاملہ ایسا نہ تھا کہ آپس میں مل بیٹھ کر مذاکرات کی میز پر حل نہ ہو سکتا۔

وہ نہیں جان پا رہے کہ یہ ناسور انہوں نے عراق میں پالا تھا جو پھیلتے پھیلتے اگر شام و مصر تک پہنچ سکتا ہے تو وہ خود بھی اس سے کچھ زیادہ دور نہیں ہیں کیوں کہ کہا گیا ہے کہ مسلمان اعضائے یک دیگر ہیں، جسم ایک ہی ہے۔ سو اب جب اقوام متحدہ کا معائنہ گروپ وہاں مصروف کا رہے تو وہ کیمیائی مواد کو صاف دیکھ رہا ہے، گروپ کو تو بس یہ رپورٹ دینا ہے کہ ہاں کیمیائی مواد استعمال کیا گیا ہے، یہ تحقیق کرنا اس کی ذمہ داری نہیں ہے کہ یہ حملہ کیا کس نے ہے اور استعماری قوتوں کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہاں کیمیائی اثرات موجود ہیں الزام جس پر دھرنا ہے اسے تو وہ پہلے ہی سے نام زد کیے بیٹھے ہیں۔

شام میں کیمیائی حملوں کی جو تفصیل ملتی ہے اس کے مطابق تاریخ وار پہلا حملہ 19 مارچ کو خان الاصل پر ہوا جس میں 30 افراد موت کے گھاٹ اترے، اسی روز اوطیبہ پر بھی اسی طرح کا حملہ ہوا اس میں چھے افراد لقمۂ اجل بنے، 24 مارچ کو ادرہ میں بھی کیمیائی مواد کے استعمال سے 2 افراد ہلاک ہوئے، 13 اپریل کو شیخ مقصود حلب میں اعصابی گیس کے اثرات معلوم پڑے، اسی طرح صراقب میں فضاء سے زہریلی گیس پھینکی گئی جس میں ایک شخص جاں بہ حق اور تقریباً 10 افراد زخمی ہوئے اور آخری حملہ تاحال غوطہ میں 21 اگست کو کیا گیا اس واقعے کے نتیجے میں قریباً 2 ہزار افراد موت کے گھاٹ اتارے گئے کسی مارے جانے والے کے جسم پر خراش تک دکھائی نہیں دیتی۔

شام خاصا جل بجھا ہے، باقی جو رہ گیا ہے، ’’نیک دل‘‘ قاتل اس پر تیل چھڑک چکے ہیں بس اب تیلی دکھانے کی دیر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔