خون کھولاتی ہے گرمی

سید بابر علی  پير 9 ستمبر 2013
گر م موسم تشدد میں اضا فہ کر تا ہے۔ فوٹو: فائل

گر م موسم تشدد میں اضا فہ کر تا ہے۔ فوٹو: فائل

یہ ایک گرم دن ہے۔ آپ کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں چمک رہی ہیں اور آپ جلد از جلد گھر جا کر ایئرکنڈیشنر کی ٹھنڈک محسوس کرنا چاہتے ہیں، لیکن ٹریفک سگنل کی بتی سبز ہونے کے باوجود آ گے والا گاڑی آگے نہ بڑھائے تو آپ جھنجلا کر اس وقت تک ہارن سے ہاتھ نہیں اٹھاتے جب تک سامنے والی کی گاڑی چلنا شروع نہ ہوجائے۔

کیا آپ نے کبھی اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ اگر یہ صورت حال سردی کے موسم میں ہوتی تو غالباً آپ کا مزاج اس قدر برہم نہیں ہوتا جس قدر موسم گرما میں ہوتا ہے۔

اور یقیناً اس جھنجھلاہٹ اور غصے میں غلطی آپ کی نہیں اس گرمی کی ہے جو آپ کے مزاج میں جارحیت پیدا کر رہی ہے۔ لیکن دنیا بھر میں بڑھنے والی گرمی کا سبب بھی کہیں نہ کہیں بنی نوع انسان ہی ہے۔

یہ تو ایک عام مشاہدہ ہے کہ جیسے جیسے درجۂ حرارت بڑھتا ہے ویسے ویسے جارحیت میں اضافہ ہوتا ہے، لیکن اب سائنس کی تحقیق اور مطالعوں نے بھی اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے پُرتشدد واقعات اور بدلتے ہوئے جارحانہ رویوں کا تعلق موسمی تغیرات سے ہے۔

حال ہی میں دنیا کے ممتاز سائنسی جریدے ’’سائنس‘‘ میں شایع ہونے والے ایک مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ روئے زمین پر ہونے والے ہونے والے انفرادی اور گروہی پُرتشدد تصادم (لڑائی جھگڑے، جھڑپیں، بلوے) کا تعلق ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہے اور جس رفتار سے زمین کا درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ نصف صدی تک پرتشدد لڑائی جھگڑوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوجائے گا۔

محققین نے اس تحقیق میں ماضی میں اس حوالے سے کیے گئے تقریباً ساٹھ مطالعوں کا تجزیہ کیا، جس سے یہ بات سامنے آئی کہ ماضی میں بھی موسمی تغیرات اور تصادم کے درمیان تعلق رہا ہے اور اگر زمین کا درجۂ حرارت اسی طرح بڑھتا رہا تو 2050 تک مختلف گروہوں میں تصادم کا خطرہ پچاس فی صد تک بڑھ جائے گا۔

یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے محقق اور اس مطالعے کی سربراہی کرنے والے سولومن ہسیانگ کا کہنا ہے،’’یہ تبدیلی ہے کہ ہم موسمی تغیرات سے گریز کے بارے میں کیسے سوچ سکتے ہیں اور یہی بات ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ دراصل ماحولیاتی تبدیلی سے گریز دراصل ایسی شے ہے جس پر ہمیں مزید سرمایہ کاری کرنے کی خواہش ہونی چاہیے۔‘‘

سولومن کا کہنا ہے کہ ہم پر امید ہیںکہ نئی آنے والی نسل موسمی تغیرات کو اپنے موافق بنانے کی اہل ہوگی اور اس سے تشدد میں اضافے کے خطرات کو کم کیا جاسکے گا، جب کہ ٹیکنالوجی میں بڑے پیمانے پر ہونے والی ترقی یا سیاسی عوامل بھی مستقبل میں تشدد کے خطرات کو کم کر سکتے ہیں۔

٭موسمی تغیرات اور تشدد کی مختصر تاریخ
حالیہ برسوں میں موسمی تغیرات کے تشدد کے ساتھ ربط پر تحقیق سامنے آچکی ہے۔ ہسیانگ اور ان کی ٹیم نے اپنی تحقیق میں2009 سے اس موضوع پر شایع ہونے والے مطالعوں کا بھی تجزیہ کیا ہے۔ انہوں نے دس ہزار قبل مسیح سے پہلے کی تہذیب اور دنیا کے تمام بڑے خطوں کو اپنی تحقیق میں شامل کیا ہے۔

ماضی میں لیباریٹری اور قدرتی ماحول دونوں میں انسانی فطرت پر ہونے والے مطالعوں سے درجۂ حرارت اور تشدد میں ربط ظاہر ہوچکا ہے۔ چند سال قبل آئیوا یونیورسٹی کے شعبۂ نفسیات کے ریسرچر کریگ اے اینڈرسن نے ’’ہیٹ اینڈ وائلنس‘‘ کے نام سے کی گئی تحقیق میں کہا تھا،’’زیادہ درجۂ حرارت انسان کے مزاج اور طرز عمل کو جارح اور تشدد پسند بنا سکتا ہے۔ گرم درجۂ حرارت براہ راست دشمنی کے جذبات اور بلاواسطہ جارحانہ سوچ کو بڑھاتا ہے۔ اس مطالعے کے نتائج میں کہا گیا تھا کہ گلوبل وارمنگ بڑھنے سے دنیا بھر میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے اور جیل، اسکول اور کام کی جگہوں پر درجۂ حرارت پر قابو پاکر جارحانہ مزاج کی وجہ سے ہونے والے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

ہسیانگ کا کہنا ہے کہ بلند درجۂ حرارت کا انسان کی بہت سی جارحانہ حرکات دوران ڈرائیونگ بلا وجہ ہارن بجانا، گھریلو تشدد، جسمانی اور جنسی زیادتی سے گہرا تعلق ہے۔ یہاں تک کہ پولیس فورس بھی گرم درجۂ حرارت میں زیادہ اپنی طاقت کا استعمال کرتی ہے۔

انہوں نے بتایا ہے کہ موسلا دھار بارش کا بھی لڑائی جھگڑے سے گہرا تعلق ہے، خصوصاً ایسے معاشرے میں جو زراعت پر انحصار کرتا ہو، کیوں کہ بہت زیادہ بارش یا خشک سالی زرعی آمدنی کو متاثر کرتی ہے اور کم آمدنی کی صورت میں انفرادی تشدد کی شرح بڑھ جاتی ہے۔

ہسیانگ کا کہنا ہے کہ اگر تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو مایا تہذیب کے ختم ہونے کی ایک اہم وجہ موسمی تغیرات کے باعث طویل عرصے تک رہنے والی خشک سالی تھی اور اسی طرح دنیا میں ہونے والے دیگر موسمی تغیرات نے چین میں ’’تنگ خاندان‘‘ کو ختم کردیا تھا۔ در حقیقت چین میں خشک سالی زیادہ تر چینی حکم رانوں کے زوال کا سبب بنی ہے۔ گرم موسم سے پیدا ہونے والے جارحانہ مزاج کا تذکرہ پندرھویں صدی کے مشہور ادیب ولیم شیکسپیئر کی تصانیف میں بھی ملتا ہے۔ شیکسپیئر نے اپنے شہرۂ آفاق ڈرامے ’’رومیو اینڈ جولیٹ‘‘ کے ایکٹ 3سین1میں گرمی کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے:

’’I pray thee, good Mercutio, let’s retire:
The day is hot, the Capulets abroad,
And, if we meet, we shall not scape a brawl;
For now, these hot days, is the mad blood stirring.‘‘
ہسیانگ کے مطابق وسطی امریکا اور چین دونوں تہذیبوں کے زوال پذیر ہونے میں موسمی صورت حال کا اہم کردار رہا ہے جو EI Ninoایونٹ (وسطی اور مشرقی پیسیفک میں درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے ہونے والے واقعات جو موسم میں بڑے تغیرات کا سبب بنے) دکھائی دیتے ہیں۔

2011میں EI Ninoایونٹ پر ہسیانگ کی ہی ایک تحقیق کے مطابق1950سے 2004 کے عرصے میں ہونے والے عوامی تصادم میں EI Nino ایونٹ کا کردار 21 فی صد رہا۔ اور شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ روانڈا اور سوڈان جیسے گرم ملک اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، جب کہ آسٹریلیا میں اب تک EI Nino ایونٹ کی وجہ سے کوئی دنگا فساد نہیں ہوا ہے۔
ہسیانگ کا کہنا ہے کہEI Ninoکی وجہ سے بحرالکاہل میں تقریباً ہر چار یا پانچ سال بعد پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہوجا تا ہے اور یہ تبدیلی بھی کسی تصادم کی وجہ بن سکتی ہے۔ درحقیقت کسی مخصوص جنگ یا پر تشدد واقعے کو موسی تغیرات کا نتیجہ قرار دینا ناممکن ہے۔ چند عوامل ایسے ہیں جو ان حالات میں تشدد کا سبب بنتے ہیں۔

لیکن ہسیانگ کی نئی تحقیق نے اس خیال کو مستحکم کیا ہے کہ موسم میں ڈرامائی تبدیلی دنگا فساد اور پر تشدد تصادم میں اضافہ کرتی ہے۔
یونیورسٹی آف جارجیا کے پروفیسر اور امریکن میٹرولوجیکل سوسائٹی کے صدر جے مارشل شیفرڈ کا کہنا ہے کہ اسی طرح کسی بھی ایک آندھی یا گرم دن کی وجہ انسان کی جانب سے کئی گئی موسمی تبدیلی قطعاً نہیں ہے، لیکن یہ گذشتہ سال آنے والے سمندری طوفان ’’سینڈی‘‘ جیسی بڑی قدرتی آفت کا پیش خیمہ ہے۔

٭موسمی تغیرات سے تشدد میں اضافہ کیوں اور کیسے ؟
ہسیانگ اور ان کی ٹیم نے 190محققین کے شواہد کو اکھٹا کرنے کے بعد تعین کیا کہ موسمی تغیرات میں ہونے والی ہر ایک تبدیلی نے گروہی تصادم میں 14فی صد اور انفرادی طور پر تشدد میں4 فیصد اضافہ کیا ہے۔
ہسیانگ کا کہنا ہے کہ اگر مقامی سطح پر تشدد میں دس سے پندرہ فی صد اضافہ ہوا ہے تو غالباً آپ کو اس پر توجہ دینا چاہیے، جب کہ غریب آبادیوں میں موسمی تبدیلی وہاں کے رہائشیوں کو مزید جھگڑالو بنادیتی ہے اور ان میں تشدد کے طریقے کافی مختلف ہوجاتے ہیں۔

اونٹاریو کے بال سیلی اسکول آف انٹر نیشنل افیئرز کے پولیٹیکل سائنٹسٹ تھوماس ہومر ڈکسن کا ہسیانگ کی تحقیق کے بارے میں کہنا ہے کہ گرچہ ہسیانگ کا تجزیہ باعث تکلیف ہے یہ ایک تلخ حقیقت بھی ہے۔ لیکن موسم اور تشدد کے ایک دوسرے سے تعلق کو مزید وضح کرنے کے لیے کیا یہ طریقۂ کار درست ہے؟ انہوں نے کہا کہ اس میکانزم پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے لیکن سائنس دانوں کے پاس فی الوقت دست یاب شواہد کی بنیاد پر کچھ تصورات ہیں۔

ہسیانگ سالومن کا کہنا ہے کہ درجۂ حرارت میں تبدیلی اور بارش معاشی پیداوار اور اجناس کی قیمتوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ جو براہ راست عام آدمی کو متاثر کرتی ہے اور اسی وجہ سے بلوے اور دنگا فساد ہوتا ہے۔
موسمی تغیرات لوگوں کو بے گھر کرنے اور شہری آباد کاری پر مجبور کر سکتے ہیں اور یہ بات وسائل کی تقسیم پر جھڑپوں کا سبب بن سکتی ہے۔ جب کہ بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کے اثرات انسان کی دماغی اور جسمانی حرکات پر بھی مرتب ہوتے ہیں جس کے لیے مزید سائنسی تحقیق ضروری ہے۔

٭ماحولیاتی تبدیلی اور تشدد کی پیچیدگیاں
اس موضوع پر2011 میں شایع ہونے والی رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ موسمی تغیرات میں اگر معتد ل رجحان بھی رہا تو تب بھی مستقبل میں امریکی بحریہ، کوسٹ گارڈ اور میرین کور کے لیے قومی سلامتی کے لیے نئے چیلینجز سامنے آئیں گے اور اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد سے امریکی فوجی، سیکیوریٹی اور انٹیلی جنس تجزیہ کار اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کا مقصد موسمی تغیرات کی وجہ ہونے والی حفاظتی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے طویل مدتی منصوبہ بندی کرنا ہے۔

امریکی ادارے ’’نیشنل اوشیانک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن‘‘ کے سینیر سائنس داں جم بٹلر کا کہنا ہے کہ تما م سائنس داں اس بات پر متفق ہیں کہ بہت سی انسانی سرگرمیاں (کوئلہ، تیل اور گیس جلانا) کرۂ ارض پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں تیزی سے اضافہ کر رہی ہیں اور اگر آج ہم کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج روک دیں جب بھی زمین کا درجۂ حرارت ایک یا دو دہائی تک بڑھے گا۔

بلا واسطہ تجزیات جیسا کہ ہسیانگ نے کیا ہے عوامی سطح پر ماحولیاتی پالیسی کے مذاکرات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔
ہومر کا کہنا ہے کہ اگر یہ تحقیق نصف صدی میں سامنے آتی تو یقیناً ناخوش گوار ہوتی تو پھر واضح طور پر گرین ہاؤسزکے اخراج میں کمی کے لیے سنجیدگی سے کوششیں کی جاتیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔