کیا قافلہ جاتا ہے

رئیس فاطمہ  ہفتہ 7 ستمبر 2013

نصراﷲ خاں صاحب کی یہ کتاب اب آؤٹ آف پرنٹ ہے۔ اپنے گوناگوں خاکوں کی وجہ سے اس کی ایک اپنی اہمیت ہے۔ دراصل یہ تمام خاکے مختلف اخبارات اور رسائل میں چھپ کر بے پناہ مقبولیت حاصل کر چکے تھے۔ ان کو کتابی صورت میں یکجا کرنے کا خیال مشفق خواجہ کو آیا اور ان ہی کے تعاون سے یہ خاکے 1984ء میں پہلی بار شایع ہوئے۔ یوں تو اس میں تمام خاکے نہایت اہم اور معروف شخصیات کے ہیں جن کی تعداد 52 ہے، لیکن اس کتاب میں شامل دو خاکے ایسے ہیں جنھیں میں اس مجموعے کے ماتھے کا جھومر کہوں گی۔ اتفاق سے یہ دونوں خاکے خواتین کے ہیں۔ یعنی عطیہ فیضی اور ڈاکٹر رشید جہاں کے۔ ان خاکوں میں جو بے ساختگی اور انفرادیت ہے وہ انھیں دوسرے خاکوں سے ممتاز کرتی ہے۔ یہ دونوں خواتین کسی بھی تعارف کی محتاج نہیں، ان کا نام ان کا کام دونوں انھیں زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں۔ یوں تو ان دونوں خواتین پر لوگوں نے بہت کچھ لکھا ہے لیکن نصراﷲ خاں صاحب نے جس انداز سے خراج عقیدت پیش کیا ہے وہ ایک بالکل منفرد انداز ہے۔ کوئی بھی خاکہ آپ پڑھتے جائیے ایک زندہ شخصیت کتاب کے صفحات سے نکل کر آپ کے سامنے مجسم ہو جائے گی۔

جہاں تک عطیہ بیگم فیضی کا تعلق ہے، تو سب جانتے ہیں کہ وہ برصغیر کی نہایت پڑھی لکھی اور باذوق خاتون تھیں۔ اقبال اور شبلی نعمانی جیسے بڑے لوگ اور جید عالم ان سے اور ان کی قابلیت سے بہت مرعوب تھے۔ یہ دونوں حضرات عطیہ بیگم کے خاص اور قریبی دوست تھے۔ دونوں نے اپنی شاعری اور خطوط میں نہ صرف ان کی تعریف کی ہے بلکہ عطیہ سے اور ان کے خاندان سے اپنی عقیدت اور محبت کا اعتراف بھی کیا ہے۔ عطیہ وہ پہلی ہندوستانی خاتون تھیں جنھوں نے اقوام متحدہ میں لیکچر دیے تھے۔ انھوں نے معروف مصور فیضی رحمین سے شادی کی تھی، جو یہودی تھے لیکن وہ بعد میں مسلمان ہو گئے تھے۔ کراچی میں ڈینسو ہال (ایم ۔اے جناح روڈ) پر ان کی آرٹ گیلری تھی۔ اس کے علاوہ بمبئی میں ان کا ایک ’’ایوان رفعت‘‘ تھا۔ بعد میں پاکستان آ کر انھوں نے کراچی میں بھی ’’ایوان رفعت‘‘ قائم کیا تھا، جس میں ادیب، شاعر، موسیقار، فنکار وغیرہ مل بیٹھتے تھے۔ بعد میں حکومت نے ان سے یہ عمارت خالی کروا لی اور یہی صدمہ عطیہ فیضی کو لے ڈوبا۔ انھوں نے آخری عمر بڑی کسمپرسی میں گزاری۔ کراچی کے نگار ہوٹل میں اپنی بہن نازلی بیگم کے ساتھ رہائش اختیار کی اور وہیں ان کا انتقال یکم جنوری 1962ء کو ہوا۔ آئیے! اب ذرا نصراﷲ خاں صاحب کے خاکے سے کچھ اقتباسات ملاحظہ ہوں۔

’’مشہور مصور فیضی رحمین جو عطیہ کے عشق میں یہودی سے مسلمان ہو گئے تھے، عطیہ کے اشاروں پہ ناچتے تھے۔ ویسے عطیہ کے اشاروں پہ کون نہ ناچا۔۔۔۔؟ کسی نے دل نذر کیا تو کسی نے ایمان۔۔۔۔ عطیہ کے چاہنے والوں میں کئی نام آتے ہیں۔ ان میں وہ بزرگ شامل نہیں جو چپکے چپکے ان کے نام کی مالا جپتے تھے۔ عطیہ نے جس پر نظر ڈالی وہ ان کے نام کا کلمہ پڑھنے لگا‘‘۔

’’عطیہ اور قلوپطرہ کی داستان میں کوئی فرق نہیں، قلوپطرہ ایک ملک کی حکمران تھی اس کے دام محبت میں انتھونی اور سیزر اس طرح پھنسے جیسے مکڑی کے جال میں مکھی پھنس جاتی ہے۔ عطیہ کی زلف گرہ گیر کے گرفتار بڑے بڑے دانشور  تھے۔ وہ دلوں کی ملکہ تھیں‘‘۔

’’وہ ممبئی میں ساحل سمندر پر جب چاند کی چودھویں ہوتی، تو ایک پارٹی کرتیں۔ جس میں حسین عورتیں اور خوش رو حضرات سپید لباس پہن کر جمع ہوتے۔ عورتیں، موتیا اور چمپا کے پھولوں کے ہار اور گجرے پہنتیں۔ جوڑے میں سفید پھولوں کا ہار لپٹا ہوتا۔ کان کی بالیوں میں بھی پھول پروئے ہوتے۔ پھر ساحل سمندر پر ساز کے ساتھ چاند اور چاندنی کے گیت گائے جاتے۔ چاندنی رات کی موسیقی خود عطیہ بیگم ترتیب دیتی تھیں‘‘۔

عطیہ فیضی ایک خوش قسمت عورت تھیں۔ انھوں نے زندگی سے جو چاہا وہ انھیں ملا۔ نہایت عیش و عشرت کی زندگی گزاری۔ عطیہ کا وجود تین چیزوں سے عبارت تھا۔ ادب، موسیقی اور حسن پرستی۔ وہ ہر شے میں حسن تلاش کر لیتی تھیں۔ ان کا جمالیاتی ذوق غضب کا تھا۔ تصور کیجیے تو عطیہ فیضی کی جو تصویر ذہن کے پردے پر ابھرتی ہے وہ کچھ ایسی ہے۔ سفید لباس میں ملبوس ایک پیکر خاکی، ہاتھوں میں بیلے کی کلیاں، بالوں میں پھول، گلے میں بھی پھولوں کی مالا، ہاتھ میں ستار، سمندر کا کنارہ اور چاندنی رات۔ جیسے کوئی جوگن ستار بجا رہی ہو۔ لیکن وہ جوگن نہیں تھیں۔ جوگ تو فیضی رحمین نے ان کے عشق میں لیا تھا اور آخر تک ساتھ بھی نبھایا۔

دوسرا خاکہ جو ڈاکٹر رشید جہاں کا ہے۔ وہ بھی اپنی ذات میں انجمن تھیں۔ سچ پوچھیے تو وہ صحیح معنوں میں فیضؔ صاحب کی اتالیق تھیں۔ فیضؔ صاحب کی فکری نشوونما اور بلاغت میں ان کا بڑا ہاتھ تھا۔ صاحبزادہ محمود الظفر کی بیگم جو ایم، اے، او کالج کے وائس پرنسپل تھے۔ اب آگے مصنف کی زبانی سنیے۔

’’وہ بے پناہ خلیق تھیں ہر ایک کا پاس لحاظ کرتیں۔ کسی کو خفا ہونے کا موقع نہ دیتیں۔ تاثیرؔ اور فیضؔ سے ان کے گہرے مراسم تھے۔ فیضؔ کی مسیں بھیگ رہی تھیں، وہ بڑے شرمیلے تھے۔ پھر ہوا یوں کہ مکھی مکڑی کے جال میں پھنس گئی۔ ایک فیضؔ ہی کیا ایسے کئی فیض رشید کے حسن بیان اور ان کی تعلیمات کا اثر قبول کر کے کمیونسٹ ہو گئے۔ یوں سمجھیے کہ فیضؔ ایک بچہ تھے اور رشید ان کی انّا تھیں۔ ان کو لوریاں دیتیں، تھپک تھپک کر مارکسی نغمے سناتیں اور مارکسی خواب دکھایا کرتیں۔ غرض کہ فیضؔ کو رشید جہاں نے بالکل بدل ڈالا۔ ایک فیضؔ ہی کیا امرتسر اور لاہور کا جو بھی جوان ان کے قریب آیا وہ ان کا ہو گیا‘‘۔

’’رشید جہاں بہت اچھی معالج تھیں۔ وہ غریبوں سے علاج اور دوا کے پیسے نہیں لیتی تھیں۔ غریبوں سے ان کی ہمدردی کا یہ عالم تھا کہ اگر آدھی رات کو ان کی کسی مریضہ کی حالت بگڑ جاتی تو وہ گہری نیند سے اٹھ کر اس کے ہاں چلی جاتیں‘‘۔

بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر صاحبزادہ محمود الظفر اور رشید جہاں کو امرتسر چھوڑ کر جانا پڑا۔ یہ فیضؔ صاحب کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔ وہ خود کو بہت تنہا محسوس کرنے لگے تھے۔ لیکن فیضؔ چونکہ عامل کمیونسٹ نہ تھے اس لیے انتہا پسندوں اور کمیونسٹوں کے مخالفین کی زد سے کسی حد تک بچے رہے، لیکن رشید جہاں کی کمی وہ اپنی زندگی میں اس طرح محسوس کرتے تھے جیسی کہ بقول مصنف ۔۔۔۔۔ ’’جیسے کوئی ماں اپنے بچے کو جنگل میں اکیلا چھوڑ کر چلی جائے‘‘۔

رشید جہاں افسانہ نگار بھی تھیں، ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھیں اور اسی حوالے سے انھوں نے افسانے بھی لکھے جو دو مجموعوں کی صورت میں موجود ہیں۔ رشید جہاں منافق نہیں تھیں وہ اپنی رائے کا اظہار برملا اور بلا کسی خوف کے کرتی تھیں۔ صاحب کتاب کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔ ’’وہ ترقی پسندوں میں بڑی مقبول تھیں اور ان میں ان کا نام سرفہرست آتا تھا۔ رشید جیسی بھی تھیں نڈر اور بے باک تھیں۔ ان کے ہاں آج کل کے بیشتر نام نہاد کمیونسٹوں کی طرح محل میں بیٹھ کر کھیت اور کارخانوں میں کام کرنے والوں کسانوں اور مزدوروں کی زبوں حالی پہ جھوٹے آنسو نہیں بہائے۔ بلکہ اپنے محل کو آگ لگا کر وہ ان میں شامل ہو گئیں۔ انسان کافر ہو تو کھلا کافر، مومن ہو تو پکا مومن ہو۔ لیکن منافق نہ ہو۔ اور رشید منافق نہیں تھیں۔ یہی ان کی بڑائی تھی‘‘۔

دونوں خواتین میں کئی قدریں مشترک تھیں۔ دونوں آزاد خیال اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ادب اور آرٹ کی دلدادہ۔ نہایت متاثر کن شخصیات کہ جن کے سراپا کے لیے لفظ ’’توبہ شکن‘‘ بہت مناسب۔ دونوں نے لوگوں کو نہ صرف متاثر کیا، بلکہ اپنے بے شمار پرستار اور عقیدت مند بھی پیدا کیے۔ دونوں خواتین کا تعلق شرفاء کے اعلیٰ طبقے سے تھا۔ عطیہ حسن علی فیضی یکم جنوری 1877ء کو ترکی کے شہر استنبول میں پیدا ہوئیں، ان کا تعلق ممبئی کے ممتاز طیب جی گھرانے سے تھا۔ ان کا قلمی نام شاہندہ تھا۔ دونوں خواتین نے ہندوستان کی عام عورت کو اس کا مقام دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ رشید جہاں نے افسانے لکھے، فیضؔ اور تاثیرؔ جیسے لوگوں کو متاثر کیا۔ جب کہ عطیہ فیضی نے انگریزی زبان میں ہندوستانی کلاسیکی موسیقی پر کتاب لکھی جس کے تین ایڈیشن شایع ہوئے۔ ان کے علاوہ ’’تہذیب نسواں‘‘ اور ’’خاتون‘‘ نامی رسائل میں مضامین بھی لکھے۔ بہرحال ’’کیا قافلہ جاتا ہے‘‘ ایک دلچسپ، علمی اور معلوماتی کتاب ہے جس میں ان اہم شخصیات کے بارے میں بہت سی ذاتی اور نجی باتیں ملتی ہیں۔ تمام خاکے بہت دلچسپ اور سادہ زبان میں لکھے گئے ہیں، لیکن افسوس کہ اس کتاب کو دوبارہ شایع کرنے کا کسی کو خیال نہیں آیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔