بھارتی اور کشمیری مسلمان اب کیا سوچ رہے ہیں؟

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 28 جون 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

ساری دُنیا میں مذہبی آزادیوں پر کڑی نظر رکھنے والے ممتاز امریکی سرکاری ادارےUSCIRFنے 24جون 2019 کو جاری کردہ اپنی تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیاہے کہ نریندر مودی کے بھارت میں مسلمانوںپر مظالم کئی گنا بڑھ گئے ہیں ۔مذکورہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مودی جی کی پارٹی ( بی جے پی)نے منظم طریقے سے بھارتی مسلمانوں کی مذہبی آزادیوں کو سلب اور محدود کیا ہے۔

بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رویش کمار ، بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور بی جے پی کے میڈیا ہیڈ انیل بلونی نے جس شدت سے اس رپورٹ کو مسترد کیا ہے، صاف عیاں ہوتا ہے کہ امریکی رپورٹ اپنے ہدف پر بیٹھی ہے۔ سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے۔ عالمی میڈیا نے بالاتفاق شہادت دی ہے کہ بی جے پی اور نریندر مودی کا پچھلا پانچ سالہ دَورِ حکومت( مئی2014 تا اپریل 2019)بھارتی مسلمانوں اور مقبوضہ کشمیر کے زیر استبداد مکینوں کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں تھا۔

بھارت کے بیس ، بائیس کروڑ مسلمان مسلسل دباؤ اور خوف کا شکار رہے۔ یہ پانچ برس کشمیریوں کے سخت آزمائش کے سال تھے۔ شائد ابھی آزمائش کے مزید دَور باقی ہیں۔ بی جے پی اور مودی جی فتحیاب ہو چکے ہیں اور مذکورہ بالا امریکی ادارے کے بقول، یہ فتح بھارتی مسلمانوں اور مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کے لیے خوف کا پیغام لائی ہے ۔یہ رپورٹ ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب دو دن پہلے ہی بھارتی ریاست، جھاڑ کھنڈ، کے ایک نوجوان مسلمان( تبریز انصاری) کو بِلا وجہ مار مار کر ہلاک کر ڈالا گیا تھا۔بھارتی اخبار ’’دی ٹیلی گراف انڈیا‘‘نے بھی شہادت دی ہے کہ تبریز انصاری کو قتل کرنے والے متشدد ہندو ہلاکت سے پہلے اُسے ’’جئے شری رام‘‘ اور ’’جئے ہنو مان‘‘کے نعرے لگانے پر بھی مجبور کرتے رہے ۔بہیمانہ قتل کی یہ واردات ویڈیو کلپ بن کر سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے ۔ اسے دیکھ کر دل دہل دہل جاتا ہے ۔

سوال کیا جارہا ہے کہ بی جے پی کی اس فتح کے بعد بھارتی مسلمان اور کشمیری کیا سوچ رہے ہیں ؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ممتاز بھارتی اخبار ’’انڈیا ٹوڈے‘‘نے بھی ایک سروے کیا ہے جس کا مختصر جواب یہ آیا ہے کہ بھارتی مسلمان بی جے پی کی تازہ ترین پارلیمانی انتخابی فتح سے مزید خوف اور غیر یقینیت کی دلدل میں دھنس گئے ہیں۔ اخبار مذکور نے اُتر پردیش، میں بسنے والے مسلمانوں کا بھی جائزہ لیا ہے۔ اس صوبے کے ایک بڑے قصبے Nayabans کے مکین مسلمانوں کی اکثریت نے کہا ہے کہ اب حالات اتنے مخدوش ہو گئے ہیں کہ وہ یہاں سے کسی اور علاقے میں کُوچ کرنے کے ارادے باندھ چکے ہیں ۔

اس قصبے کے کاروباری مسلمانوں نے ایک ہی مشترکہ بات کہی ہے کہ تقریباً تمام ہندوؤں نے ہمارا سماجی اور کاروباری مقاطع کررکھا ہے ، ایسے میں ہم کب تک یہاں رہ سکتے ہیں؟ سب نے بیک زبان کہا ہے کہ مودی جی اور بی جے پی کی سابقہ پانچ سالہ حکومت کے دوران ہمیں یہاں بالکل اجنبی اور اچھوت بنا دیا گیا۔ یہاں کے کئی بیگناہ مسلمانوں کو گائے  ذبح کرنے کے بے بنیاد الزام میں تشدد کا ہدف بھی بنایا گیا اور کئی مسلمان گاؤ کشی کی تہمتوں تلے اب تک جیلوں کی ہوا کھا رہے ہیں۔ اس پس منظر میں نیویارک یونیورسٹی کی مشہور ہندو دانشور اور ایکٹوسٹ ، روچیراگپتا، نے اپنے حالیہ ایک آرٹیکل میں صاف لکھا ہے کہ مودی اور بی جے پی کی حالیہ انتخابی فتح کے بعد بھارت کے بائیس کروڑ مسلمان پھر سے خوف اور دہشت کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔ وہ خبردار کرتی ہیں کہ اگر بین الاقوامی برادری نے بھارتی مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ نہ کیا تو بی جے پی انھیں کچل کر رکھ دے گی۔

ان انتخابات میں مودی کے دو قریب ترین ساتھیوں (امیت شاہ اور یوگی ادتیہ ناتھ)نے بھارتی مسلمانوں کو بھارت کے لیے Termite(دیمک)کہا اور انھیں بھارت کے لیے ’’گرین وائرس ‘‘ بھی قرار دیا۔ لوک سبھا کے542 کے ایوان میں، پورے بھارت سے، صرف 27مسلمان ارکان جگہ بنا پائے ہیں۔ یہ تعداد گزشتہ پارلیمان کے مسلم ارکان کے مقابلے میں50فیصد سے بھی کم ہے۔ نصرت جہاں روحی سمیت دو خواتین بھی جیتی ہیں۔ایسی ہی صورتحال بہار میں ہے جہاں چار کے مقابلے میں اس مرتبہ صرف دو مسلم امیدوار کامیاب ہو سکے ہیں۔

کیرالہ اورآسام میں بھی مسلم نمایندگی میں کمی آئی ہے۔یہاں سے صرف بدرالدین اجمل کامیاب ہُوئے ہیں ۔ سماج وادی پارٹی کے اعظم خان بھی دوبارہ جیت گئے ہیں اورپنجاب و مہاراشٹر سے محمد صادق اور امتیاز جلیل کامیاب ہو سکے ہیں۔اسدالدین اویسی بھی جیت گئے ہیں لیکن اُن کی جماعت ( AIMIM)بُری طرح ہار گئی ہے۔ اویسی صاحب کے حلف اٹھانے کے دوران لوک سبھا میں بی جے پی کے ارکان نے جو دل آزار ہوٹنگ کی ہے، یہ تماشہ ساری دُنیا نے دیکھا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ان انتخابات میں جومسلمان امیدوار کامیاب ہو کر پارلیمان پہنچے ہیں، وہ اپنی جماعت کی پالیسی کے تحت کام کریں گے نہ کہ مسلمانوں کے مسائل اٹھائیں گے۔

ان انتخابات میں بھارتی مسلمان مزید پیچھے دھکیل دیے گئے ہیں؛ چنانچہ جامعہ ملیہ اسلامیہ( دہلی) میں ایک مسلمان پروفیسر اس بارے بجا کہتے ہیں:’’ (بھارتی) مسلمانوں کو حاشیہ پر لانے اور ان کے ووٹ کے حقوق ختم کرنے کا عمل ایک عرصے سے جاری ہے اور تازہ انتخابات تو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف لڑے گئے ہیں جس میں مسلمانوں کو ایک خطرے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔اس کے اثرات مزید یہ ہوں گے کہ بھارتی مسلمانوں کے آئینی حقوق پر قدغن لگائی جا سکتی ہے۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنائے جانے کی کوششیں بھی آگے بڑھ رہی ہیں۔‘‘

تازہ بھارتی پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی نے مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف نعرہ زَن ہو کر پُر جوش حصہ لیا ہے ۔ علی گڑھ سے بی جے پی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے ایم پی ، ستیش کمار گوتم، نے پہلا اعلان ہی یہ کیا ہے کہ اب مَیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں لگی جناح کی فوٹو زبردستی اتارکر پاکستان بھیجوں گا۔ یہاں تک کہ بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ ، کیپٹن امریندر سنگھ ، نے بھی کہا ہے کہ ’’ ہماری پارٹی کانگریس کو ( مشرقی) پنجاب میں ووٹ اس لیے بھی کم ملے ہیں کیونکہ ہمارے ایک وزیر ( نوجوت سنگھ سدھو) نے پاکستان جا کر جنرل قمر جاوید باجوہ سے مصافحہ اور معانقہ کرکے بھارتیوں کے دل دکھائے تھے ۔‘‘ایسے متعصبانہ ماحول میں کشمیری مسلمان بھی بی جے پی کی تازہ کامیابی سے دباؤ میں ہیں ۔مقبوضہ کشمیر بارے بی جے پی اور مودی کی آیندہ سوچ کیا ہے ، اس کا  وحشیانہ اظہار اُس روز ہُوا جس روز مودی اور بی جے پی کی انتخابی و پارلیمانی فتح کا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔

یہ 24مئی 2019 کا دن تھا۔ اُس روز کشمیر میں قابض بھارتی افواج نے مشہور مجاہد رہنما، ذاکر موسیٰ، کو شہید کر دیا ۔ موسیٰ ذاکر ، جن کا اصل نام ذاکر رشید بھٹ تھا، معروف کشمیری شہید مجاہد ( برہان وانی)کے انتہائی قریبی ساتھی تھے۔ پچھلے پانچ مہینوں میں مقبوضہ کشمیر کے440حریت پسندوں کو شہید کیا گیاہے۔کشمیریوں نے تو اکثریتی طور پر ان بھارتی انتخابات کا کامل بائیکاٹ کیا لیکن اس کے باوجود ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی ’’نیشنل کانفرنس‘‘ نے حصہ لیا اور اس کے تینوں امیدوار بھی کامیاب ہو گئے ہیں ۔

فاروق عبداللہ کہتے تو ہیں کہ ’’ مودی جی دوسری بار خواہ کتنے ہی طاقتور وزیر اعظم بن جائیں لیکن وہ کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل نہیں کر سکتے‘‘ لیکن زعفرانی رنگ میں ملبوس فاتح بی جے پی کے مقبوضہ کشمیر بارے تیور اچھے نہیں ہیں۔نئے بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے وزارت کا حلف اٹھاتے ہی مقبوضہ کشمیر بارے جو پہلا پالیسی بیان دیا ہے ، اس میں کشمیریوں کو صاف دھمکی دی گئی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔