الوداع زرداری صاحب

اسلم خان  ہفتہ 7 ستمبر 2013
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

صدر زرداری نئے ریکارڈ قائم کر کے عزت و احترام کے ساتھ ایوان صدر سے رخصت ہو رہے ہیں۔ پہلے صدر ہیں جنھیں منتخب وزیر اعظم نے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے الوداعیہ دے کر رخصت کیا۔ ہشت پہلو شخصیت کے مالک جناب آصف علی زرداری مقدر کے سکندر نکلے‘ آج ان کے سیاسی حریف اور ایک زمانے میں بدترین مخالف  بھی ان کی صفات پر رطب اللسان ہیں۔

جناب نواز شریف نے ماضی کی ملاقاتوں اور مہکتے گلابوں کا ذکر چھیڑ کر الوداعی تقریب میں سب کو ششدر کر دیا تھا۔ جناب آصف زرداری نے بھی جواباً نواز شریف کی قیادت میں پاکستان کو مستحکم کرنے کے عزم کا اعادہ کیا اور الیکشن تک سیاست کو موخر کر کے قوی خدمت کے ایجنڈے کا اعلان کیا۔

جناب زرداری یکسر مختلف حالات میں بے پناہ آئینی اختیارات سمیت منتخب ہو کر ایوان صدر پہنچے تھے لیکن انھوں نے پہلے خطاب میں تمام اختیارات پارلیمان کو واپس لوٹانے کا وعدہ کیا اور پھر اس پر عمل کر کے دکھا دیا۔ با اختیار اور طاقتور صدر جب بے اختیار ہونے کے بعد اپنی آئینی مدت مکمل ہونے پر باوقار انداز میں رخصت ہو رہا تھا تو عظمت اس پر ٹوٹ ٹوٹ کر برس رہی تھی‘ ساری قوم کے منتخب رہنما اسے شاندار طریقے سے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے رخصت کر رہے تھے‘ ایک استثناء عمران خان اور ان کی ابھرتی ہوئی جماعت تحریک انصاف ہے جس نے صدر زرداری کے اعزاز میں دیے جانے والے ظہرانے کا بائیکاٹ کرنا مناسب سمجھا۔ اے کاش عمران خاں سیاسی بلوغت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے کسی نمائندے کو بھیج دیتے۔ بگڑے بچے اور ناراض نوجوان کا کردار اب ان پر جچتا نہیں‘ ویسے بھی اگر سیاسی مصلحتیں پرویز خٹک کو وزیر اعلیٰ اور آفتاب شیر پائو کو اتحادی بنا سکتے ہیں تو وزیر اعظم کے ظہرانے میں شریک ہونے سے ان کے ’’زعم پارسائی‘‘ کے متاثر ہونے کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔

پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں جناب آصف زداری کا نام سنہرے حروف سے لکھا جائے گا اور ہمیشہ جگمگاتا رہے گا کہ انھوں نے پر امن انتقال اقتدار خود مختار الیکشن کمیشن اور نگران انتظامیہ کے تصور کو تحریری صورت میں متشکل اور مجسم کر دکھایا‘ رضا ربانی‘ اسحاق ڈار کی سربراہی میں بننے والی آئینی کمیٹی نے آئین کو پارلیمانی طرز حکومت اور اس کی روح کے مطابق بحال کرنے کا معجزہ کر دکھایا۔ وہ پہلے صدر مملکت ہیں جنھوں نے اختیارات حاصل کرنے کے بجائے اختیارات رضا کارانہ طور پر پارلیمان کو واپس کر دیے۔

آصف زرداری نے بعض جمہوری روایات سے کھلے بندوں انحراف بھی کیا، انھوں نے ایوان صدر کو  پیپلز پارٹی کا مرکز بنائے رکھا۔ وہاں پارٹی کے اجلاس ہوتے رہے اور انھوں نے پیپلز پارٹی کی سربراہی چھوڑنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ جس پر بڑی لے دے ہوتی رہی، ان کے دو عہدوں کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا‘ فیصلہ بھی ان کے خلاف آیا لیکن انھوں نے اپنے لاجواب اور باکمال قانونی مشیروں کے ذریعے عدلیہ کو قانون موشگافیوںمیںالجھائے رکھا۔جناب نواز شریف سے مری میں 60 ججوں کو بحال کرنے کا تحریری معاہدہ کیا، بحالی کی تاریخ بھی طے کر دی بعد ازاں نا معلوم وجوہ کی بنا پر معاہدے پر عملدرآمد سے انکار کر دیا۔لانگ مارچ کے دبائو میں آ کر خود زرداری صاحب پس منظر میں چلے گئے اور اپنے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے ذریعے عدلیہ کو بحال کرا کے لانگ مارچ سے جان چھڑا لی۔

جناب زرداری نے اپنے یاروں کا یار ہونے کو عملی طور پر ثابت کر دکھایا۔ ان کی اس صفت سے بے شمار احباب مستفید ہوئے۔ ہمارے ایک زُود رنج دوست نے بھی سرکاری عمرے فرمائے اور دنیاکے کئی دارالحکومتوں کی سیر کی۔اس کالم نگار کو صدر زرداری سے بڑا ’’تعلق خاطر‘‘ رہا‘ اسلام آباد آمد پر 90ء کی دہائی کے آغاز پر ایک حادثے نے ہمیں جناب زرداری کی صف دشمنان میں کھڑا کر دیا‘ ایک مرحوم دوست اخبار نویس نے جناب زرداری سے اپنی قربت کو استعمال کر کے اس کالم نگار اور ان کے ایک ساتھی اخبار نویس پر ڈکیتی  کے مقدمے درج کرا دیے۔ہمیں 4 ماہ روپوش رہنا پڑا ، بے روز گاری کے دکھ کاٹنا پڑے اور نجانے کیا کیا مصائب برداشت کرنا پڑے۔

صحافت اور سیاست کے تال میل سے جنم لینے والی اس المناک کہانی کا انجام بڑا خوشگوار ہوا۔ جب صدر مملکت کی حیثیت سے جناب آصف زرداری نے اس کالم نگار کی بیرون ملک صحافتی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے تمغہ امتیاز سے نوازا۔حیرت تو اس وقت ہوئی جب ہر حکمران کے طائفے میں شامل ہو کر بیرون ملک سیر و سیاحت کرنے والے بعض ساتھیوں نے طعنہ زنی کی۔میمو گیٹ  سکنیڈل کے کردار حسین حقانی کو پاکستان بلا کر سپریم کورٹ کے کٹہرے میں کھڑا کرا دیا لیکن ان کی حفاظت کے لیے سینہ سپر ہو گئے اور یہاؔں تک جناب حسین حقانی  امریکا واپس چلے گئے۔ یہ  صرف آصف زرداری ہی کر سکتے تھے۔

جناب زرداری پر کون کون سا الزام نہیں لگایا گیا‘ صرف مرحوم غلام اسحاق خاں نے قتل‘ اغوا‘ اسمگلنگ ڈکیتی جیسے سنگین الزامات کے تحت 19 سنگین مقدمات قائم کیے لیکن ایک بھی الزام ثابت نہ ہو سکا اور پھر اصول پسند غلام اسحاق خان کو ’’اسی‘‘ آصف زرداری سے وفاقی وزیر کا حلف لینا پڑا اور اب ان کے داماد انور سیف اللہ خاں پیپلز پارٹی کے اہم رہنما شمار ہوتے ہیں۔ سیاسی میدان میں جناب آصف زرداری مقدر کے سکندر نکلے۔ 1983ء میں وہ نواب شاہ ضلع کونسل کا بلدیاتی انتخاب ہار گئے تھے‘ اسی طرح 1985ء کے غیر جماعتی عام انتخابات سندھ اسمبلی کے لیے ان کے کاغذات نامزدگی جمع کرا کے واپس لے لیے گئے۔ 1990ء سے 2004ء تک 14 ہنگامہ خیز سالوں سے زرداری صاحب کی زندگی کو تلاطم خیز موجوں کے سپرد کر دیا۔

طویل قید بھگت کر ’’پاکستانی منڈیلا اور مرد حر‘‘ کا خطاب پایا۔ غلام اسحق خاں کے بعد انھیں اپنے نامزد کردہ صدر فاروق لغاری کے ظلم و ستم کا نشانہ بھی بننا پڑا۔ 1997ء سے 2004ء تک حکمران بدلتے رہے لیکن جناب زرداری کا مقدر نہ بدلا۔ بلکہ جناب نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں بھی مقدمات بنائے گئے۔ انھوں نے پاکستان کی تاریخ کے مشکل ترین سیاسی دور میں ایک ماہر بازی گر کی طرح تنے ہوئے رسے پر چل کر اپنا 5 سالہ دور صدارت کامیابی سے مکمل کیا۔ جمہوری اور آئینی طریقے سے قابل قبول عام انتخابات کرانے کے بعد اقتدار منتقل کیا۔ اپنے سیاسی حریفوں سے تعریف و تحسین کے پھولوں کی خوشبو میں ایوان صدر سے رخصت ہو کر اپنے گھر جا رہے ہیں ورنہ مدت سے یہاں کا معمول تھا کہ اس قصر ابیض کے مکین کو فوجی کمانڈوز گردن سے پکڑ کر نا معلوم حوالات کا رہائشی بنا دیتے۔ روایت شکن زرداری کئی ایسے ریکارڈ قائم کر کے تالیوں کی گونج میں بلاول ہائوس جا رہے ہیں‘ الوداع الوداع زرداری صاحب الوداع۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔