خرابی کی جڑ

طارق محمود میاں  ہفتہ 7 ستمبر 2013
tariq@tariqmian.com

[email protected]

میں نے کسی منحوس ساعت میں کہا تھا کہ لوڈشیڈنگ ختم نہیں ہوسکتی۔ تاریخیں دے دے کر شرمندہ نہ ہوں۔ یہ جب تک اور جہاں تک چاہیں زور لگالیں، ختم نہیں ہوسکتی۔ وجوہات بہت ہیں۔ پوری بجلی پیدا کرنے اور پیدا کرکے اسے سنبھالنے سے لے کر اس کی عدم دستیابی پر منحصر کاروباروں کے جاری رہنے تک، بہت سی وجوہات۔ یہی حال ڈرون حملوں کا ہے۔ ان کے کرنے کرانے سے کچھ نہ ہوگا۔ جب پیا چاہے گا تو اسی وقت خواہشوں کی یہ دلہن سہاگن ہوگی اور امن نصیب ہوگا۔ یہ 94 ارب ڈالر کی انڈسٹری ہے۔ اتنے پیسے انھوں نے ساحل سمندر پر ڈرونوں کے پیچے لڑانے کے لیے انویسٹ نہیں کیے ہوئے۔

دوسرے سامان حرب کی طرح ان کے استعمال کا جواز بھی تلاش کرلیتے ہیں۔ تلاش نہیں کرپاتے تو پیدا کرلیتے ہیں۔ صنعت اور تجارت اسی کی کامیاب ٹھہرتی ہے جس کے پہیے چلتے رہتے ہیں۔ پرانا مال نکلتا رہتا ہے اور اس کی جگہ لینے کو نیا اور تازہ مال آتا رہتا ہے۔ ہم بھی اسی تجارت کی ایک منڈی ہیں اور کتنے مزے کی بات ہے کہ دہشت گردی کی اس جنگ میں دونوں طرف سے ایک ہی قسم کے تاجروں کا مال استعمال ہورہا ہے۔ ہاں البتہ ہمارے ہاں سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ ادھر بھی نعرہ تکبیر اور ادھر بھی نعرہ تکبیر۔ ادھر بھی شہید اور ادھر بھی شہید۔ تاجر، مال بیچ کے بہت ہنستا ہوگا۔

اسی طرح کراچی کی بدامنی بھی آسانی سے ختم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ ان لوگوں نے امن کے نام پر گزشتہ دنوں کراچی میں جو لڈیاں ڈالی ہیں اور نہاریوں کے چسکے لیے ہیں اس سے تو امید بندھی تھی کہ معاملات کا رخ طے ہوگیا ہے اور اب چوں چراں کے بغیر بڑے اعتماد سے کھڑاک ہوگا لیکن چند ہی ساعتوں کے بعد آئی جی پولیس کی تبدیلی اور تبدیلی سے واپسی نے خبر دی کہ اب بھی جوتوں میں دال بٹ رہی ہے۔ بیان جاری ہوا کہ اگر بڑی حکومت نے آیندہ ایسی حرکت کی تو اس سے بھی زیادہ سخت زبان میں جواب دیا جائے گا۔ اعتماد اور تعاون کی اس ہم آہنگی کے صدقے اور واری۔ جی چاہتا ہے کہ گڑ کھا کے مرجاؤں (پنجابی محاورہ)۔ ارے صاحب! ڈنڈا اٹھانے کے بعد چور سے یہ کون پوچھتا ہے کہ ’’قبلہ اگر اجازت ہو تو اسے میں آپ کی کمر پر رسید کردوں؟‘‘ رینجرز نے اپنی کارروائی کا آغاز کیا ہے، تو اسے پورے اعتماد اور اختیار کے ساتھ یہ عمل جاری رکھنے دیں۔ بلاامتیاز ایکشن کے لیے اسے پولیس کی اندھی سپورٹ درکار ہو تو وہ بھی اسے مہیا کریں اور کسی کے سخت بیان کا برا مت مانیں۔ تھوڑی سی چالاکی سے بھی کام لے لیا کریں۔ پہلوان تو بہت داؤ پیچ جانتے ہیں۔ سیدھی دکھا کے الٹی مارتے ہیں۔ آپ سے ایک افسر نہیں بدلا جاسکا۔

ویسے ہی بدمزگی والا معاملہ تو بعد میں پیدا ہوا۔ اس سے پہلے والے پیار بھرے ڈوئٹ سن کے تو مجھے ایک اور طرح کا خطرہ محسوس ہورہا تھا۔ کراچی سے کوئی ایک تہائی ووٹ حاصل کرنے والی جماعت پی ٹی آئی اگرچہ اس جشن الفت سے دور تھی لیکن اس کے باوجود یوں لگ رہا تھا کہ اتنی دور سے آئی ہوئی مرکزی حکومت کے ساتھ کوئی ہاتھ ہوجائے گا۔ بہت سے لوگ جن سے اٹ کھڑکا متوقع تھا ان میں سے کوئی گلدستہ بنا ہوا تھا اور کوئی بغل میں گھسا جارہا تھا۔

تیمار دار سے یہ قرابت، خدایا خیر

طبیعت خراب ہے یا کہ نیت خراب ہے

بے روزگاری بہت بڑھی ہوئی ہے، بدامنی بھی اور اسٹریٹ کرائم بھی۔ مجھے یوں لگا کہ تھوڑی ہی دیر میں کوئی نہ کوئی حکومت کی جیب میں ہاتھ ڈال دے گا۔۔۔۔ اور وہاں تو کچھ بھی موجود ہوسکتا تھا۔ 46 کروڑ روپے کی دستی گھڑیاں بھی۔ بہرحال خیریت رہی اور بات باہمی تعاون سے آگے نہیں بڑھی۔

ادھر سنا ہے کہ اتنے اچھے موسم میں حکومت کے رینجری ایکشن نے کئی لوگوں کو بے آرام کردیا ہے۔ انھیں بھاری بھرکم اسلحے اور بارود سمیت ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل ہونا پڑ رہا ہے۔ ایکشن اگر غیر  علانیہ لوڈشیڈنگ کی طرح یوں ہی بغیر بتائے ہوتا رہا تو انھیں بہت سفر کرنا پڑے گا۔ کبھی ایک جگہ کبھی دوسری جگہ۔ پکڑے جانے کا ڈر الگ۔ ہاں البتہ وہ مزے میں ہیں جو ٹکٹ کٹا کے اڑ گئے اور اب دبئی کے شاپنگ مالز میں گھومتے ہیں۔ چلیں یوں ہی سہی۔ مجھے تو اس پر بھی اعتراض نہیں ہے۔ ایکشن خلوص نیت سے ہوگا اور مستقل ہوگا تو اس سرکتی ہوئی مخلوق کی کارروائیاں معطل ہوکر رہ جائیں گی۔ اس شہر کے پریشان حالوں کو اگر سکون کے دو دن بھی مل جاتے ہیں تو وہ جشن مناتے ہیں۔ دو مہینے، دو سال یا اس سے زیادہ وقت مل جائے تو وہ حکومت کا منہ چوم لیں گے۔

ایک بات کا سرسری سا ذکر خاکسار نے گزشتہ کالم میں کیا تھا۔ اب پھر عرض کیے دیتا ہوں۔ مرض کی حقیقت جاننے کے لیے اس پر اعتبار کرنا چاہیے جو سب سے پرانا مریض ہو اور سب سے بڑا ستم رسیدہ ہو۔ یہ کراچی کا صنعتکار اور بزنس مین ہے۔ وہ اگر بتانے پر آمادہ ہوجائے تو مرض کی تشخیص بھی درست ہوگی اور علاج بھی۔ حکومت انھیں اعتماد میں لے اور تحفظ کی یقین دہانی کے ساتھ بات کرے۔ بہت فائدہ ہوگا۔ اس کی ایک جھلک وزیراعظم کے ساتھ تاجروں کی ملاقات میں دیکھی بھی جاچکی ہے۔ اس میں حکومت کے چہرے پر خلوص دیکھ کر کچھ لوگ کھل کے بولے تھے۔ اس وقت وزیراعظم کے ساتھ گورنر اور وزیراعلیٰ بھی موجود تھے اور ایک تاجر نے وزیراعظم کو مخاطب کرکے کہا تھا ’’خرابی کی جڑ تو آپ کے دائیں اور بائیں طرف بیٹھی ہے۔‘‘

آخر میں جمہوریت کو میرا سلام کہ پانچ سال پورے ہونے پر اس نے اپنا انتقام لے لیا ہے۔ اب ہر سطح پر تبدیلیاں مکمل ہوجائیں گی۔ ویسے کہا جاتا ہے کہ حکمرانوں کو اور پیمپرز کو باقاعدگی سے بدلتے رہنا چاہیے۔۔۔۔ اور ان کے بدلنے کی وجہ ایک ہی ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔