یہ بھی مقتول ہیں

ثناء غوری  ہفتہ 7 ستمبر 2013
sana_ghori@live.com

[email protected]

اٹھارہواں سال۔۔۔ عمر کا یہ حصہ کیسا حسین ہوتا ہے اور زندگی کا یہ دور کتنا دلکش ہوتا ہے۔ ہاتھ خالی ہوں، مگر دل میں امید کِھلی رہتی ہے کہ ہتھیلی پر بس تتلی کے رنگ اترنے کو ہیں، چار سو اندھیرا پھیلا ہو، لیکن آنکھوں میں آرزوؤں کے دیے روشن رہتے ہیں، خواب پلکوں پر ڈیرے ڈالے رہتے ہیں۔ اٹھارہ سال کی وہ لڑکی بھی سپنوں، امیدوں، رنگوں اور خوشبوؤں کے اس دور سے گزر رہی تھی، اور پھر ایک رات سارے خوب اور امیدیں بس ایک روتی بلکتی آرزو میں ڈھل گئے ’’میں زندہ رہوں۔‘‘ آرزو مرگئی، آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہوئیں اور سپنے اندھیروں میں گُم ہوگئے۔

وہ سندھ میں ڈینگی بخار کے حالیہ حملے کی اب تک کم عمر ترین شکار ٹھہری۔ کراچی کے علاقے منگھوپیر سے تعلق رکھنے والی اس لڑکی سمیت اس سال صوبہ سندھ میں 10 افراد ڈینگی بخار کے ہاتھوں موت کے منہ میں جاچکے ہیں، جراثیم کش اسپرے وقت پر نہ ہونے کے باعث صوبے بھر میں ڈینگی وبائی صورت اختیار کرگیا ہے۔ جب کہ صوبے میں 985 افراد اس وبا سے متاثر ہیں۔ ڈینگی کے خونیں پنجوں کی گرفت میں جان دینے والے اور متاثرین میں سے زیادہ تر کا تعلق کراچی سے ہے۔ یومیہ 24 افراد تیز بخار اور ڈینگی بخار کے شبے میں شہر کے مختلف نجی و سرکاری اسپتالوں میں لائے جا رہے ہیں۔ ستمبر میں ڈینگی بخار کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد 79 ہوچکی ہے۔ روزانہ کی بنیادوں پر ڈینگی بخار کے بڑھتے ہوئے کیسز پر محکمہ صحت نے کراچی کے تمام ٹائونز کے ہیلتھ افسران کو ہدایات جاری کردی ہیں کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں جمع پانی کو نکالنے کے لیے اقدامات کریں جب کہ اسپرے مہم کو بھی تیزکرنے کا حکم  دیا گیا۔ اب نجانے یہ تیزی کب دکھائی دے گی۔ جی ہاں، صوبے کے سب سے بڑے اور ترقی یافتہ شہر کراچی کے شہری ڈینگی کی وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

کراچی کو ڈینگی سے پاک شہر بنانے کا دعویٰ کیا گیا تھا، مگر ہماری حکومتوں اور اداروں کے دعوے ریت پہ لکھی تحریر اور پانی پر بنائی لکیر کی طرح ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس دعوے کے مطابق کراچی کو ڈینگی سے پاک تو کیا کیا جاتا، اب یہ مرض پہلے کے مقابلے میں زیادہ شدت کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ گزشتہ سال ڈینگی بخار کے 700 کیسز سامنے آئے تھے۔ متاثرین میں سے ایک خاتون سمیت چار افراد زندگی کی بازی ہار گئے تھے، لیکن اس سال اگست تک، جب سال کے ختم ہونے میں چار ماہ باقی ہیں، آٹھ سو سے زیادہ افراد ڈینگی بخار میں مبتلا ہوچکے ہیں اور دس زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ وہ تھا دعویٰ، اور یہ ہے حقیقت۔

سندھ خاص طور پر کراچی میں صرف ڈینگی ہی کی وبا نے سر نہیں ابھارا ہے، صوبے کے باسیوں کی جان کا دشمن ایک اور مرض ڈائریا بھی پھوٹ پڑا ہے۔ صوبے میں ڈائریا کا مرض ڈینگی سے بھی کہیں زیادہ شدت کے ساتھ پھیلا ہے، خبروں کے مطابق یکم سے اکتیس اگست تک سندھ میں ڈائریا کے 54 ہزار 662 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں سے 9 ہزار 273 مریض مختلف اسپتالوں میں زیرعلاج ہیں یا رہے ہیں، جب کہ دو بدقسمت مریض جانبر نہ ہوسکے، جن میں سے ایک کا تعلق عمرکوٹ سے تھا اور دوسرا شکارپور کا رہائشی تھا۔

اس ضمن میں طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ میں مون سون بارشیں ہونے کے باعث ڈینگی وائرس اور ملیریا کے مرض کا سیزن شروع ہوچکا ہے، جو اگست سے دسمبر تک جاری رہتا ہے۔ کیا صوبائی محکمہ صحت کے حکام اس حقیقت سے واقف نہیں تھے کہ ان امراض اور دیگر وباؤں کی روک تھام کے لیے قبل از وقت اقدامات کرلیے جاتے؟ مگر یہاں تو حال یہ ہے کہ صوبائی دارالحکومت کراچی سمیت سندھ بھر کے ٹیچنگ اسپتالوں میں ’’آئسولیشن وارڈ‘‘ بھی نہیں قائم کیے جاسکے تھے، جہاں ان وبائی بیماریوں کے متاثرین کو دیگر مریضوں سے الگ رکھ کر ان کا علاج کیا جاتا۔

ہمارے ہاں ویسے ہی موت کے تمام اسباب مہیا ہیں، دہشت گرد معصوم لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں میں روزانہ کراچی کے کتنے ہی شہری اپنے خون میں نہا جاتے ہیں، فرقہ وارانہ قتل وغارت گری لاتعداد گھر اجاڑ چکی ہے، ڈاکو اور راہزن روز شہریوں کی جان سے کھیلتے ہیں، بھتہ خور گروہ اپنا مطالبہ پورا نہ ہونے پر جان لے لیتے ہیں۔ اس سب کے ساتھ تباہی مچاتا سیلاب اور قیامت ڈھاتی بارشیں بھی ہماری زندگیوں کو بے وقعت سمجھتے ہوئے اپنا نشانہ بنالیتی ہیں۔ شہری اس سب پر یہ سوچ کر صبر کرچکے ہیں کہ ہماری بے چاری معصوم حکومت اور پولیس کیا کرے کہ دہشت اور جرم کے ہاتھ حکومت کے فولادی اور قانون کے لمبے ہاتھوں سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں، اور پھر حکومت تو بارہا کہہ چکی ہے کہ کسی کو قانون شکنی کی اجازت نہیں دیں گے.

اب دہشت گرد، ٹارگٹ کلر اور دیگر جرائم پیشہ عناصر اجازت لیے بغیر قانون کی دھجیاں اور جسموں کے چیتھڑے اڑادے تو حکومت غریب کیا کرے، اسے علم ہی نہیں ہوتا کہ کب کوئی دہشت گردی یا قتل کی واردات ہونے والی ہے، مگر سیلاب اور بارشیں دہشت پھیلاتے اور انسانی خون سے ہاتھ رنگتے انسانوں کی طرح بے رحم نہیں، ان کی آمد کی خبر نہیں تو واضح امکان ضرور ہوتا ہے، لیکن ہمارے متعلقہ اداروں پر ’’جو رہی سو بے خبری رہی‘‘ کی کیفیت طاری رہتی ہے۔ اسے نرم سے نرم الفاظ میں صوبائی حکومت بالخصوص محمکہ صحت کی مجرمانہ غفلت ہی کا نام دیا جاسکتا ہے کہ بارش سے پہلے کراچی سمیت سندھ میں شہریوں کی جان ومال کی حفاظت کے مناسب انتظامات نہیں کیے گئے۔

جہاں تک کراچی کا تعلق ہے تو سندھ کی دو سب سے بڑی اور برسراقتدار رہنے والی جماعتوں کے درمیان بلدیاتی نظام سے متعلق تنازعے نے پورے صوبے کی طرح اس شہر کو بھی منتخب بلدیاتی قیادت سے محروم کررکھا ہے، جس کے باعث شہر بھر میں کوڑے کے ڈھیر لگے ہیں اور سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہور ہی ہیں۔ حال ہی میں ہونے والی بارشوں نے شہر کا جو حال کیا اس نے متعلقہ اداروں کی کارکردگی کا پول کھول دیا ہے۔ ڈینگی وائرس پھیلنے کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ کراچی سمیت صوبے میں جراثیم کش اسپرے نہیں کیا گیا، جس کے باعث یہ وبا پھوٹ پڑی۔

ڈینگی وائرس سے بیسیوں افراد کے متاثر اور دس قیمتی جانیں ضایع ہونے کے بعد صوبائی محکمہ صحت کو اس مرض سے متعلق آگاہی پھیلانے کا خیال آیا، تاہم یہ سلسلہ اب تک کام شروع نہیں کیا گیا ہے۔ محکمہ صحت کو اگر ہماری بات سے اختلاف ہے تو زیادہ دور نہیں اپنے آس پاس کے قریبی دوا خانوں کا ہی رخ کرکے دیکھ لیں۔ چھوٹے کلینک ہوں یا بڑے اسپتال مریضوں سے بھرے پڑے ہیں ۔  یہ بلدیاتی اداروں کی عدم کارکردگی اور صوبائی محکمہ صحت کی فرائض سے بے اعتنائی ہے کہ سندھ کے باسی ڈینگی اور ڈائریا کا شکار ہورہے ہیں۔ وائرل انفیکشنز پہ قابو پانے کے لیے عوام کو کسی قسم کی ویکسینیشنز سے متعارف تک نہیں کروایا گیا۔ وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومتیں، صحت کے متعلق ان کا رویہ بجٹ اور حکمت عملیوں سے ظاہر ہے۔ یہ یکم ستمبرکو محکمہ صحت کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا جس کے مطابق محکمہ کے افسران کو ہنگامی بنیادوں پہ کام کرنے کی تنبیہ کی گئی۔ فی الوقت پانی سر سے اونچا ہو چکا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ تمام اقدامات کے ساتھ ساتھ اشتہاری مہم کے ذریعے بھی عوام میںاس مرض سے آگاہی اور بچائو کے لیے شعور دیں اور فوری طور پر سرکاری اسپتالوں میں پلیٹ لیٹس کی مفت فراہمی کو ممکن بنائے ۔

بلدیاتی اداروں اور محکمہ صحت ناقص کارکردگی اور غفلت کے باعث ہونے والی ہلاکتیں شاید دہشت گردوں اور قاتلوں کے ہاتھوں جان سے جانے والوں کی اموات سے زیادہ مظلومانہ ہیں، کہ یہ وہ ’’قتل‘‘ ہیں جن کا مقدمہ کہیں درج نہیں ہوگا، جنھیں مقتول کہا اور سمجھا جائے گا اور نہ ہی کسی کے ہاتھوں اور دامن پر ان کے خون کے چھینٹے ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔