پاکستان کو درپیش مسائل

مجاہد حسین  ہفتہ 7 ستمبر 2013

پاکستان ابتدا سے ہی بحرانوں کا شکار ہے۔ بھارت نے پاکستان کے ساتھ شروع ہی سے تعلقات کی بنیاد دشمنی پر رکھی اور اس کے وجود کو قبول نہ کرتے ہوئے اپنی منتقامانہ کارروائیوں کا آغاز کرتے ہوئے قیام کے وقت ہی پاکستان کے حصے کی رقم روک لی۔ معاہدے کی رو سے کئی علاقے جن میں مسلم آبادی موجود تھی الحاق میں شامل نہ کیے گئے۔ لٹے پٹے قافلوں کی آبادکاری کے لیے پاکستان کو مالی وسائل کی اشد ضرورت تھی، کیونکہ یہ افراد اپنا تمام مال و اسباب ہندوستان میں چھوڑ کر آزاد سرزمین پر سکھ کا سانس لینے اور مذہبی آزادی کی خاطر آئے تھے اور کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کررہے تھے۔ کشمیر کا 67 فیصد حصہ بھی آزادی کا منتظر تھا جب کہ دوسری جانب ملک انتظامی مسائل کا شکار تھا۔ ایسے میں قائداعظمؒ بھی ساتھ چھوڑ گئے، جس کی وجہ سے ملک میں سوگ کا عالم بپا ہوگیا۔ ابھی نومولود وطن میں مکمل استحکام نہ آیا تھا کہ ملک دشمن قوتوں نے آن بسیرا کیا اور راولپنڈی میں خان لیاقت علی خان کو دہشت گردی کا نشانہ بنادیا گیا۔ بعد ازاں ہم نے دیکھا کہ انتہاپسندی و دہشت گردی نے یہاں اپنی جڑیں مضبوط کرنا شروع کردیں اور ملک میں جمہوریت اور امن و امان کے فروغ میں رکاوٹیں پیدا ہونے لگیں۔

آمریت یہاں کا خاصا بننے لگی۔  ملک میں حکمرانی کے لیے چار آمر آئے اور ان آمروں  کی تین دہائیوں کی حکمرانی نے ملک کو ایک جانب آدھا کردیا تو دوسری طرف انھوں نے ملک کی آزادی اور خودمختاری کو اس طرح بنایا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان امریکی کالونی نظر آنے لگا۔ بالخصوص ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے جمہوریت اور جمہوری اداروں پر شب خون مار کر ان کے پنپنے کے تمام راستے بند کر ڈالے۔ اس کے برعکس ہندوستان میں آزادی سے لے کر تاحال اسے پے در پے مقبول سیاسی و جمہوری رہنما ملتے رہے جس کی وجہ سے وہاں نہ صرف جمہوریت کا استحکام ہے بلکہ فوج کا نو آبادیاتی کردار بھی دب چکا ہے۔

ہم بلاشبہ ایک ایٹمی طاقت ہیں لیکن وطن عزیز میں تعلیمی پسماندگی عروج پر ہے۔ پرائمری سطح سے لے کر یونیورسٹی لیول تک نظام تعلیم بہت ابتر صورتحال سے دوچار ہے۔ تعلیمی اداروں کو کمائی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے اور سرکاری تعلیمی ادارے صرف ڈگریاں بانٹ رہے ہیں۔ علاوہ ازیں اسلامی جمہوریہ میں دہرا نظام تعلیم رائج ہے، امراء کے لیے الگ تعلیم کا نظام، جب کہ عام لوگوں کے لیے الگ سسٹم بنایا گیا ہے۔ قرآن اور اس کے قوانین پڑھنے والوں کو یا تو دہشت گرد اور انتہا پسند سمجھا جاتا ہے یا پھر کم عقل اور بے وقوف۔ جب کہ انٹرنیشنل چین سے جڑے لوگ قابل فہم اور اعلیٰ اوصاف کے مالک جانے جاتے ہیں، ان چینوں سے جڑے چین سے اور عام اسکولوں میں پڑھنے والے بے چین رہتے ہیں۔ اقتدار میں بھی یہی اعلیٰ اوصاف کے مالک لوگ آتے ہیں۔ ایوان اقتدار کو چلانے والے اداروں میں ان ہی افراد کا قبضہ ہے اور وطن عزیز بھی ان ہی کے ہاتھوں یر غمال بنا رہتا ہے۔

ہم نے آزادی اسلام کے نام پر حاصل کی لیکن ان دنوں صورتحال یہ ہے کہ نصاب تعلیم میں تبدیلی کی جارہی ہے، قرآنی آیات نکالی جارہی ہیں اور جہاد کو نصاب سے خارج کیا جارہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب اندلس میں مسلمانوں کو وہاں سے نکالنے کی سازش تیار کی جارہی تھی تو سب سے پہلے ان کی تعلیم اور کتب پر حملہ کیا گیا، بڑے بڑے تعلیمی ادارے قائم کیے گئے جس طرح ان دنوں ہمارے یہاں انٹرنیشنل ادارے ہیں، جس نے تعلیمی نظام کے گرد اپنی زنجیریں لپیٹ رکھی ہیں۔ تعلیمی اداروں میں ایسے نوجوان تیار کرکے معاشرے کو دیے جارہے ہیں جنھیں اپنی زندگی گزارنے کے بارے میں قطعی علم نہیں۔ بقول الٰہ آبادی انھیں دفتری بابو بننا ہے جو سارا دن بابو کے زعم میں غلامی کرنی ہے اور رات کو انٹر ٹینمنٹ کرکے سوجانا ہے۔ انھیں اس کی قطعی خبر نہیں کہ وہ اپنی توانائیاں کن مقاصد کے لیے صرف کررہے ہیں۔

ملک میں اگر بحرانوں کا ذکر کیا جائے تو توانائی کی قلت کے بحران نے شدت اختیار کر رکھی ہے۔ ضیاء الحق کے بعد اول تو جمہوریت کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی، دوم کسی بھی دور حکومت میں توانائی پالیسی پر عمل درآمد نہ کیا گیا۔ کالاباغ ڈیم ہر دور میں شجر ممنوعہ بنا رہا۔ حالانکہ محل وقوع اور دیگر قدرتی حالات کی وجہ سے یہ سب سے موزوں اور ملک کی ضروریات کے عین مطابق ہے۔ اس کے متنازع ہونے کی وجوہات بے شمار سہی لیکن بدقسمتی ہے کہ کوئی اور قابل قدر منصوبہ بھی سامنے نہ آیا۔ راجہ پرویز اشرف نے گزشتہ دور حکومت میں نہ صرف توانائی کا قلمدان سنبھالے رکھا بلکہ انھوں نے ملک کے وزیراعظم ہونے کا اعزاز بھی پایا لیکن انھوں نے بجائے ملکی بحران میں خاطر خواہ کمی کرنے کے ترکی سے بحری بیڑا نما بجلی گھر منگوا کر ملک کی معیشت کو غرق کرنے کی حتی الوسع کوشش کی۔

اس کے علاوہ اس دور کے بے شمار وزراء نے ملکی وسائل کو اپنی سہولت کے مطابق استعمال کیا۔ توانائی کے حوالے سے صورتحال اس قدر خراب ہوچکی ہے کہ گوجرانوالہ، فیصل آباد، ملتان، کراچی اور دیگر صنعتی شہر گیس اور بجلی کی عدم فراہمی کے باعث بند پڑے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں معاشی و اقتصادی بحران بڑھ رہا ہے اور ساتھ ساتھ بے روزگاری نے عوام کو جینے کے حق سے بھی محروم کردیا ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ سے شہری علاقے ہوں یا دیہات ہر جگہ زندگی کے معمولات متاثر ہیں۔ زراعت بھی اس کی وجہ سے تباہی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ٹیوب نہیں چل رہے۔ فصلوں اور باغات میں پانی کی عدم فراہمی سے زمیندار اور کاشتکار طبقہ فاقہ کشی کے حالات میں زندگی گزار رہا ہے۔

اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں معاشی عدم استحکام کی دوسری اہم وجہ مذہبی و لسانی انتہا پسندی اور دہشت گردی ہے۔ اس کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کار عدم تحفظ کی وجہ سے یہاں سرمایہ کاری سے گریز کررہے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ اور دیگر واقعات کی وجہ سے مقامی سرمایہ کار اور تاجر برادری اپنے سرمائے سمیت بنگلہ دیش جارہے ہیں۔

مذہبی مقامات ہوں یا سیکیورٹی فورسز کے اہلکار و ادارے، عام شہری ہوں یا سیاسی رہنما، الغرض تمام مکاتب فکر کے افراد دہشت و تشدد کے واقعات کی زد میں ہیں۔ عوام میں خوف و ہراس اور مایوسی نے جگہ بنالی ہے اور عدم تحفظ کے خدشات نے ان میں بسیرا کر رکھا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حالت ان دنوں اس قدر غیر محفوظ ہے کہ خود اسے سیکیورٹی کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ نو منتخب حکومت صرف دعوئوں کی حد تک اقدامات کے فیصلے کررہی ہیں۔ ملک کی اہم سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما ملک کی بہتری اور خوشحالی کے بجائے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے، الزامات و بہتان بازی کرنے اور بیخ کنی کے مواقع تلاش کررہے ہیں۔ جس سے نہ صرف عوام میں بے اطمینانی کی کیفیت کو فروغ مل رہا ہے بلکہ ملک اقوام عالم میں متنازع بن رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔