لوٹ مار کی بڑھتی ہوئی وارداتیں

نسیم انجم  ہفتہ 7 ستمبر 2013
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

موجودہ حالات کے پس منظر میں دیکھا جائے تو ہر شخص پریشان ہے۔ عافیت کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ایسے نازک ترین حالات پہلے کبھی دیکھنے اور سننے میں نہیں آئے۔ کم ازکم فورسز کے لوگ تو امان میں تھے اب تو پولیس، رینجرز اور فوجی جوان  بھی  ہر روز شہید کیے جاتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب علما کو ٹارگٹ کیا جاتا تھا، بڑے بڑے جید علما، دانشور دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے اور ان دنوں بھی امن نہیں ہے، اعلیٰ شخصیات کا قتل عام روز کا معمول بن گیا ہے، ڈاکٹر، سرجن، پروفیسر، پرنسپل حضرات کا خون ناحق بھی بہایا جارہا ہے، ہر روز 10 سے 16 افراد کو موت کے منہ میں دھکیل دیا جاتا ہے۔

بروز بدھ بھی رینجرز اہلکار اور نیوی کے کیپٹن سمیت 14 افراد شہید ہوئے۔ نہ عام لوگوں کو تحفظ حاصل ہے اور نہ خاص شخصیات کو، پچھلے دنوں شیخ رشید کی گاڑی پر بھی فائرنگ کی گئی، ان کی گاڑی بلٹ پروف تھی اس لیے بچت ہوگئی۔ یہ دشمن اتنی بڑی تعداد میں آخر آئے کہاں سے ہیں؟ کس نے انھیں بھیجا؟ جو پاکستان کی بقا کو فنا کرنے کے خواب کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ لیکن انشاء اﷲ ان کے یہ خواب کبھی ان کی پسندیدہ تعبیر میں بدل نہیں سکیں گے۔ اس کی وجہ فوج، پاکستانی عوام اور فورسز کے حوصلے جوان ہیں۔

وزیراعظم نواز شریف کی کراچی آمد اور کانفرنس کے حوالے سے حالات بدلنے اور تخریب کاروں سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی کی گئی ہے جب کہ شہر کے 8 علاقوں کا امن غارت ہوچکا ہے اور دوسرے علاقے اور وہاں کے مکین بھی خوف و ہراس میں مبتلا ہیں۔ خبر کے مطابق بدامنی کے شکار علاقوں میں سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگز، بھتہ خور، ڈرگ مافیا، لینڈ مافیا اور اغوا برائے تاوان کے ملزمان اور کالعدم انتہاپسند تنظیمیں سرگرم ہیں۔ لیاری میں 349 افراد آپس کی جنگ میں مارے گئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان علاقوں میں پولیس اور رینجرز نہیں جاسکتی ہے، یہ نو گو ایریاز کہلاتے ہیں۔

گویا وہاں کے رہنے والے مکمل طور پر دہشت گردوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ لیاری کے حالات تو اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ خواتین اسلحہ اٹھانے پر مجبور ہوگئی ہیں۔ صنف نازک پر یہ سب سے برا وقت ہے جب کہ ان کی نہ حفاظت ہے اور نہ حکومتی تعاون حاصل ہے، وہ بے چاری گھر اور بچوں کی ذمے داریاں اٹھانے کے ساتھ ساتھ وہ فرائض بھی انجام دے رہی ہیں جو قوم کے محافظوں کے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو مخالف جماعتیں ان کے گھروں میں گھس کر مالی و جانی نقصان پہنچاتی ہیں، اس طرح کے ماحول میں بچے تعلیم اور علاج و معالجے سے محروم ہیں۔ متاثرہ لوگوں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ اپنے ملک میں نہیں بلکہ کسی دوسرے ملک میں قید ہیں۔

محکمہ پولیس کا بھی شہریوں کے ساتھ ظالمانہ اور غیر منصفانہ سلوک ہے۔ ایک طرف ’’پولیس کا ہے فرض، مدد آپ کی‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں تو دوسری طرف اپنے فرائض سے غفلت برتتے ہیں، ان ہی کی لاپرواہی و سفاکی کے باعث بے شمار لوگ بے حد پریشان ہیں۔ یہ واقعہ بھی جوکہ ذیل میں درج ہے ان کی اپنے فرائض سے چشم پوشی کا منہ بولتا ثبوت ہے جب منگل کو بنارس کے پل پر موٹر سائیکل سواروں نے جامعہ کراچی کی بس لوٹ لی۔ طلبا اس بات کے چشم دید گواہ ہیں کہ وقوعے کے وقت پولیس پل کے نیچے ناشتہ کرنے میں مصروف تھی۔ ذمے داری اور فرائض کا یہ عالم کہ پولیس اہلکاروں کو اس بات کا پتہ ہی نہیں چل سکا کہ پل کے اوپر ڈاکوؤں کے گروہ نے طلبا سے موبائل فون، نقدی اور دیگر سامان لوٹ لیا، لوٹ مار کے دوران وطن عزیز کے سپوتوں نے طالبات سے بدتہذیبی کا بھی مظاہرہ کیا۔

طلبا کے بقول پولیس نے بس کو کھڑے بھی دیکھا لیکن مجال ہے جو انھوں نے اس نیک کام کے کرنے میں مداخلت کی ہو۔ وہ بھوکے شکم کو ہی بھرنے میں لگے رہے۔ اس واقعے کے بعد جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد قیصر نے گہری تشویش کا اظہار کیا اور اس بات کا بھی اعلان کیا کہ لٹنے والے طلبا کی فیس یونیورسٹی جمع کرائے گی۔ یہ اچھی بات ہے کہ وائس چانسلر نے طلبا کے غم میں فیس کا اعلان کرکے شریک ہونے کی کوشش کی۔ قائداعظم نے طلبا کے لیے کہا تھا کہ ’’پاکستان کے حصول میں طلبا کا بڑا حصہ ہے اور پاکستان میں ہمیں طلبا کی فلاح و بہبود کی جانب خصوصی توجہ مبذول کرنی چاہیے، میں نے پاکستان آپ طلبا کے لیے حاصل کیا ہے، میری زندگی کا آفتاب تو لب بام ہے، میں چاہتا ہوں کہ طلبا آزاد سرزمین میں زندگی بسر کریں اور اپنی تخلیقی اور تعمیری قوتوں کو بروئے کار لائیں۔‘‘

دکھ کی بات یہ ہے کہ قائد کی خواہش اور اقوال کا کسی کو پاس نہیں۔ آج طلبا کے لیے زمین تنگ کردی ہے اور انھیں پڑھائی سے متنفر کرکے ان کے مستقبل کو تاریک کردیا گیا ہے اور جن کی پڑھائی جاری ہے انھیں لوٹ مار کے ذریعے ہراساں کیا جاتا ہے۔ گمراہ کرنے کے لیے ان کی راہوں میں کانٹے بچھا دیے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں جہاں ہر روز قتل و غارت جاری رہتا ہے وہاں اسی ملک میں ہزاروں نہیں لاکھوں طلبا شب و روز اعلیٰ تعلیم کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ بے شمار طلبا کے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی کہ وہ اپنی پڑھائی کو جاری رکھ سکیں، اس صورت میں وہ محنت مزدوری کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں، ٹیوشن پڑھاتے ہیں اور دفاتر و کارخانوں میں کام کرتے ہیں، اپنے گھر والوں کی بھی کفالت کرتے ہیں اور تعلیمی اخراجات بھی اپنی محنت کی رقم سے پورے کرتے ہیں۔

دراصل پاکستان کی تعمیروترقی کے لیے یہ محب وطن طلبا اپنی زندگیوں کا لمحہ لمحہ وقف کردیتے ہیں، جن مراحل سے وہ گزرتے ہیں اس تکلیف کے احساس سے وہ اچھی طرح واقف ہوتے ہیں اسی لیے وہ ایسے تعلیمی ادارے قائم کرتے ہیں جہاں وہ بچے تعلیم حاصل کرسکیں جن کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے اور وہ اپنی پڑھائی کے اخراجات برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ لیکن یہ پاکستان اور پاکستانیوں کی بدنصیبی ہے کہ اچھے اور قابل قدر لوگوں کی عزت و توقیر نہیں کی جاتی بلکہ تخریب کار پاکستان میں انتشار پھیلانے کے لیے انھیں جان سے مار دیتے ہیں۔ اگر پولیس ڈپارٹمنٹ اور رینجرز کا ادارہ قاتلوں کو گرفتار کرکے سزا دے اور لوگوں کو ان کا اصل چہرہ دکھائے تو جرائم کم ہوسکتے ہیں، لیکن ان سب کی کیا مجبوری ہے کہ جرائم پیشہ افراد پر ہاتھ نہیں ڈالتے ہیں؟ بلکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ تماشائی کا کردار بخوبی انجام دیتے ہیں۔

وزیراعظم کی کراچی آمد اور کانفرنس کے حوالے سے کچھ مثبت تبدیلیوں کی بھی امید نظر آتی ہے، شاید منتظمین کراچی کچھ کام کر دکھائیں، لیکن عملی طور پر جو صورت حال سامنے آئی ہے اسے دیکھ کر مایوسی مزید بڑھ گئی ہے۔ معمول کے مطابق لوگ مرتے رہے اور جنازے اٹھتے رہے جب کہ پولیس اور رینجرز کی کارروائیوں کے سبب بہت سے ملزمان گرفتار بھی کرلیے جاتے ہیں اور آج کل بھی نئی منصوبہ بندی کے تحت جرائم پیشہ افراد پکڑے جارہے ہیں۔ غیرقانونی تارکین وطن کو بھی جیل بھیجنے کے احکامات صادر کردیے گئے ہیں۔ اس پکڑ دھکڑ میں پولیس نے یہ بھی کمال دکھایا کہ بے چارے پاکستانیوں کو ہی دھر لیا، لیکن فاضل عدالتوں نے پولیس کو لعن طعن کیا تب وہ بے چارے بے قصور پاکستانی رہا ہوسکے۔ بغیر ثبوت کے شہریوں کو ہراساں کرنا پولیس کا مشغلہ بن چکا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔