احتساب کا ڈرامہ اور مہنگائی

یونس مسعود  جمعـء 28 جون 2019
عوام پر مزید ٹیکس لگا کر پہلے سے زیادہ مہنگائی کردی جاتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

عوام پر مزید ٹیکس لگا کر پہلے سے زیادہ مہنگائی کردی جاتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے حکومت سرکاری خزانے کو خالی قرار دے کر اس کا ذمے دار سابقہ حکومت کو قرار دیتی چلی آرہی ہے۔ یہ رونا بھی ہر دفعہ رویا جاتا ہے کہ ملکی معیشت کی تباہی کے ذمے دار پچھلے دور حکومت میں لیے گئے غیر ملکی قرضے ہیں۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ کہہ کر پچھلی حکومت سے زیادہ قرضہ بھی لے لیا جاتا ہے۔

جب سے قومی احتساب بیورو (نیب) کا قیام عمل میں آیا ہے، تب سے یہ ادارہ پچھلی حکومت کے سینئر وزرا پر کرپشن کے الزامات لگاکر ان پر مختلف مقدمات بناتا ہے اور بعض اوقات گرفتار بھی کرتا ہے۔ اگر اسے عوامی دباؤ کچھ زیادہ محسوس ہو تو تھوڑی سی مدت کےلیے جیل بھی بھجوا دیتا ہے، جس سے عوام خوشی کے شادیانے بجانے لگتے ہیں۔ حالانکہ جیل میں ایسے بڑے سیاست دانوں کو نوکر چاکر، میڈیا، گھر کا کھانا، ہمہ وقت متوجہ ڈاکٹر، بیڈ، صوفے، اے سی کی یخ بستہ ہوائیں اور وہ تمام سہولیات دی جاتی ہیں، جن کا عام پاکستانی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ جب یہ جیل کی لانڈری سے پاک و صاف ہوکر آتے ہیں تو یہ کہہ کر پاکستانیوں پر اپنا احسان جتلاتے ہیں کہ ہم نے جمہوریت کی خاطر جیلیں کاٹی ہیں۔

نیب کی چار بڑی خوبیاں ہیں۔ ایک یہ کہ اسے ہمیشہ اپوزیشن اراکین کی کرپشن نظر آتی ہے، حکومتی اراکین کی نہیں۔ دوسری یہ کہ یہ کسی بھی بڑے کیس کو منطقی انجام تک نہیں پہنچاتا۔ تیسری یہ کہ یہ ہمیشہ کرپشن کا پیسہ چھوٹی چھوٹی مچھلیوں سے برآمد کراتا ہے، بڑے مگرمچھوں سے نہیں۔ چوتھی یہ کہ یہ ان دنوں میں زیادہ فعال کردار ادا کرتا ہے جب حکومت پر کوئی نہ کوئی مشکل وقت آتا ہے۔ جس کی بڑی مثال حالیہ بجٹ سے پہلے کی گرفتاریاں ہیں۔

ہمارے معاشی ماہرین کو قرض اتارنے اور ملک چلانے کےلیے صرف ایک ہی طریقہ آتا ہے، پچھلی حکومت کے آئی ایم ایف سے لیے گئے قرضوں کی بھرپور مذمت کرو۔ خود ان سے زیادہ قرضہ لو اور غریب عوام پر مزید ٹیکس لگا کر پہلے سے زیادہ مہنگائی کردو۔ سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب کوئی مصنوعات تیار کرنے والی کمپنی سے حکومت مزید ٹیکس مانگتی ہے تو وہ اپنی مصنوعات کو اور زیادہ مہنگا بیچ کر سارا ٹیکس دوبارہ عوام سے وصول کرتی ہے، خود اپنے منافع سے ایک روپیہ بھی ٹیکس نہیں دیتی، بلکہ جب کبھی حکومت مزید ٹیکس کا مطالبہ کرے تو اشیائے ضرورت کو حد سے زیادہ مہنگا کرکے اپنے سارے خسارے بھی بے چارے غریب عوام سے پورے کیے جاتے ہیں۔

ملکی قرضہ اتارنے کے نام پر غریب عوام پر مہنگائی کے بم گرا کر کہا جاتا ہے کہ آپ صبر کریں اور خوش ہوں کہ ملک کا قرض اتارا جارہا ہے۔ یعنی عوام پہلے کرپٹ سیاستدانوں کے پیشہ لوٹنے پر صبر کرے، پھر اس بات پر دوبارہ صبر کرے کہ سارا خسارا لٹیروں کے بجائے ان سے نکلوایا جائے۔ کیا کرپشن کا پیسہ کسی صورت میں واپس نہیں لایا جاسکتا؟ کیا وسائل سے مالا مال ایٹمی توانائی کے حامل ملک کے عوام ہر حکومت کے دور میں احتسابی ڈرامے کے نشے سے مدہوش ہوکر نئے ٹیکس اور مہنگائی کا طوفان برداشت کریں گے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

یونس مسعود

یونس مسعود

مصنف انگریزی زبان کے لیکچرار ہیں اور انہوں نے انگریزی لسانیات میں ایم فل کیا ہوا ہے۔ مختلف جرائد کے لیے سماجی و مذہبی موضوعات پر قلم کاری کرتے رہے ہیں اور اب اپنی صلاحیتوں کا رُخ بلاگنگ کی سمت کرنے میں مصروف ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔