استاد اسماعیل قلندر

 محمد اکرم قلندری  اتوار 30 جون 2019
اُن کے لکھے گیتوں کے بول آج بھی دلوں میں سمائے ہیں

اُن کے لکھے گیتوں کے بول آج بھی دلوں میں سمائے ہیں

پنجاب کی سرسبز و شاداب دھرتی نے ایسے بے شمار انسانوں کو جنم دیا جنہوں نے اپنی فطری صلاحیتوں کے ذریعے ایسے ایسے تاریخی کارنامے سرانجام دیئے کہ تاریخ نے ان کے نام ا ور کام کو اپنی پیشانی کا جھومر بنا لیا ۔ انہی میں سے ایک شخصیت پنجابی کے معروف شاعر استاد اسماعیل قلندرکی تھی جنہوں نے تقریباََساٹھ سال تک ادب کی خدمت کی۔ انہوں نے غزلوں، نظموں اور گیتوں میں طبع آزمائی کی لیکن داستان گوئی میں انہیں ایک خاص مقام حاصل تھا۔

اسماعیل قلندر15 اکتوبر 1928کو موضع ماہنے ملہیاں تحصیل ترن تارن ضلع امرتسر (بھارتی پنجاب) میں میاں نواب دین کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محنت مزدوری کرتے تھے۔ 1941ء میں آپ کے والد ساری فیملی کو لاہور لے آئے اور دالگراں چوک میں شیر محمد کے کارخانے میں رہائش اختیار کر لی۔ آپ کے والد آپ کو سکندر آئرن ورکس میں ڈھلائی کا کام سیکھنے کے لئے چھوڑ آئے۔ یہاں ایک سال کام کرنے کے بعد آپ سروپ لال کے کارخانے میں بارہ آنے روز پر ملازم ہوگئے۔ اسی دوران آپ نے شاعری کا آغاز کیا۔ اسی کارخانہ میں ایک بزرگ ملازم کی زبانی محمد بوٹا گجراتی کی لکھی ہوئی سی حرفی کے چند شعر سنے اور بہت متاثر ہوئے۔

پھر سی حرفی خرید کر پوری زبانی یادکر لی۔ آپ اس سی حرفی کو اک تارا کنگ کے ساتھ ترنم سے گایا کرتے تھے پھر شعر گاتے گاتے خود بھی شعر کہنے کا شوق پیدا ہوگیا ۔1944 ء میں تحریک پاکستان عروج پر تھی ۔ استاد اسماعیل قلندر نے مسلم لیگ کے جلسے جلوسوں میں بھرپور حصہ لیا۔ آپ نواں کوٹ لاہور کی رضا کار تنظیم کے سیکشن کمانڈر بھی رہے۔ استاد اسماعیل نوجوانی میں پہلوانی بھی کرتے رہے۔ فن پہلوانی میں آپ نے کافی عبورحاصل کیا۔ کشتی اور کبڈی کے داؤپیچ خوب جانتے تھے، یہی وجہ تھی کہ آپ نے کشتیوں کے کئی مقابلے بھی جیتے۔ آپ اس وقت کے کبڈی کے بہترین کھلاڑیوں میں شمار ہوتے تھے۔1945ء کے شروع میں آپ نے چوک دالگراںلاہور رام گلی نمبر 6میں کانسی رام ہندو سے کرایہ پر ایک پلاٹ لیا اور ’’ایم اسماعیل برادرز‘‘ کے نام سے ڈھلائی کے کارخانے کی بنیاد رکھی ۔آپ یہاں خراد، چھپر، ورما اور دوسرے مختلف پرزے ڈھالنے کے ساتھ ساتھ شعروں کو بھی فکرو فن کے سانچے میں ڈھالتے رہے۔

آپ کے کارخانے کے اوپر ایک دفتر نما کمرہ تھا، آپ نے زیادہ تر کتابیں یہیں بیٹھ کر تحریر کیں۔ استاد اسماعیل قلندر نے اگرچہ گھر پر ہی معمولی تعلیم پائی تھی لیکن عطائے خداوندی اپنی جگہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علم و ادب سے بھرپور شاعری آہستہ آہستہ آپ کے اندر سے پھوٹنے لگی اور پھر ادب کی دنیا میں ایک نئی شخصیت اسماعیل قلندر کے نام سے ابھری جس نے شاعری کی راہ پر چل کر عوامی شاعری کو سینے سے لگا لیا۔ وہ روایت کا رسیا اور پرستار بن کر آگے بڑھا اور بڑی سادگی کے ساتھ جذبات نگاری اور لوگوں کے دکھ سکھ کی ترجمانی کی۔ آخر ادب کی دنیا میں ہر کسی نے استاد کے فن کا لوہا مانا اور ان کے دل میں اتر جانے والے پردرد گیتوں کے بول روحوں میں سما گئے۔

’’من میتھوں نہیوں من دا رباساڈا ماہی میل دے

دل پچھداحال سجن دا ربا ساڈا ماہی میل دے ‘‘

استاد اسماعیل قلندر لو ک گیتوں کے بادشاہ تھے، آپ حسن و عشق سے لبریز جذبات کی ترجمانی کے لئے عام سے الفاظ اس خوش اسلوبی سے استعمال کرتے تھے کہ سننے والا بے ساختہ داد دے اٹھتا، ان کے تخلیق کردہ مشہور زمانہ گانے کے بول کچھ یوں ہیں۔

گوریئے میں جانا پردیس  میں جانا تیرے نال

تیرے باہجھوں سجناں دل نہیوں لگناں

اساں تینوں لبھناں تے توں نئیں سانوں لبھناں

گوریئے میں جانا پردیس  میں جانا تیرے نال

ذرا دیکھیں استاد قلندر نے اپنے ایک گیت میں انتظار کے مضمون کو کس طرح خوبصورت انداز میں قلمبند کیا۔

تاہنگاں والے نین کدوں سکھ نال سون گے

سکھ ساڈے لٹے جنہاں پھیرے کدوں پون گے

سدھراں دے مان ٹٹے نین رت رووندے

پلکاں تے ہنجوآکے پل نئیں کھلووندے

اک دن ویکھناں ایہہ جھڑیاں وی لون گے

اسماعیل قلندر نے نہ صرف عوامی اور لوک گیت تخلیق کیے بلکہ قومی گیتوں میں بھی بڑا نام پایا۔ نہایت سادگی، اثر آفرینی اور ہلکے پھلکے انداز میں اہل وطن کو جہد مسلسل اور غور و فکر کا درس دیا۔

وسدیاں رہن وطن دیاں جھوکاں رہن سلامت تھاواں

دونیاں ہوکے رحمتاں وسن منگو سب دعاواں

راوی تیرے کنڈیاں تے روپ نت وس دا

لہراں پئیاں گاؤندیاں تے بوٹا بوٹا ہس دا

یہ تھی عوامی شاعر اسماعیل قلندر کی ثقافتی، معاشرتی اور قومی شاعری کی ہلکی سی جھلک جو میں نے چند الفاظ کے ذریعے آپ کو دکھائی۔ اب ان کی تصانیف کا ذکر کرتے ہیں۔

استاد اسماعیل قلندر کی سب سے پہلی کتاب ’’اوکھے پینڈے ‘‘ 1961ء میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے منصور تے ابلیس ، پورن بھگت ، ٹھنڈے ہوکے ، سسی شہر بھنبھوردی ، وادی حکمت، بلخ دا سوداگر(سوہنی مہینوال کی داستان محبت)، اچیاں لغراں، روپ کلی، شائع ہوئیں۔ آخر میں کتاب ’’سوہنی رت پنجاب دی‘‘ پیش کرکے آپ نے پنجابی ادب میں گرانقدر اضافہ کیا۔ استاد اسماعیل قلندر کی کچھ تصانیف جن میں ’’پریم ہواواں ، سخن قلندر اور حیات ابھی زیر اشاعت ہیں۔

میں یہاں استاد اسماعیل قلندر کے چند دوستوں کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جن کے ساتھ آپ نے ایک عرصہ گزارا، ان میں حفیظ جالندھری، دائم اقبال دائم، اسماعیل متوالا، منطورجھلا، ڈاکٹررشید انور، سید رشیدحبیبی، چودھری نظام دین، عبداللطیف مسافر، خان مستانہ، یوسف موج اور پیر فضل گجراتی کے نام قابل ذکر ہیں ۔ ان کے علاوہ راجہ رسالو، شہباز ملک، طالب چشتی، سبط الحسن ضیغم، اسلام شاہ، شفقت تنویر مرزا، اعظم خان، استاد تصدق علی خان، حفیظ تائب، محمد علی ظہوری اور دیوانہ نظامی کے ساتھ ان کے دوستانہ مراسم رہے۔ اتفاق فونڈری ورکس کے چیئرمین میاں محمد شریف کے بچپن کے دوست تھے۔ 1939کے اوائل میں ا چھرہ رام کے کارخانے میں کچھ عرصہ اکٹھے ڈھلائی کا کام کرتے رہے ۔ پاکستان بن جانے کے بعد بھی ان کا آپس میں میل جول اور مثالی دوستانہ رہا۔

استاد اسماعیل قلندر کی اولاد میں ایک صاحبزادہ قمرالزمان اور پانچ صاحبزادیاں شامل ہیں۔استاد ایک عبادت گزار مسلمان اور انتہائی سادہ، درویش صفت، خوش اخلاق اور قلندرانہ مزاج کے انسان تھے۔ لباس میں شلوار قمیض اور کالی شیروانی پہنتے۔ بوسکی کا کرتہ اور ملتانی سبز پٹی والا لاچا اور سفید تلے دار قصوری کھسہ شوق سے پہنتے تھے ۔ استاد اسماعیل قلندر پنجابی کے قادر الکلام شاعر تھے۔ آپ معروف شاعر حکیم شیر محمد ناصر کے شاگرد رشید تھے۔

استاد اسماعیل قلندر پنجابی ادب کا ایک عظیم خزانہ تھے، حقیقت تو یہ ہے کہ وہ ایک مکمل ادبی اور تاریخی دستاویز تھے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیںکہ آپ کی عظمت اور رفعت کو دنیا نے ہمیشہ تسلیم کیا اور ہمیشہ یاد رکھے گی۔ شاعری کا یہ روشن چاند یکم مارچ 2009 کی صبح چار بجے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔