بُک شیلف

رضوان طاہر مبین  اتوار 30 جون 2019
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو: فائل

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں آزادی صحافت پر ایک اہم مقالہ


’’آزادی صحافت کی جدوجہد میں اخباری تنظیموں کا کردار‘‘ ڈاکٹر توصیف احمد خان کے پی ایچ ڈی کے مقالے کی کتابی صورت ہے۔۔۔ اس کے آٹھ میں سے چار ابواب تو چار اخباری تنظیموں ’اے پی این ایس‘ (آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی)، سی پی این ای (کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز)، ’پی ایف یو جے‘ (پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس) اور ’ایپنک‘ (آل پاکستان نیوز پیپز ایمپلائز کنفیڈریشن) پر باندھے گئے ہیں، جب کہ دیگر چار ابواب میں برصغیر میں اخبارات کا ارتقا، پابندیاں، قوانین اور صحافتی آزادی سلب کرنے کے طریقوں کا ذکر وغیرہ ہے۔ 468 صفحاتی کتاب کی ورق گرداری کیجیے، تو ان گنت تاریخی واقعات اور حادثات پر پڑی گرد صاف ہوتی ہے۔۔۔

آج کی ’نرم خو‘ جماعتوں کے سخت ’کارنامے‘ سامنے آتے ہیں، کیسے کیسے جمہوریت پسند اور مہذب حلقوں کی جانب سے کڑوی سچائیوں پر شدید ردعمل سامنے آتے ہیں۔ ساتھ ہی ہر تنظیم کا صحافتی پابندیوں کے حوالے سے طرزعمل الگ الگ ابواب میں مذکور کیا گیا ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ آزادی صحافت کے کسی بھی مسئلے پر کس اخباری تنظیم نے کیا موقف اپنایا یا کس قسم کی مزاحمت اختیار کی، جس کی بنا پر پاکستانی تاریخ میں آزادی صحافت کے حوالے سے یہ کتاب ایک بنیادی دستاویز کے طور پر رکھی جا سکتی ہے۔ ہمارے خیال میں اس کتاب سے آزادی صحافت کے کسی بھی محقق کے لیے صرف نظر کرنا ممکن نہیں۔ ڈاکٹر مبارک علی کے بقول یہ تصنیف آزادی صحافت سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے سوچ اور فکر کا مواد فراہم کرے گی۔ ’بدلتی دنیا پبلی کیشنز‘ کے تحت شایع ہونے والی اس کتاب کی قیمت 1200 روپے ہے۔

۔۔۔
’عہد گُم گشتہ‘ کی خبر دیتی کتاب


’زندہ کتابیں‘ کے روح و رواں راشد اشرف نے ایک جلد میں اخلاق احمد دہلوی کی دو کتابیں ’اور پھر بیاں اپنا‘ اور ’میرا بیان‘ یک جا کی ہیں، تیسری کتاب دراصل ’پھر وہی بیاں اپنا‘ ہے، دراصل ’اور پھر بیاں اپنا‘ ہی کی اضافہ شدہ شکل ہے۔ اخلاق دہلوی اس میں جہاں میرا جی کا خاکہ کھینچتے ہیں، وہیں ریڈیو کے ’انائونسر‘ پر خاکہ بھی چھے صفحات تک دراز کر دیا ہے، جس سے ان کے عمیق مشاہدے کا پتا چلتا ہے۔

عنوان ’شاہد لطیف کی شادی‘ میں ان کی عصمت چغتائی سے شادی اور تعلقات کے حوالے سے خط وکتابت بھی شامل کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ عصمت چغتائی، اسرار الحق مجاز، شاہد احمد دہلوی، مولوی عبدالحق، اشرف صبوحی، خواجہ حسن نظامی، حکیم اجمل خان اور دیگر کے خاکے بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ عہد گُم گشتہ کے بے شمار نقوش سمیٹے کچھ اور رشحات قلم بھی ہیں، جن میں ’تین خواتین‘ کے عنوان سے بہادر شاہ ظفر کی پوتی اور مولانا مودودی کی والدہ کا ذکر بے حد دل چسپ ہے۔ سچ پوچھیے تو اس کتاب کی ورق گردانی کر کے آج کے دور کی پس ماندگی اور زوال کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بھی کیا زمانہ تھا کہ بہ یک وقت کتنے بڑے بڑے مشاہیر علم یک جا تھے، آج دیکھیے تو زوال آمادگی کا کوئی انت ہی دکھائی نہیں دیتا۔ ڈاکٹر پرویز حیدر لکھتے ہیں ’’دلی کی ٹکسالی زبان کے بارے میں سنا تھا اور چند کتابوں میں پڑھا بھی تھا مگر ان تحریروں میں تو میں نے اس کا بے حد لطف لیا۔‘‘ کتاب کے ناشر فضلی سنز اور قیمت 500 روپے ہے۔

۔۔۔
’خاندانیات‘ پر ایک دل چسپ مجموعہ


’پاکستان اسٹڈی سینٹر‘ (جامعہ کراچی) کے تحت شایع ہونے والی کتاب ’’پاکستانی خاندان اور عورت، پرورش، پابندی، خودمختاری‘‘ شائستہ سعید کے مختلف جرائد میں شایع ہونے والے مضامین کا مجموعہ ہے۔۔۔ یوں دیکھیے تو اس کتاب میں موضوعات کچھ عام سے محسوس ہوتے ہیں، لیکن اس کا ہر مضمون انداز بیان سے لے کر مندرجات تک بے حد جان دار اور نیا ہے۔ عورت اور خاندان سے جُڑے بہت سے اہم مسائل پر مشاہدے اور تجربے کے ساتھ تحقیق، اعدادوشمار اور ماہرین کی آرا اس کتاب کا ایک اہم وصف ہے۔ کتاب کے شروع سے لے کر آخر تک مافی الضمیر کو نہایت مختصر اور مدلل انداز میں اس طرح سمیٹا گیا ہے کہ کسی بھی مرحلے پر قاری بوجھل نہیں ہو پاتا، اور یہ سارے ہنر کیوں نہ ہوں کہ مصنفہ کے والد نام وَر مدیر سید محمد تقی تھے۔ ان کے علمی خانوادے کا اثر اِن تحریروں میں بھی واضح دکھائی دیتا ہے۔

وہ اس سے قبل ایک کتاب ’دونسلوں کی مائیں‘ بھی تصنیف کر چکی ہیں۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی کے بقول شائستہ سعید نے اچھے خاندان کے لیے ہر پہلو کی نشان دہی کی ہے، وہ لکھتے ہیں ’’شائستہ سعید نے بچوں کے لکھنے پڑھنے کے بعد ان کی مفید مصروفیات، جن میں روزگار بھی شامل ہے، کی طرف بھی توجہ کی ہے اور میں حیران ہوں کہ شاید ہی کوئی ایسا پہلو ہو جو ان کی توجہ سے بچا ہو۔‘‘ 186صفحات کی مجلد کتاب کے پہلے حصے میں 23 مضامین جس میں خاندان اور گھر کے ماحول کے حوالے سے مسائل کا ذکر ہے، دوسرے حصے کے 10 مضامین میں عورت اور معاشرت، جب کہ تیسرے حصے میں خواتین سے متعلق آٹھ سچی کہانیاں جمع کی گئی ہیں، کتاب 500 روپے کی ہے۔

۔۔۔
’عقیدت نگری‘ کا ایک ’احوال نامہ‘


’’روح پرور سفر‘‘ حاجی فقیر محمد سومرو کے سفر مقدس کا عقیدت بھرا بیان ہے، جس میں وہ قارئین کو اپنے پُرنور سفر کا احوال سناتے ہیں۔۔۔ دیگر سفرناموں کے برعکس اس میں ذاتی اظہار کے بہ جائے سفری معلومات زیادہ ہے۔ اس کتاب میں مختلف جگہوں اور زیارتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے سفرنامہ نگار نے بہت سی دعائوں کو بھی مع ترجمہ نقل کیا ہے۔ پورے سفرنامے میں سعودی عرب کے جملہ مقدس مقامات، علامات اور وادیوں کا نہ صرف احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، بلکہ ان کے ضروری پس منظر، تاریخ اور فضیلت سے آگاہی، وہاں کی مساجد اور دیگر مقدس مقامات کی تعمیرات وتوسیع کے حوالے سے بھی اہم معلومات کا اہتمام کیا گیا ہے۔ مقامات مقدسہ اور سفر حج سے متعلق با حوالہ معلومات اس کتاب کا خاصہ ہے۔ رنگین اور سیاہ سفید تصاویر سے مزین 192 صفحات کی مجلد کتاب 189 چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کی گئی ہے۔

ایوان اقتدار سے ایک گواہی۔۔۔!


یوں تو ہمارے ہاں سرکاری ملازمین کا یادداشتیں لکھنے کا سلسلہ کوئی نیا نہیں، لیکن ’گورنر جنرل ہائوس سے آرمی ہائوس تک‘‘ از فخر عالم زبیری اس اعتبار سے ایک منفرد تصنیف ہے کہ 120 صفحات کی اس مختصر سی کتاب میں قائداعظم محمد علی جناح تا جنرل ضیا الحق، ایوان اقتدار کی اہم شخصیات سے متعلق اظہار خیال کیا گیا ہے۔ مصنف نے 1941ء میں سرکاری ملازمت اختیار کی اور پاکستان بننے کے بعد سے جنرل ضیاء الحق تک کے ادوار کو نہایت قریب سے دیکھا اور اس زمانے کی دل چسپ یادیں سپرد قلم کر دیں۔ اس کتاب میں مختلف سربراہان مملکت کے حوالے سے باقاعدہ سرخی لگا کر ان کے کارناموں اور کاموں کو رقم کیا گیا ہے۔ جہاں جہاں ضرورت محسوس ہوئی، وہاں تاریخی حوالوں پر بھی اپنی رائے دے کر تاریخ پاکستان کے محققین کو گویا معاونت فراہم کی گئی ہے۔ معروف سلسلے ’زندہ کتابیں‘ کے تحت اس کتاب کی اشاعت کا اہتمام کرنے والے راشد اشرف کے بقول پہلی بار یہ کتاب 1993ء میں محدود پیمانے پر شایع ہوئی، جس بنا پر زیادہ لوگوں تک نہ پہنچ سکی تھی، لہٰذا دوبارہ شایع کی گئی ہے، کتاب مجلد ہے اور اس کے ناشر ’فضلی بک سپر مارکیٹ‘ اور قیمت 300 روپے ہے۔

۔۔۔
حیدرآباد، دکن میں گزری ایک بپتا


’مشاہدات‘ نواب ہوش یار جنگ بہادر المعروف ’ہوش بلگرامی‘ کی آپ بیتی، ہے۔ یہ خودنوشت کیا ہے، حیدرآباد، دکن کے سقوط کا المیہ سموئی ہوئی ایک اہم دستاویز ہے، جو 1955ء میں حیدرآباد، دکن سے شایع ہو چکی۔ اب راشد اشرف نے ’زندہ کتابیں‘ کے تحت اسے ’بزم تخلیق ادب‘ سے شایع کیا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ تب اس کتاب کی اشاعت پر ہنگامہ کھڑا ہو گیا تھا، اور اسی دبائو میں مصنف کو دل کا دورہ پڑا اور وہ اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔

اس کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کی آنکھوں نے جو نشیب وفراز وہاں دیکھے تھے۔ پچھلی غلطیوں سے لے کر آنے والے دنوں کی منظر کشی تک انہوں نے سپرد قرطاس کرنے کی پوری کوشش کی ہے اور بعض اوقات حیرانی ہوتی ہے کہ اسی لمحے انہوں نے کس قدر درست خدشات ظاہر کر دیے۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل کے بقول ’1950ء میں کتاب مکمل ہونے کے باوجود انہوں نے اسے فوری شایع کرنا قرین مصلحت نہ سمجھا۔‘ اس کتاب میں سقوط حیدرآباد تک آنے والے اسباب کا احاطہ کرتے ہوئے وہ خطے میں انگریزوں کی آمد 1857ء کی جنگ میں ’نظام‘ کا کردار اور ہم سائے میں ٹیپو سلطان سے مسابقت تک۔۔۔ سارے اہم عوامل کا جائزہ لیتے چلے گئے ہیں۔۔۔ 512 صفحات کی اس تاریخی دستاویز کی قیمت صرف 500 روپے رکھی گئی ہے۔

۔۔۔
ایک مرشد کا ’محبت نامہ‘


’جالب جالب‘ شاعر عوام حبیب جالب پر مجاہد بریلوی کی کتاب ہی نہیں، بلکہ ان کے ساتھ اپنی تاریخی یادداشتیں ہیں، جس کی پانچویں اشاعت کا اہتمام راشد اشرف نے کیا، وہ لکھتے ہیں ’’جالب صاحب سے مجاہد صاحب کا ایک خاص تعلق تھا، ایسی کتابیں انسان محبت میں لکھتا ہے، عقیدت میں لکھتا ہے اور قاری بھی دوران مطالعہ اس سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتا۔‘‘ 160 صفحاتی اس میں کتاب میں اُن عظیم شاعر کا ذکر ہے کہ جن کی نظم ’میں نہیں مانتا‘ سے ایوان اقتدار میں یہ بات اخذ کر لی گئی کہ اب ہمارا دستور نہیں چل سکے گا۔ اُن کی نظم ’ظلمت کو ضیا۔۔۔‘ کے بعد سلاخوں کے پیچھے چوہدری ظہور الٰہی نے یہ مصرع نکالنے کو کہا تو وہ بولے کہ جب میں شعر کہہ دیتا ہوں، تو عوام کی امانت بن جاتا ہے، مشاعروں میں وہ کہیں گے، تو میں پڑھے بغیر نہ رہ سکوں گا۔ پھر اُن کا یہ ظرف آج کے درجنوں دانش وَر نما تجزیہ کاروں کے لیے مشعل راہ ہے کہ ’’میں حکم رانوں کے خلاف اس وقت نظم پڑھتا ہوں، جب وہ اقتدار میں ہوں۔۔۔!‘‘ فضلی بک سے شایع شدہ 300 روپے کی مجلد تصنیف باذوق قارئین کے لیے ایک تحفہ ہے۔

۔۔۔
’مذہبی مجلہ، جس میں ادب بھی ہے!


’الحنیف‘ جامعہ حنفیہ، سعود آباد کراچی سے شایع ہونے والا ایک سہ ماہی مجلہ ہے، لیکن عام فکری مجلوں کے برعکس اس میں دیگر ادبی مواد بھی شامل ہے۔ اس اعتبار سے اگرچہ اس پر مذہبی چھاپ ضرور ہے، لیکن اس نے اپنے قارئین کے ادبی ذوق کی آب یاری کا بھی اہتمام کیا ہے۔ دینی مسائل اور وعظ ونصیحت کے ساتھ اس میں پروفیسر عنایت علی خان، ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی، محمد عثمان جامعی، خالد عرفان، سحر تاب رومانوی اور دیگر کے رشحات قلم کو جگہ دی گئی ہے۔ مجلے کے مندرجات میں نثر کے ساتھ شاعری اور خودنوشت کے ساتھ طنزومزاح پر مبنی مواد کا بھی اہتمام ہے۔ سیاہ وسفید طباعت سے آراستہ 50 صفحاتی اس مجلے کی قیمت 30 روپے ہے۔

۔۔۔

علامتوں میں گندھی پہلی تصنیف


ہم اقبال خورشید کی اولین تصنیف کے بے چینی سے منتظر تھے۔۔۔ سُنا تھا کہ یہ کراچی پر لکھا گیا ناول ہے، لہٰذا اُن کی کتاب ’تکون کی چوتھی جہت‘ جس روز موصول ہوئی، اسی رات پڑھنے کی ٹھانی، سونے سے پہلے سرہانے کا لیمپ روشن کیا اور لگے ورق پلٹنے۔۔۔ ہمارا تجسس بڑھا۔۔۔ اور پھر بڑھتا گیا۔۔۔

ہم نے کئی اوراق تک انتظار کیا کہ کراچی سے اٹھنے والی اس کہانی میں کہیں اس شہر سے جڑا ہوا کوئی مخصوص رنگ ضرور جھلکے گا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ ’’یہ کیا۔۔۔؟‘‘ ہم نے کتاب سینے پر اوندھائی اور سوچا، استاد، یہ تو ہمارے ساتھ ہاتھ ہو گیا، ہم تو یہ سوچے بیٹھے تھے کہ شہر قائد سے جڑی ہوئی کوئی کہانی پڑھنے کو ملے گی، مگر نہیں صاحب، یہ تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا پس منظر لیے ہوئے ایک کتھا ہے، جو ظاہر ہے، پشاور، کوئٹہ یا ملتان کی بھی ہو سکتی تھی، اسے کراچی کی کہانی کہنا مبنی برانصاف تو نہیں۔۔۔! جب ہماری مایوسی کا تاثر تھوڑا سا کم ہوا، تو خیال آیا کہ صاحبو، یہ تو ادب ہے، ادب میں اکثر بات بالواسطہ کہنے کا چلن روا ہوتا ہے اور اقبال خورشید کو تو ہم علامت نگاری کا شہنشاہ کہتے ہیں۔۔۔ تو ’تکون کی چوتھی جہت‘ سے ذرا دیر کو ہم مرکزی کہانی پرے کر لیں اور پھر اس کے مندرجات پڑھیں، تو یہ لاپتا ہونا یا پراسرار اغوا اور پھر مغوی اور اس کے پیاروں کا امیدوبیم کے درمیان اپنی زندگی کو اذیت کرنا۔۔۔ واقعی یہ کراچی کی ہی تو کہانی ہے۔۔۔! مغوی کا اپنی بیوی کے لیے یہ مکالمہ کہ ’’کیا تم اس تک یہ خبر پہنچا سکتے ہو کہ میں ابھی زندہ ہوں۔۔۔؟‘‘ کسی ’نامعلوم‘ مقام پر اُس کا یہ سوچنا کہ ’’شاید میں اب باپ بن چکا ہوں گا۔‘‘ اور ’’بیٹا ہوا ہوگا تو ضرور مجھ جیسا ہوگا۔‘‘ یہ درد اور الم تو کراچی ہی کے بیٹوں کی بپتا ہے۔۔۔ بے بس عورت کا مغوی شوہر کو ’خط‘ لکھنا کہ ’میں جانتی ہوں کہ یہ خط تم تک نہیں پہنچ سکے گا، کیوں کہ میں اسے کبھی پوسٹ نہیں کروں گی۔ میرے پاس تمہارا پتا نہیں!‘ ناول کے یہ الفاظ شہر قائد کی سہاگنوں ہی کا گریہ کرتے ہیں۔

’تکون کی چوتھی جہت‘ میں پہلا ناول تو کتاب کا عنوان ہوا، جب کہ دوسرا ناول ’گرد کا طوفان‘ دراصل خالصتاً کراچی کی ایک نیم پختہ بستی سے اٹھتی ہوئی ایک کہانی ہے۔۔۔ اقبال خورشید کہتے ہیں کہ کتاب کا پہلا نہیں، بلکہ دوسرا ناول شہر قائد پر ہے۔ اگرچہ یہ بٹوارے کے بہت بعد کے زمانے کی ہے، لیکن کہیں کہیں اس میں 1947ء کے ذکر دکھائی دیتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ تحریر میں انتظار حسین کی سی خُو بُو محسوس ہوئی۔ یہ کراچی کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے نچلے درجے کے اُن لڑکوں کی کہانی ہے، جو ’برے دنوں‘ میں کراچی کی گلیوں میں ’سیاسی نمائندے‘ بنے پھرتے تھے۔ ناول کے بیانیے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن حقائق سے انکار ممکن نہیں۔۔۔ دراصل کراچی کے المیے کا بھی یہ ایک المیہ ہے کہ اسے ابھی تک ٹھیک سے قلم بند ہی نہیں کیا گیا، اس کی خوں آشام تاریخ میں ان گنت ناولوں کا مواد پنہاں ہے۔۔۔ سیکڑوں کہانیاں ایسی ہیں، جو ابھی دریافت کی جانی ہیں۔۔۔ مگر ہمارے ادیب نے شاید اِسے سیاسی گھٹن کے سبب ہاتھ ہی نہیں لگایا یا پھر عدم مقبولیت کے خوف سے نہیں چُھوا۔۔۔ نتیجتاً سب کراچی کو اپنے اپنے رنگ اور اپنی اپنی عینک سے دیکھنے کی ضد میں ہی لگے رہے۔۔۔ اب اقبال خورشید نے ’شہر قائد زادے‘ ہونے کے ناتے اس باب میں گویا اپنے عہد کے ادیبوں کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کی ہے، تو ہم امید رکھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ساحلی شہر کی ریت میں دفن اُن بہتیری کڑوی اور ’ناپسندیدہ‘ کہانیوں کو بھی قرطاس ادب پر اتاریں گے، جن تک کسی قلم کی رسائی نہیں ہوئی۔

400روپے کی 142 صفحات کی اس کتاب کا ہلکا پھلکا کاغذ، طباعت اور پیش کش اس قدر اچھا تاثر چھوڑتی ہے کہ لازم ہو جاتا ہے کہ اسے سراہا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔