وزیرِ خارجہ صاحب! شکوہ یورپ سے نہیں، آپ سے ہے

صابر ابو مریم  ہفتہ 29 جون 2019
وزیرخارجہ کو علم ہونا چاہیے کہ داعش کو شام و عراق سے افغانستان تک پہنچانے کے ذمہ دار یہی امریکا اور یورپی ممالک ہیں۔ (فوٹو: فائل)

وزیرخارجہ کو علم ہونا چاہیے کہ داعش کو شام و عراق سے افغانستان تک پہنچانے کے ذمہ دار یہی امریکا اور یورپی ممالک ہیں۔ (فوٹو: فائل)

حکیم الامت اور شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کی نظم کا یہ شعر اس لیے یاد آیا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب کو میڈیا پر یہ کہتے سنا کہ افغانستان میں داعش کے خطرے سے نمٹنے کےلیے پاکستان اور مغربی ممالک اور خاص طور سے نیٹو اور یورپ کا مؤقف ایک ہے۔ یہ گفتگو کرتے وقت شاہ صاحب کا انداز بیان انتہائی فخریہ تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ شاید پاکستان نے کشمیر فتح کرلیا ہے یا پھر اس سے بھی بڑا کوئی معرکہ سر کیا ہے۔ یہ بیان کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ ہمارا طرز بیان اور ہماری باڈی لینگویج نہ جانے امریکا کی غلامی کا طوق گردن میں ڈالنے پر اتنے فخریہ کیوں ہو جاتے ہیں؟ خیر! یہ بھی ایک طویل بحث ہے۔ ہم نکتے کی بات پر آتے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے پاکستان اور یورپ کے مؤقف کو اس طرح فخریہ انداز میں بیان کیا ہے جیسے کوئی بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہو۔ لیکن شاہ صاحب کی خدمت میں صرف یہی عرض کیا جائے گا کہ جس داعش کی افغانستان میں موجودگی کے عنوان سے آپ نے بات کی ہے، آپ کو علم ہونا چاہیے کہ شام و عراق سے ذلیل و رسوا ہونے کے بعد داعش کو اب افغانستان پہنچانے میں آپ کے یہی امریکا و یورپی ممالک ہی ہیں جو داعش کو افغانستان میں گذشتہ ایک برس سے لا کر آباد کر رہے ہیں۔ روس کے اعلی عہدیدار اور سفارتی ذرائع اس عنوان سے کئی ایک رپورٹس شیئر کر چکے ہیں اور عالمی ذرائع ابلاغ پر کئی مرتبہ ایسے شواہد پیش کیے جاتے رہے ہیں جن سے ثابت ہوا ہے کہ امریکا اور یورپی ممالک کی مدد سے ہی داعش کو شام و عراق میں ذلت آمیز شکست کھانے کے بعد نکال کر افغانستان ٹرانسپورٹ کرنے میں امریکا اور یورپی ممالک سرفہرست ہیں۔

ایک محب وطن پاکستانی ہونے کی حیثیت سے میں وزیر خارجہ صاحب کی خدمت میں ادب سے ایک سوال پیش کررہا ہوں۔ سوال انتہائی سادہ ہے: جب دنیا جانتی ہے کہ شام اور عراق میں داعش کو وجود بخشنے اور داعش کی مسلح و مالی مدد کرنے میں امریکا اور یہی یورپی ممالک شامل تھے، اور اب افغانستان میں بھی یہی شیطانی قوتیں داعش کو مستحکم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، تو ایسے حالات میں آپ کا یہ بیان دینا کہ پاکستان، یورپ اور نیٹو کا مؤقف ایک ہی ہے؛ یہ کیا معنی رکھتا ہے؟ کہیں آپ یہ تو نہیں کہنا چاہ رہے کہ امریکا و یورپ جو کررہے ہیں، خطے میں پاکستان بھی اس کا ایک حصہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو یقیناً پاکستان کی عظیم و غیور ملت کی تضحیک و ہزیمت ہے۔ اس بارے میں خود وزیر اعظم عمران خان صاحب کو اور صدر مملکت عارف علوی صاحب کو غور و فکر کرنا ہوگا۔

قارئین کی خدمت میں عرض ہے کہ داعش کو شام اور عراق میں ذلت و رسوائی کا سامنا ہوا اور سات برس تک معصوم انسانوں کا قتل عام کرنے والی داعش کا عوامی رضاکار قوتوں اور شام و عراق کی افواج نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور نیست و نابود کیا ہے۔ ایسے حالات میں بھاگ جانے والے اور روپوش ہونے والے داعشی دہشت گردوں کو ہیلی کاپٹروں اور جہازوں کے ذریعے نکال کر افغانستان پہنچانے والے کوئی اور نہیں وزیر خارجہ صاحب کے با اعتماد ساتھی، نیٹو اور یورپی ممالک ہی ہیں۔

افغانستان میں داعش کا وجود لانے کا امریکا اور یورپی ممالک کا ہدف بہت ہی واضح ہے۔ یہاں وسط ایشیا میں موجود قدرتی وسائل پر مکمل قبضہ کرنا امریکا اور شیطانی یورپی قوتوں کا ایک مقصد ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کی سرحدوں میں پاکستان اور ایران جیسے دو مسلم اور مضبوط قسم کے ممالک موجود ہیں۔ داعش کو یہاں ٹرانسپورٹ کرنے کا ایک شیطانی ہدف یہی ہے کہ دونوں ممالک یعنی ایران اور پاکستان کے خلاف سازشوں کا نیا جال بچھایا جائے اور سرحدوں کو غیر محفوظ کیا جائے۔ اسی تناظر میں پاکستان میں پہلے ہی کچھ ایسی تحریکوں کو جنم دیا گیا ہے کہ جن کا مقصد افواج پاکستان کو عالمی صہیونی ایجنڈا کے تحت کمزور کرنا ہے اور داعش کی افغانستان سے براہ راست پاکستان ٹرانسپورٹیشن کو یقینی بنانا ہے۔

آج جو پاکستان میں افواج پاکستان کے خلاف قبائلی علاقوں میں نفرت آمیز اور دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دی جا رہی ہیں، یہ سب کی سب براہ راست امریکا اور اسرائیل کے اشاروں پر اسی تناظر میں ہیں کہ افغانستان کے راستے سے پاکستان کی طرف داعش کےلیے راستے ہموار کیے جائیں۔ لیکن ہمارے ہاں تو صورتحال ہی کچھ اور ہے ہمارے انتہائی قابل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی تو داعش کی بانی قوتوں اور پاکستان کے مؤقف کو ایک ہی قرار دیتے ہوئے فخر محسوس کر رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شاید پاکستان کا نام روشن کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کی اعلیٰ قیادت کو ان نازک حالات میں یہ بات سمجھ جانی چاہیے کہ جب افواج پاکستان کو کمزور کرنے کی گھناؤنی سازشیں جنم لے رہی ہیں تو ان سازشوں کے تانے بانے کہاں ملتے ہیں؟ آج ہر ذی شعور اس بات کو سمجھ رہا ہے کہ عالمی صہیونیت کا ایجنڈا یہی ہے کہ مسلمان ممالک کی افواج کو کمزور کرو اور داعش جیسی دہشت گرد قوتوں کو ان ممالک میں داخل کرو اور پھر انفرا اسٹرکچر کی تباہی کے ساتھ ساتھ انسانوں کا قتل عام اور انارکی پھیلاؤ۔ البتہ پاکستان میں یورپی اور نیٹو ممالک کی قوتیں اس سازش میں تاحال ناکام رہے ہیں لیکن اس کام کو ایسی تحریکوں کے ذریعہ انجام دے رہے ہیں جن کی حمایت براہ راست امریکا اور اسرائیل سے کی جارہی ہے۔

اس لیے پاکستان کی اعلیٰ قیادت کو یہ باور کرنا ہوگا کہ امریکا و یورپ کی غلامی یا دوستی میں کوئی عزت ہے اور نہ کوئی فخر بلکہ جس کسی نے بھی امریکا اور یورپ کا سہارا لیا، وہ ذلیل و خوار ہوا۔ خود داعش جو امریکا و یورپ کی پیداوار تھی، جب اللہ کے مجاہدوں کا سامنا ہوا تو ذلت کے اس درجے کو پہنچی کہ گٹر لائنوں میں پناہ گاہیں بنانے پر مجبور ہوئی اور ان کو وہاں سے نکال نکال کر ذلیل و رسوا کیا گیا۔ یہ ہے امریکا اور یورپ کی دوستی کا نتیجہ۔ اسی طرح اگر ہم ریاستوں کے تعلقات کامطالعہ کریں تو ایسی تمام ریاستیں جو امریکا و یورپ کو اپنا دوست بتانے میں فخر کرتی ہیں، سب سے زیادہ مشکلات اور پریشانیوں کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں موجود بہت سے مسائل اور مشکلات کی جڑ بھی امریکا اور اس سے ہماری دوستی اور اس پر اعتماد ہیں۔

ایسے حالات میں شاہ محمود قریشی کو تو یورپ کا سہارا اور غلامی اختیار کرنے پر فخر محسوس ہوتا ہوگا لیکن پاکستان کے عوام دنیا کی ان تمام شیطانی قوتوں بشمول امریکا، یورپ او ر ان کے آلہ کار (چاہے وہ داعش کی شکل میں ہوں، داعش کے حمایتی ہوں یا پھر کسی بھی نام سے ایسی تحریکیں ہوں جن کا مقصد پاکستان کی افواج کو کمزور کرنا اور داعش کےلیے راہ ہموار کرنا ہو) ایسے تمام معاملات مسترد کرتے ہیں۔ اقبالؒ واقعی حکیم الامت تھے کہ جنہوں نے اپنی شاعری میں ملت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور آپ کے اشعار آج بھی ایسے موقعوں پر رہنمائی کرتے ہیں جب کچھ وزراء یا حکومتی افراد ملکی و اجتماعی مفاد کے بجائے امریکا و یورپ کے سامنے اپنی وفاداری کا ثبوت دینے کی کوششیں کرتے نہیں تھکتے۔ اقبال نے کیا خوب کہا تھا:

معلوم کسے ہند کی تقدیر کہ اب تک
بیچارہ کسی تاج کا تابِندہ نگیں ہے

یعنی کچھ معلوم نہیں کہ ہندوستان کی قسمت میں کیا لکھا ہے؟ اور بیچارے تو اب تک انگریز سرکار کے تاج کے چمکتے ہوئے موتی ہیں۔

دہقاں ہے کسی قبر کا اُگلا ہوا مردہ
بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیرِ زمیں ہے

یعنی اس ملک کے دہقان کو دیکھو، یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ابھی ابھی کسی قبر نے مردہ اگل کر زیر زمین سے بالائے زمین پھینک دیا ہو لیکن اس کا کفن زمین کے اندر ہی رہ گیا ہو۔

جاں بھی گِرَوِ غیر، بدن بھی گِرَوِ غیر
افسوس کہ باقی نہ مکاں ہے نہ مکیں ہے

یعنی اقبال کہتے ہیں کہ انسانوں کی حالت زار ایسی کہ نہ انکو کچھ کھانے کو ملتا ہے اور نہ پہننے کو۔ اس کی جان اور جسم غیر کے پاس گروی رکھے ہوئے ہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ نہ مکان باقی رہا اور نہ ہی مکین۔

یورپ کی غلامی پہ رضا مند ہوا تُو
مجھ کو تو گِلہ تجھ سے ہے، یورپ سے نہیں ہے!

اے میرے ہم وطن! تو یورپ کی غلامی پر راضی اور خوش ہے، سو میرا شکوہ تجھ سے ہے، یورپ سے نہیں۔

خلاصہ کلام یہی ہے کہ حکومت کو امریکا و یورپ کی غلامی اور ان کے مؤقف کے ساتھ پاکستانی مؤقف کو جوڑنے کے بجائے آزاد اور خود مختار مؤقف اپنانا چاہیے، جو نہ تو یورپ کا محتاج ہو اور نہ دنیا کے سب سے بڑے شیطان امریکا کا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔