نظام تعلیم اور مسجد کا مولوی

محمد ساجدالرحمٰن  ہفتہ 29 جون 2019
حکومت اور مدارس کے درمیان عدم اعتماد کی فضا کو ختم کرنا ہوگا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

حکومت اور مدارس کے درمیان عدم اعتماد کی فضا کو ختم کرنا ہوگا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اسلم کا تعلق پنجاب کے ایک دور افتادہ گاؤں سے تھا۔ گھر کے اخراجات چلانے کا واحد ذریعہ کھیتی باڑی تھی۔ والدین کی خواہش تھی کہ بچے کی اچھی تعلیم و تربیت کی جائے، لیکن کیونکہ وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اس لیے ان کی یہ حسرت صرف آنکھوں میں ہی سمائی رہ گئی۔ خیر، وقت گزرنے کے ساتھ اسلم اپنے والدین کے ساتھ کھیتی باڑی کے کاموں میں ہاتھ بٹاتا۔ صبح اٹھتے ہی سب سے پہلا کام کھیتوں میں اپنے والد کےلیے کھانا پہنچانا ہوتا تھا۔ گاؤں کی گلیوں میں اسکول جاتے بچوں کو دیکھ کر اُس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک ہوتی لیکن وہ حسرت بھری نگاہوں کے ساتھ سر جھکائے کھیتوں کا رخ کرتا۔ ایک دن جب کھیتوں میں اپنے والد کو کھانا دینے پہنچا تو وہاں مسجد کے مولوی کو پایا۔

شام کو تھکے ہارے گھر واپس آتے ہوئے اسلم کو والد نے کھیتوں پر آنے سے منع کرتے ہوئے کہا کہ کل سے مولوی صاحب کے پاس قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرنے کےلیے جانا ہے۔ مولوی صاحب نے بھی ایک عام مدرسے ہی سے تعلیم حاصل کی تھی۔ چیدہ چیدہ معلومات اور چند اہم دینی امور پر دسترس حاصل تھی لیکن ان کی کوشش ہوتی کہ اپنے طلباء کو زیادہ سے زیادہ علم و حکمت کی باتیں سکھائی جا سکیں۔ وقت گزرتا گیا اور ایک دن اسلم نے بھی دینی تعلیم مکمل کرلی۔ مسجد نما مدرسے سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد گاؤں کے قریب ایک آبادی میں امامت کرواتا اور بچوں کو دین کی تعلیم دیتا۔ حاصل ہونے والی آمدن سے گھریلو اخراجات کو چلانے میں خاصی دقت ہوتی لیکن اپنے مالک حقیقی کا شکر ادا کرتا۔ اسلم کے دل میں صرف ایک بات کھٹکتی تھی کہ کیا اس آمدن سے وہ اپنے بچوں کو بہتر معیار زندگی فراہم کر سکتا ہے؟

ہمارے معاشرے میں اسلم کی طرح کئی قاری اور حفاظ کرام بھی اسی پریشانی کا شکار ہیں۔ ان مسائل کے پیش نظر معاشرے میں ایک نئی سوچ نے جنم لیا ہے کہ کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دینی علم حاصل کرنے والے شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بہتر معیار زندگی اپنا سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشرے میں کئی قاری اور خطیب کسمپرسی کی زندگی بسر کررہے ہیں لیکن اس کی سب سے بڑی وجہ لاشعوری طور پر کی جانے والی چند غلطیاں ہیں جو بعد میں سنگین مسائل کا سبب بنتی ہیں۔

سرکاری مساجد میں حکومتی سطح پر متعین شدہ پے اسکیل کے مطابق ہی تنخواہ دی جاتی ہے، لیکن اس کےلیے خطیب یا قاری کا باقاعدہ کسی مستند دینی ادارے سے سند یافتہ ہونا ضروری ہوتا ہے۔ گلی محلے کی وہ مساجد جو سرکاری نہ ہوں لیکن باضابطہ طور پر تعمیر کی گئی ہوں، وہاں بھی امام صاحب کو موزوں تنخواہ دی جاتی ہے۔ ان کا پے اسکیل بالعموم سرکاری مساجد کے امام صاحبان کے مساوی یا ان سے بہتر ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پنجاب یا دیگر صوبوں کے دور دراز کے علاقوں میں ایسے کئی غیر رجسٹرڈ مدارس موجود ہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں طلباء دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ایسے غیر مستند اداروں سے فارغ التحصیل طلباء کو معاشرے میں کئی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جب بھی تعلیمی نظام کے حوالے سے بحث کی جاتی ہے تو ہمیشہ حکومت ہی کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے حالانکہ اس معاملے کے قصوروار صرف صاحبانِ اقتدار نہیں۔

سکّے کے دوسرے رخ کا جائزہ لیا جائے تو گزشتہ چند سال میں حکومت کی جانب سے مدارس کو چند اہم ہدایات جاری کی گئیں جن میں انگلش سمیت دیگر سائنسی علوم کو پڑھائے جانے پر زور دیا گیا۔ علم کی کمی اور پروپیگنڈا لابیوں کی اکثریت کے باعث یہ حکمت عملی کامیاب نہ ہوسکی۔ دینی مدارس میں یہ سوچ پائی گئی کہ بیرونی قرضوں میں ڈوبی کٹھ پتلی حکومت یورپ کے سامنے بے بس ہے اور معاشرے کے دیگر افراد کی طرح انہیں بھی مغربی کلچر کی طرف راغب کیا جارہا ہے۔

یہ تمام حقائق ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہیں اور اس منطق کی سب سے بڑی وجہ علم سے دوری ہے۔

دینی مدارس کا نصاب ایک خاص مقصد یعنی دینی رہنمائی، دعوت و تبلیغ اور اس کی اشاعت کو سامنے رکھ کر ڈیزائن کیا گیا ہے جبکہ دیگر دنیاوی اور سائنسی علوم کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں مدارس سے فارغ التحصیل طلباء کو بے روزگاری جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مذہبی حلقوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس پر متفق ہیں کہ درس نظامی کا نصاب ’’جس زمانے میں‘‘ جن مقاصد کےلیے تیار کیا گیا تھا، کوئی شک نہیں کہ اس میں کمال کردار ادا کیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ کچھ تقاضے ایسے ہیں جس کی دینی اداروں میں علم حاصل کرنے والے طلباء کو اشد ضرورت ہے۔ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر علوم کا ہونا بھی انتہائی ضروری ہے تاکہ وہ بھی بیوروکریسی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں اپنی صلاحیتیں منوا سکیں۔

یہ ضروری نہیں کہ دینی تعلیم حاصل کرنے والا شخص صرف مسجد کا مولوی ہی بن سکتا ہے، بلکہ وہ معاشرے کے دیگر افراد کی طرح ہر شعبہ زندگی میں بہتر روزگار حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ دعوت و تبلیغ کا کام بھی بخوبی سرانجام دے سکتا ہے۔

اسلم جیسے ہزاروں طلباء کی مدد کےلیے حکومت کی جانب سے مدارس کو رجسٹر کروانے کی ہدایات جاری کی گئیں تو بعض دینی حلقوں کی جانب سے انتہائی سخت ردعمل دیکھنے کو ملا۔ سائنسی علوم سے ناواقفیت نے مدارس انتظامیہ میں خوف کی فضا پیدا کر دی ہے کہ اگر دینی نصاب میں جدید علوم کو شامل کیا گیا تو شاید ان کی اہمیت میں کمی واقع ہوجائے گی۔ حکومتی پالیسوں پر تنقید کرنے کے بجائے مدارس انتظامیہ کو چاہیے کہ اپنے فارغ التحصیل بچوں کے بہتر مستقبل کےلیے نہ صرف رجسٹریشن کروائیں بلکہ درس نظامی اور دیگر دینی علوم کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم پر بھی خصوصی توجہ دیں۔

غیر معیاری مدارس کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ارباب اختیار کےلیے پریشان کن صورتحال اختیار کرچکا ہے کیونکہ اس سے نہ صرف فرقہ وارانہ سوچ کو پنپنے کا موقع ملا ہے بلکہ معیاری تعلیم فراہم کرنے والے مدارس کی آمدن پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

یہ تحریر لکھنے کا خیال اس وقت آیا جب عوامی نمائندے قومی اسمبلی میں یکساں نظام تعلیم کے حوالے سے لائحہ عمل پیش کر رہے تھے۔ ایوان زیریں میں کی جانے والی بحث میں بتایا گیا کہ موجودہ حکومت جہاں پاکستان کے دیگر شعبوں میں تبدیلی لانے کی خواہاں ہے، وہیں بنیادی نظام تعلیم کو بہتر بنانے کی کوششوں میں بھی مصروف عمل ہے۔ حکومتی عہدیداران کی جانب سے پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی مدارس میں بھی اصلاحات نافذ کرنے کی سوچ کا اعادہ کیا گیا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور دینی مدارس مل کر تعلیمی نظام میں سدھار لانے کےلیے قابل عمل اور ٹھوس اقدامات کریں۔ ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نوجوان نسل کے تابناک مستقبل کےلیے سنجیدگی کے ساتھ مشترکہ لائحہ عمل پر غور کیا جائے۔ حکومت اور مدارس کے درمیان عدم اعتماد کی فضا کو ختم کرنا ہوگا کیونکہ اس بداعتمادی کے نتائج وہاں پڑھنے والے ہزاروں بچوں کو بھگتنے پڑ رہے ہیں۔ گاؤں اور محلوں میں غیر رجسٹر شدہ مساجد و مدارس کے حوالے سے بھی مؤثر حکمت عملی بنائی جانی چاہیے تاکہ دینی علوم حاصل کرنے والے نوجوان بھی زندگی کے ہر شعبے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔