شام پر حملے کے بعد اس خطے کا مستقبل

زمرد نقوی  اتوار 8 ستمبر 2013

شام پر متوقع امریکی حملہ دنیا بھر کے میڈیا کی اہم ترین خبر ہے۔ روزانہ اس حوالے سے ایک نئی پیشرفت ہوتی ہے۔ آسٹریلیا سے لے کر یورپ اور امریکا تک کے عوام شام پر حملے کے حوالے سے اپنی حکومتوں کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں ۔ اس سال کے شروع میں یہ منصوبہ بنایا گیا تھا کہ شام پر کیمیاوی حملہ کیا جائے اور اس کا الزام بشار الاسد کی حکومت پر لگایا جائے۔ اس سازش کا انکشاف کسی اور نے نہیں بلکہ برطانوی اخبار ڈیلی ٹائمز نے کیا۔ جب کہ ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردگان جو امریکا و اسرائیل کے اتحادی ہیں نے فرمایا ہے کہ عالمی مداخلت کے ذریعے بشار الاسد کو اقتدار سے بے دخل کیا جائے۔ یہ حال ہے ان مسلمانوں کا جو دعویٰ اسلام کا کرتے ہیں تو دوسری طرف اسرائیل اور سرمایہ دارانہ نظام کی حفاظت کرتے ہوئے دنیا بھر کے مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔

ادھر چین اور روس ہیں جنہوں نے شام کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے امریکی دعوئوں کو احمقانہ قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ امریکا اس کے ثبوت سلامتی کونسل میں پیش کرے۔ دوسری طرف عرب بادشاہتیں اور ترکی اس بات پر پریشان اور امریکا سے ناراض ہیں کہ وہ حملے میں تاخیر کیوں کر رہا ہے۔ تازہ  خبر یہ ہے کہ عرب ممالک نے امریکا سے کہا کہ وہ شام پر حملہ کرے سارا خرچہ وہ دیں گے۔ امریکا کو یہ پیش کش عرب بادشاہتوں نے کی ہے جس کا انکشاف امریکی وزیر خارجہ نے سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سامنے کیا۔ میرے گزشتہ کالم میں دی گئی تاریخ 4 ستمبر کو امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی نے شام پر فضائیہ حملہ کی حمایت کر دی کیونکہ زمینی کارروائی کے لیے امریکی حمایت یافتہ شامی باغی موجود ہیں۔ امریکی سینیٹ میں اس قرار داد کی منظوری سے شام پر حملے کے منصوبے کی راہ میں حائل پہلی رکاوٹ دور ہو گئی ہے۔

امریکا کے عالمی کردار کا آغاز دوسری جنگ عظیم سے ہوتا ہے۔ اس جنگ میں اسے کوئی نقصان نہیں ہوا سوائے پرل ہاربر  پر حملے کے جو جاپانیوں نے کیا۔ اس جنگ میں اسے کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا جب کہ فرانس خاص طور پر برطانیہ کا کچومر نکل گیا۔ زیادہ تر نو آبادیاں بھی ان دونوں ملکوں کی ہی تھیں خاص طور پر برطانیہ کی۔ یہ امریکا کے لیے سنہری موقعہ تھا کہ وہ برطانیہ سے دنیا پر بادشاہی کا وہ تاج چھین لے جو اس نے اپنے سر پر سجا رکھا تھا چنانچہ دوسری عالمی جنگ کو غیر ضروری طوالت دی گئی جو وقت سے پہلے ختم بھی ہو سکتی تھی تا کہ برطانیہ کے بچے کچے کس بل بھی نکل جائیں اور وہ امریکا کے سامنے کھڑا نہ ہو سکے۔ سوویت یونین سے ملک شام تک اسی کہانی کا تسلسل ہے۔ مشرق بعید سے مشرق وسطیٰ کے قدرتی وسائل پر قبضہ کی کامیاب سامراجی جنگ۔ اس میں سوویت یونین کا خاتمہ سامراجی کامیابی میں سنگ میل ٹھہرا جس میں ہمارے عظیم مجاہد اسامہ بن لادن نے اہم کردار ادا کیا۔ امریکی سی آئی اے نے انھیں پہلے ٹریننگ دی‘ اسلحہ دیا‘ ان کے ساتھیوں کو پھر سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا۔

امریکیوں نے  اسامہ بن لادن کو جھانسہ دیا تھا کہ سوویت یونین کے خاتمے میں ان کی خدمات کے صلہ میں افغانستان میں ان کی اسلامی حکومت قائم کر دی جائے گی لیکن امریکا نے دھوکہ دیا چنانچہ اسامہ امریکا سے ناراض ہو گئے۔یوں القاعدہ اور امریکا کے درمیان خونی چپقلش کا آغاز ہوا۔ امت مسلمہ کی قیادت کے دعویداروں کی عقل کا اندازہ لگائیں۔ پہلے خود ہی افغانستان میں امریکا کا قبضہ کرایا۔ اب قبضہ چھڑانے کے لیے اس سے لڑ رہے ہیں۔ ان کا اور پاکستان کی مذہبی جماعتوں کا کارنامہ ہی اتنا بڑا تھا کہ سابق امریکی صدر ریگن کو بے ساختہ کہنا پڑا کہ ان مجاہدین کا رتبہ امریکا کے بانیان کے ’’مساوی‘‘ ہے۔ پاکستان کی مذہبی جماعتیں ہوں یا یہ مجاہدین‘ ان کی خدمات ہی اتنی بڑی ہیں کہ انھوں نے نہ صرف مشرق وسطیٰ کے قدرتی وسائل پر امریکا کا قبضہ کرایا بلکہ مشرق بعید کے وسائل پر بھی اس کا قبضہ مستحکم کرا دیا ۔

آج یہ مذہبی جماعتیں دن رات مشرف آمریت کو گالیاں دیتی ہیں لیکن یہ مشرف آمریت کے دور میں پاکستان کے انتہائی حساس صوبے خیبر پختونخوا میں جہاں پر امریکا کے عالمی مفادات وابستہ ہیں بلا شرکت غیرے پانچ سال اقتدار کے مزے لوٹتی رہیں اور جب مشرف کو امریکا کی سرپرستی نہ رہی تو انھوں نے بھی امریکا مردہ باد اور مشرف مردہ باد کے نعرے لگانے شروع کر دیے۔ دہشت گردی کی جنگ کا آغاز مشرف دور میں نہیں ہوا بلکہ یہ افغانستان میں تیس سال پہلے امریکا نے افغان عوام کے خلاف شروع کی جس میں پاکستان کی مذہبی جماعتیں امریکا کی اتحادی تھیں جو عوام کو سبز باغ دکھاتی رہیں کہ سوویت یونین کے خاتمے کے نتیجے میں پاکستان کا جھنڈا دلی، کشمیر، کابل، سنٹرل ایشیا سمیت کریملن اور واشنگٹن پر لہرائے گا۔ یہ حقائق ہیں جن کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا۔ یہ سچ ہے تاریخ نے محفوظ کر لیا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کی جگہ لینا امریکا کی پہلی بڑی فتح تھی۔ دوسری بڑی عظیم تاریخی فتح سوویت یونین کا خاتمہ تھا۔ اس عظیم فتح نے ہی امریکا کے لیے دوسری کامیابیوں کا راستہ ہموار کیا۔ شام پر امریکی قبضے سے یہ اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں پہنچ جائے گی۔ اس کے ذریعے امریکا اپنے اصل ہدف ایران تک پہنچ جائے گا اور ایران میں امریکا مخالف حکومت کے خاتمے سے ہمارے خطے پر اس کا قبضہ مکمل اور دنیا پر مستحکم ہو جائے گا۔ ایران میں اپنی پسندیدہ حکومت لانا امریکا کے ہاتھ میں وہ ہتھیار ہو گا جس سے وہ اپنے ہر دشمن کو تہس نہس کر دے گا۔ ایرانی نیو کلیئر پروگرام کے خاتمے اور پاکستانی ایٹمی تنصیبات پر قبضے سے اسرائیل محفوظ اور امریکا کو اپنے ہاتھوں پیدا کردہ ایک بہت بڑی مصیبت سے نجات مل جائے گی۔

شام پر حملہ کویت پر صدام کے حملے کی طرح ثابت ہو گا۔ جس کے نتیجے میں اس حملے کے دو دن بعد بے نظیر حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ اسی طرح کے نتائج شام پر حملے کے بعد مرتب ہوں گے۔آنے والے دنوں میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ امریکا کی ضرورت بن جائے گی۔ الطاف حسین کراچی میں فوجی آپریشن کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ بھارت سے دوستی ہو یا کشمیر کا حل۔ کیا بھارتی اسٹیبلشمنٹ پاکستان سے دوستی کے حوالے سے اسی لیے پیچھے ہٹ گئی ہے کہ اسے آگاہی ہو گئی ہے کہ شام پر حملے کے بعد اس خطے کا کیا مستقبل ہو گا جس میں بھارت اور اسرائیل اس خطے میں بالادست کردار ادا کریں گے۔

شام کے حوالے سے 12-11 ستمبر اہم تاریخیں ہیں۔

سیل فون: 0346-4527997

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔