آل پارٹیز کانفرنس، توقعات اور اندیشے

غلام محی الدین  اتوار 8 ستمبر 2013
کسی متفقہ حکمت عملی پر اتفاق رائے سے کہیں زیادہ اس پر عمل درآمد اہم ہوگا۔ فوٹو: فائل

کسی متفقہ حکمت عملی پر اتفاق رائے سے کہیں زیادہ اس پر عمل درآمد اہم ہوگا۔ فوٹو: فائل

ملک کی تمام سیاسی جماعتیں آج ملک کو درپیش غیر معمولی چیلنجوں کا سامنے کرنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی غرض سے وزیراعظم ہائوس میں جمع ہورہی ہیں۔

آل پارٹیز کانفرنس کے اہم ترین موضوعات میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے قومی سکیورٹی پالیسی کی تشکیل اور طالبان کے ساتھ بات چیت کی حدود طے کرنے کے لیے تجاویز پر بحث مباحثہ شامل ہے۔

حکومت نے قبل ازیں 12 جولائی کو آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا جس کے ایجنڈے میں عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے قومی سطح پر حکمت عملی کی تشکیل اور پورے ملک میں امن و امان اور سکیورٹی کی عمومی صورت حال کو بہتر بنانے جیسے نکات شامل تھے۔ لیکن یہ کانفرنس اس لیے ملتوی کردی گئی کہ حکومت ان تمام اندیشوں کا خاتمہ چاہتی تھی جن کا اظہار اس کانفرنس کی ناکامی کے حوالے سے کیا جارہا تھا۔ اس غرض سے حکومت نے بڑے پیمانے پر مشاورت اور صلاح مشورے کا راستہ اختیار کیا۔ آج کی کانفرنس میں اس بات کا فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے جانے چاہئیں یا نہیں اور اگر مذاکرات ہونے ہیں تو ان کا طریقہ کار کیا ہوگا اور کن حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے بات چیت کے عمل کو آگے بڑھایا جائے گا۔

آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کے بارے میں سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک جمہوری حکومت کے ہوتے ہوئے کیا یہ معاملات ریاستی اداروں، قومی اسمبلی اور سینٹ کے ذریعے حل نہیں کیے جاسکتے؟ حالانکہ دنیا بھر کے جمہوری معاشروں کا یہی چلن ہے کہ تمام فیصلے منتخب ایوانوں کے اندر کئے جاتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ جو پارٹیاں اس کانفرنس میں شریک ہورہی ہیں ان کی نمائندگی منتخب ایوانوں میں بھی ہے۔ اگر ارادہ پکا ہو اور کسی قسم کے دبائو کو خاطر میں نہ لایا جائے تو اسمبلی کے اندر بیٹھ کر بھی دہشت گردی کے نمٹنے کی حکمت عملی تیار کی جاسکتی ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں منتخب اسمبلیوں کے فیصلوں کو وہ توقیر حاصل نہیں ہوسکی جس کی روایت دوسری جمہوریتوں میں مستحکم ہوچکی ہے۔ مثال کے طور پر ہماری قومی اسمبلی اور کے پی کے کی صوبائی اسمبلی نے بارہا ڈرون حملوں کے خلاف متفقہ قرار دادیں منظور کیں لیکن ان کا نتیجہ یہی نکلا کہ حملے بدستور جاری رہے اور ملک کے عوام اور بیرونی دنیا کو یہی تاثر ملا کہ پاکستان کے منتخب نمائندوں کی رائے بالادست عالمی قوتوں اور ان کے مقامی حامیوں کے سامنے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ شاید اسی لیے ہماری اسمبلیاں اور منتخب نمائندے جمہوری نظام اور اس کے نتیجے میں حکومت کو تفویض ہونے والے فرائض اور قوت نافذہ سے وہ اعتماد کشید نہیں کرپائے جو جمہوری حکومت کا خاصہ ہوتا ہے۔ ہماری اس ذہنی کیفیت کو پروان چڑھانے میں ملک کے اندر پے در پے فوجی ادوار کے تسلسل نے بھی بڑا کردار ادا کیا۔ اسی طرح آل پارٹیز کانفرنسوں کی روایت کی جڑیں بھی فوجی ادوار میں پیوست نظر آتی ہیں۔

ان تمام حقائق سے قطع نظر اس بات میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت نے اس کانفرنس کا انعقاد پورے خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ کیا ہے اور وہ چاہتی ہے کہ ملک کو کسی بھی طرح حالیہ بحرانوں سے نکالنے کی کوئی صورت پیدا ہوجائے۔ ملک اس وقت جن مسائل میں گھرا ہوا ہے ان کی نوعیت غیر ممولی ہے اور انہیں حل کرنے کے لیے بھی غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس کانفرنس کی وجہ بننے والا سب سے بڑا مسئلہ ملک میں جاری دہشت گردی ہے۔ ملک کے اندر دہشت گردی اور امن وامان کا مسئلہ کثیر جہتی ہے۔ اس کی شدت اور دائرہ کار حساس فوجی تنصیبات اور اہم شخصیات پر حملوں سے لے کر خوفناک حد تک وسعت اختیار کرجانے والے سٹریٹ کرائمز اور دیگر غیرقانونی دھندوں تک پھیلا ہوا ہے۔

ایک رائے یہ ہے کہ معاشرے میں جرائم کی جو صورتحال ہے اس کا بین الاقوامی دہشت گردی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کی عالمی جنگ میں پاکستان کی شرکت نے ملک کو ایسے طوفان میں دھکیل دیا جس کے اثرات نے حکومت کی قوت نافذہ کو ایک مذاق بناکر رکھ دیا۔ یوں جب حکومت کی کمزوری عیاں ہوتی ہے تو جرائم پیشہ لوگ بھی اپنی کارروائیوں کی شدت اور دائرہ کار کو وسعت دے دیتے ہیں۔ اگر ہم گزشتہ گیارہ برسوں کے اعدادو شمار کا جائزہ لیں تو دہشت گردی کے واقعات میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد انسانوں کو دہلا کر رکھ دیتی ہے۔ 2003ء کے پورے سال میں سکیورٹی فورسز، عام شہری اور دہشت گردوں کی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 189 تھی۔ آج اگر ہم رواں سال میں یکم ستمبر تک ہونے والی ہلاکتوں کا جائزہ لیں تو جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 4255 ہے جس میں 527 سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔ یاد رہے کہ ان اعدادو شمار میں وہ ہلاکتیں شامل نہیں جن کے بارے میں یہ شک پایا جاتا ہے کہ ان کے پیچھے کسی سیاسی جماعت یا گروہ کا ہاتھ ہوسکتا ہے…

2003ء سے لے کر یکم ستمبر 2013ء تک کل 49392 لوگ دہشت گردی کی اس مارا ماری کی نذر ہوچکے ہیں۔ یہ واقعی ایک غیر معمولی صورتحال ہے جس کا تدارک کیے بغیر ملک ترقی کی جانب ایک قدم بھی نہیں اٹھاسکتا۔ لہٰذا حکومت پر یہ لازم ہوچکا تھا کہ وہ ملک کو اس صورتحال سے نکالنے کے لیے ہرممکن اقدامات کرے۔ اے پی سی سے ملک کی تمام اہم سیاسی قوتوں کو مثبت توقعات ہیں جس کا اظہار ایک سے زیادہ مرتبہ سامنے آچکا ہے۔

تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ معاملات کو درست سمت دینے کے لیے فوج، انٹیلی جنس اور سیاسی قیادت کا ایک جگہ جمع ہونا انتہائی مثبت پیش رفت ہے لیکن اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ شفافیت اور غیر مبہم حکمت عملی کو یقینی بنایا جائے۔

ایم کیو ایم کا خیال ہے کہ اگر اخلاص کا دامن نہ چھوڑا جائے تو یہ اے پی سی گزشتہ کانفرنسوں سے مختلف ثابت ہوسکتی ہے۔ ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر فاروق ستار کانفرنس کے موقع پر دہشت گردی کے خلاف اپنی پارٹی کی جانب سے پالیسی پر تفصیلی بریفنگ دیں گے۔

اے این پی جو قبل ازیں اپنے طور پر آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کرچکی ہے بہت پرامید ہے۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ جب تمام سیاسی قوتیں تعاون پر آمادہ نظر آتی ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کامیابی حاصل نہ ہو۔ کانفرنس میں متفقہ طور پر ہونے والے فیصلوں کے بعد حکومت کے پاس ایکشن لینے کا پورا اختیار اور اخلاقی قوت موجود ہوگی۔

جماعت اسلامی نے اس بارے میں قدرے سخت گیر رویہ اختیار کررکھا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ حکومت کو معاملات کو درست سمت میں لانے کے لیے اس موقع کو غنیمت جاننا چاہیے کیونکہ حکومت کے لیے اب مزید مہلت حاصل کرنا مشکل ہوگا۔ حکومت کو یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ خود حکومت کی بقا کے لیے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جماعت اسلامی کی جانب سے امیر جماعت سید منور حسن کانفرنس میں شریک ہوں گے۔

ن لیگ کی اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کا کہنا ہے کہ حکومت کو فوج اور سیاسی قوتوں کا مکمل تعاون حاصل ہے۔ حزب اختلاف نے ماضی میں جو اے پی سی منعقد کیں ان کی ناکامی کی وجہ یہی تھی کہ ان جماعتوں کے پاس اقدامات کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ لیکن حکومت کے پاس اختیار بھی ہے اور قوت بھی، اس لیے اس کانفرنس کو کامیابی سے ہمکنار ہونا چاہیے۔اس کانفرنس کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ کانفرنس کے شرکاء کو اعلیٰ فوجی حکام اور انٹیلی جنس افسران ملک میں سکیورٹی کی حالیہ صورت حال پر بریفنگ بھی دیں گے۔اس بات کو پیش نظر رکھا گیا ہے کہ اگر صلاح مشورے کا عمل طوالت اختیار کرگیا تو یہ کانفرنس ایک سے زیادہ دنوں تک جاری رکھی جاسکے۔ حکومت کی ہدایت پر سکیورٹی سے متعلق حکام اور خفیہ اداروں کے نمائندے کراچی کے حالات پر بھی بریفنگ دیں گے جس کے بعد سوال و جواب کا سیشن بھی ہوگا۔

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس سلسلے میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے ٹیلی فون پر بات کرکے انہیں باضابطہ طور پر کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ انہوں نے جن رہنمائوں سے بات کی ان میں اپوزیشن لیڈر، جمعیت علمائے اسلام‘ ایم کیو ایم‘ عوامی نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، مسلم لیگ قاف، مسلم لیگ فنکشنل اور ساجد میر شامل ہیں۔

ایوان وزیراعظم میں آج ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کے نتائج سے عوام کو بہت توقعات وابستہ ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں تمام عوامی حلقوں کی یہ خواہش ہے کہ ملک کو دہشت گردی کے عذاب سے نجات حاصل ہو۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کانفرنس میں تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک میں جاری بدامنی اور دہشت گردی کے تمام اسباب اور اس میں ملوث تمام قوتوں کے کردار کو زیر بحث لایا جائے اور ملک کے مختلف حصوں میں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اگر مختلف قسم کی حکمت عملیوں کی ضرورت محسوس کی جائے تو اس پر غیر مبہم اور واضح طریقہ کار طے کرلیا جائے۔

بارہا ایسا ہوا ہے کہ حکمت عملی کو حتمی شکل دینے کے بعد جب اس پر عملدرآمد کا وقت آتا ہے تو ذمہ داران سیاسی مصلحتوں کے زیر اثر عملدرآمد کے تسلسل کو جاری نہیں رکھ پاتے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والی قوتیں زیادہ شدت کے ساتھ تخریبی کارروائیوں میں مصروف ہوجاتی ہیں۔ اس لیے اصل اہمیت اس بات کی نہیں کہ آل پارٹیز کانفرنس میں کتنے اچھے اور مؤثر فیصلے کیے جاتے ہیں بلکہ اصل اہمیت اس بات کو حاصل ہوگی کہ ان فیصلوں پر کتنی دیانت داری اور عزم کے ساتھ عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ ملک کو درپیش غیر معمولی حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اس مرتبہ ان فیصلوں پر سختی کے ساتھ عمل کیا جائے جن پر ملک کی تمام سیاسی قوتیں متفق ہوں۔

گزشتہ دور میں ہونے والی کل جماعتی کانفرنسیں:

 

پچھلے دورِ حکومت کے دوران بھی مختلف مواقع پر حکومت اور دوسری سیاسی جماعتوں کی طرف سے کل جماعتی کانفرنسوں کا انعقاد کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان امریکہ تعلقات میں کشیدگی، ڈرون حملوں اور شمالی وزیرستان میں کارروائی کی امریکی دھمکیوں کے پیش نظر اس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اسلام آباد میں 29ستمبر2011ء کو ا یک روزہ کل جماعتی کانفرنس بلائی تاکہ ان مسائل پر قومی اتفاق رائے پیدا کرتے ہوئے مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیا جائے۔ کانفرنس میںپارلیمنٹ سے باہر کی جماعتوں کے رہنمائوں نے بھی شرکت کی۔ وزیرخارجہ حناربانی کھر اور ڈی جی آئی ایس آئی احمد شجاع پاشا نے شرکاء کو امریکی الزامات کی حقیقت،قومی سلامتی اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی وجوہات کے بارے میں بریفنگ دی۔

اس کانفرنس کے انعقاد سے امریکہ کو یہ پیغام دیا گیا کہ ملک کی سیاسی اور عسکری قوتیں دونوں ممالک کے تعلقات اور دہشت گردی کے حوالے سے یکساں موقف رکھتی ہیں نیز اے پی سی سے امریکا کی طرف سے بڑھائے جانے والے دبائو کو فوری طور پر کم کرنے میں بھی مدد ملی۔ جولائی2012ء میں متحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے مطالبہ سامنے آیا کہ مختلف قومی ا یشوز پر مشترکہ حکمت عملی اور مؤقف اختیار کرنے کے لیے کل جماعتی کانفرنس بلائی جائے۔ اس سلسلے میں ایم کیو ایم کے مختلف وفود نے سیاسی جماعتوں سے رابطے کرکے انہیں کل جماعتی کانفرنس کی ضرورت اور افادیت پر قائل کرنے کی کوشش کی۔ تاہم اس مجوزہ کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد عمل میں نہ لایا جاسکا۔

14فروری 2013ء کو انتخابات سے تین ماہ قبل خیبرپختونخوا کی حکمران جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے اسلام آباد میں ایک کل جماعتی کانفرنس کی میزبانی کی، جسے کل جماعتی امن کانفرنس کا نام دیا گیا۔ اس کانفرنس میں 27سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں اور نمائندوں نے شرکت کی۔ تاہم تحریک انصاف اور جماعت اسلامی شریک نہ ہوئیں۔ کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے میں دہشت گردی کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس کے حل کے لیے تمام جماعتوں کو مل کر جدوجہد کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ فاٹا میں قیام امن کے لیے گرینڈ ٹرائبل جرگہ کی کوششوں کو سراہا گیا اور دہشت گردی سے متاثرہ لوگوں سے ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔

اے این پی کی کا نفرنس کے چند روز بعد 28فروری2013ء کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کی طرف سے کل جماعتی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ اس کے ایجنڈے میں دہشت گردی سے نجات، قیام امن اور طالبان سے بات چیت کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کے نکات شامل تھے۔ اس کانفرنس میں ملک کی 30بڑی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنمائوں اور قبائلی سطح پر بننے والے جرگے کے اراکین کو مدعو کیا گیا۔ تحریک انصاف نے اس کانفرنس کو انتخابات سے قبل سیاسی مفادات حاصل کرنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے اس میں شرکت سے انکار کردیا۔ کانفرنس میںشریک جماعتوں نے اتفاق کیا کہ قبائلی جرگے کی مدد سے طالبان سے مذاکرات کے عمل کا آغاز کیا جائے گا۔ کانفرنس میںپانچ نکاتی مشترکہ اعلامیے کا اعلان کیا گیا جس میں گرینڈ جرگہ کی تشکیل اور ریاست کی عمل داری قائم کرنے کے لیے طالبان سے مذاکرات کی حمایت جیسے نکات شامل تھے۔

وزیر اعظم نواز شریف ،آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی اور عمران خان کی اے پی سی سے قبل ملاقات:

تحریک انصاف نے سیاسی میدان میں اپنی طاقت کا لوہا منوا لیا ہے۔ اس نے تبدیلی کا نعرہ لگایا اور نوجوان ووٹر کو متحرک کیا۔ نوجوانوں کی اکثریت نے بھی تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کی آواز پر لبیک کہا۔ کیونکہ نوجوانوں کی اکثریت واقعی ملک میں تبدیلی کی خواہاں تھی ۔ وہی تحریک انصاف جس کے جلسوں اور جلوسوں میں چند سو لوگ ہوا کرتے تھے ، اب شرکت کرنے والوں کی تعداد ہزاروں ، لاکھوں میں پہنچ گئی ۔ تحریک انصاف کا شروع سے ہی نعرہ رہا ہے کہ ملک میں جاری دہشت گردی کا حل مذاکرات کے ذریعے نکالا جائے ۔ موجودہ برسر اقتدار پارٹی بھی دہشت گردی کا حل مذاکرات کے ذریعے نکالنے کی خواہاں ہے۔ اس مرتبہ جب مسلم لیگ ن نے دہشت گردی کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا عندیہ دیا تا کہ تمام پارٹیوں کی متفقہ رائے سے اس مسئلے کا حل نکالا جا سکے تو عمران خان نے آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت سے معذوری ظاہر کر دی ۔

ان کا موقف یہ تھا کہ اس سے قبل بھی آل پارٹیز کانفرنسز بلائی جاتی رہی ہیں مگر ان میں کئے گئے فیصلوں پر عمل در آمد نہ ہو سکا یا پھر پھر آل پارٹیز کانفرنس کسی نتیجہ پر ہی نہ پہنچ سکی ۔ جب مسلم لیگ ن کی قیادت نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے رابطہ کر کے اپنا موقف پیش کیا تو انھوں نے آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کی وجہ بتائی، اس پر مسلم لیگ ن نے ان سے ہر حال میں آل پارٹیز کانفرنسز میں شرکت کے لئے زور ڈالا تو عمران خان نے کہا کہ وہ آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت سے قبل وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف سے علیحدگی میں ملاقات کرنا چاہتے ہیں ۔ مسلم لیگ ن نے وسیع النظری کا ثبوت دیتے ہوئے مخالف پارٹی کے سربراہ کی یہ بات بھی مان لی کیونکہ انھیں علم تھا کہ عمران خان کو سابقہ آل پارٹیز کانفرنسز پر کافی تحفظات رہے ہیں اس لئے انھیں موقف پیش کرنے کا پورا موقع دینا چاہیے اور یہی جمہوریت کی صحیح روح ہے۔

آؒل پارٹیز کانفرنس سے صرف ایک گھنٹہ قبل وزیر اعظم نواز شریف ، چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی ، ،ڈی جی آئی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام عباسی، عمران خان اور وزیر اعلٰی پرویز خٹک کی علیحدگی میں ملاقات انتہا ئی اہم ہے ، اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت کی نظر میں تحریک انصاف کے موقف کا کتنا وزن ہے۔ ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبے میں اس وقت تحریک انصاف کی اتحادی حکومت قائم ہے اس لئے اسے ہی اس سلسلے میں سب سے زیادہ مسائل کا سامنا ہے، علیحدگی میں ہونے والی اس میٹنگ میں ان مسائل کو بھی یقیناً زیر بحث لایا جائے گا۔

آل پارٹیز کانفرنس سے قبل علیحدگی میں ہونے والی اس میٹنگ کے اثرات یقینی طورپر مثبت ہوں گے ۔ کیونکہ کانفرنس پر اثر انداز ہونے والی تمام اہم شخصیات اس میٹنگ میں شریک ہو رہی ہیں اور وہ دہشت گردی کے حوالے سے مذاکرات کے لئے کسی نہ کسی ایجنڈے پر پہنچ چکی ہوں گی ۔ مسلم لیگ ن کی طرف سے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک سے علیحدگی میں مشاورت کرنے سے تحریک انصاف کے قد کاٹھ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ باالخصوص دہشت گردی کے حوالے سے حکومت نے ان کے موقف کو غیر معمولی اہمیت دی ہے۔ اگر دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے کئے جانے والے اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو اس میں سب سے اہم مذاکرات ہی کا آپشن ہے جسے اس سے قبل پوری سنجیدگی سے نہیں لیا گیا ، مگر اس مرتبہ مذاکرات کے آپشن کو ہی سب سے زیادہ سنجیدگی سے اپنائے جانے کا امکان ہے اور بہت سے ماہرین اور تجزیہ کا روں کا یہی کہنا ہے کہ پاکستان میں جاری دہشت گردی کی لہر کو روکنے کے لئے مذاکرات بہترین آپشن ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔