پرامن انتقال اقتدار بھی جمہوریت کی فتح ہے

غلام محی الدین  اتوار 8 ستمبر 2013
 فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

اسلام آباد: آج نائن نائن 13 ہے اور ملک میں کچھ ہی گھنٹوں بعد پرامن انتقال اقتدار سے جمہوریت کی فتح کا علم بلند ہو جائے گا۔

جمہوری سفر کی حقیقیی نزاکتوں کو جاننے والے لوگوں نے اس دن کو پاکستان کی جمہوری تاریخ کا سنہرا دن کہا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ یہ امید کی پہلی کرن ہے اور اس کرن کا دورانیہ پانچ سال پر محیط ہونا چاہیے تاکہ وطن عزیز جمہوریت کے اصل ثمرات سمیٹ سکے۔

آج آصف علی زرداری اپنے آئینی عہدے کی مدت پوری کرنے کے بعد سابق صدر ہوجائیں گے اور ممنون حسین عام شہری سے عہدۂ صدارت پر فائز ہو جائیں گے۔ نئے صدر سے حلف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری لیں گے۔ نئے صدر جس سازگار جمہوری فضا میں اپنے عہدے پر براجمان ہونے والے ہیں، اس سے امید کی جانی چاہیے کہ وہ پانچ سال تک اسی عہدے پر برقرار رہیں گے تاکہ جمہوریت کی فتح کا یہ سفر اپنا مرحلہ بھی کام رانی سے طے کر سکے۔

جانے والے صدر آصف علی زرداری کے اعزاز میں جب وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے الوداعی دعوت دی اور پھر دونوں بڑوں نے اپنے تقاریر میں جو، جو کچھ کہا اسے سن کر اور پڑھ کے پہلی بار محسوس ہوا کہ سیاست میں بالغ النظری اور وسعت قلبی کیا شے ہوتی ہے۔ خداکرے یہ ہمیشہ قائم رہے مگر اس کے بعد ملک بھر میں جو بحث چھڑی ، اگر ہم اس کو بھی جمہوریت کاحسن اوراختلاف رائے کودوراندیشی کے تناظرمیںدیکھیںتو بہت سارے نزعی معاملات کو حل کرنے کاحکومت کوڈھنگ آ جائے گا۔

سابق ہونے والے صدر اور ان کے دور حکومت میں جہاں دس ہزار برائیاں اور قباحتیں تھیں تو وہاں چند ایک ایسی خوبیاں بھی تھیں جن کے باعث جمہوریت کے لُٹے ہوئے کاررواں، کو دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کا موقع ملا، خوبیوں اور خامیوں میں اترے بغیر اگر ہم یہ کہیں کہ دوسری جانب سے اُس وقت کی اپوزیشن نے طعنے برداشت کرکے جو کردار ادا کیا جس کو ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کا  نام دیا گیا، اُس کے ثمرات اب سامنے آ رہے ہیں، اگر موجودہ حکومت نے نالائقی کا مظاہرہ نہ کیا تو ان ثمرات سے ملک ترقی کی راہ پر گام زن ہو سکتا ہے۔ اِس خوش گمانی پر اس لیے بھی یقین کر لینا چاہیے کہ سابق ہونے والے صدر آصف علی زرداری نے بھی الوداعی دعوت کی تقریر میں واشگاف الفاظ میں یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ میاں نواز شریف کی حکومت کو گرنے نہیں دیں گے اور ترقی سے متعلق اقدامات پر حکومت کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ اب توقع ہی کی جا سکتی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی بھی اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ کر آئندہ پانچ سال کے لیے اپنے قائد کے فرمودات کی پاس داری کرے گی اور دوسری طرف حزب اقتدار بھی اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ لگانے کی بجائے خوش دلانہ اور فیاضانہ طریقے سے فراہم کیے جانے والے تعاون سے استفادہ کرتی رہے گی۔ اگر واقعی ایسے ہوا تو دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ملک کے مستقبل کو سنوارنے، قوم کو خوش حالی کی طرف لے جانے اور جمہوریت میں مزید استحکام پیدا کرنے کا ہدف حاصل کر لیں گی۔ شرط صرف ایک ہی ہے کہ دونوں اپنی اپنی بدنیتی کا قلع قمع کر دیں۔

آج کے بعد صدر مملکت کے عہدے پر فائز ہونے والے سید ممنون حسین کی قابلیت اور دور اندیشی کا بھی امتحان شروع ہو جائے گا، انہیں بھی چاہیے کہ وہ اپنے پیش رو کی غلطیوں سے اجتناب برتیں اور اچھائیوں کو آگے بڑھائیں۔ یہ کام ان کے لیے اِس لیے بھی زیادہ مشکل نہیں ہوگا کہ وہ سازگار ماحول میں اِس عہدے پر براجمان ہو رہے ہیں جب کہ ان کے پیش رو اِس عہدے پر جب فائز ہوئے تھے تو حالات آج کی نسبت بہت زیادہ پیچیدہ تھے۔

آج جب ممنون حسین اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیں گے تو حزب اقتدار کا آئینی ڈھانچہ مکمل ہو جائے گا اور یوں جمہوریت کی گاڑی اپنے نئے سفر پر گام زن ہو جائے گی۔ اس سفر میں نئے سے نئے چیلنج کا سامنا بہرحال موجود رہے گا، لیکن اِس حقیقت سے آنکھیں چرانا حزب اقتدار کے لیے اب ممکن نہیں کہ انتقال اقتدار کی راہ میں غیر مرئی قوتوں نے روڑے اٹکا دیے تھے۔ نئے صدر کے حلف اٹھانے کے ساتھ ہی نئی حکومت کو اب اپنے ’’ہنی مون پیریڈ‘‘ کے اختتام کا بھی اعلان کر دینا چاہیے تاکہ حزب اقتدار مختلف قسم کے حیلے بہانوں سے جان چھڑا کر پوری تن دہی کے ساتھ ملکی سلامتی کے لیے کام کا آغاز کر دے، یوں  بے مقصد جواز اُس کی کارکردگی کی راہ میں حائل نہ ہو سکیں گے۔ اس لیے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ آج 9 ستمبر کواصل کارکردگی کا امتحان شروع ہونے والا ہے جو اس امر کا متقاضی ہے کہ وہ ہر امتحان میں ’’اے پلس اے ‘‘گریڈ کے ساتھ مراحل طے کرے۔

انتخابی مرحلہ اختلافات اور تندو تیز  بیانات کی زد میں رہا تھا۔ اس وقت مبصرین نے یہ کہاتھا کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان پیدا ہونے وال یہ اختلاف آگے چل کر مزید سیاسی کشیدگی کا باعث بنے گا، لہٰذا قومی و سیاسی معاملات پر افہام و تفہیم سے کام لینے کی اشد ضرورت ہے۔ ملک کے پہلے تین صدور تھے اِسکندر مرزا، ایوب خان اور یحییٰ خان، ان تینوں کو بہ جا طور پر نہ تو تاریخ نے حْسنِ اخلاق سے یاد رکھا اور نہ ہی ان پر اچھا فیصلہ دیا ، ان کے بعد  ذوالفقار علی بھٹو صدر بنے جنہوں نے یحییٰ خان سے صدارت اپنے ہاتھوں میں لی۔ بلا شبہ وہ اس ملک کے ایک عظیم سیاست داں تھے لیکن افسوس کہ وہ ایسے رہ نما بھی تھے کہ جن کی خامیاں بعض مقامات پر ان کی خوبیوں پر حاوی ہوگئیں۔ جہاں تک صدارت کا تعلق ہے تو بھٹو وہ رہ نما تھے جنہوں نے سن اْنیّس سو تہتّر کے آئین کے تحت اسے موجودہ شکل و صورت عطا کی۔

بعض مورخین تجویز کرتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی نے فوجی آمر سے حاصل کیے گئے صدارتی نظام کی بعض حالتوں کو برقرار رکھنے کو ترجیح دینا چاہی تھی مگر اس تصور پر انہیں خاطر خواہ سیاسی حمایت حاصل نہ ہوسکی۔ یقینی طور پر رسمی صدر کی موجودگی مختصر مدت کے لیے صرف زندہ رہنے والا تصور تھا: فضل الہٰی چوہدری نے پانچ سال گذارے اور پھر ان کے بعد جنرل ضیا آگئے، اس کے ساتھ ہی انہوں نے وہ تمام اختیارات جو سن اْنیّس سو تہتر سے قبل صدر کو حاصل تھے، واپس لینے کا سلسلہ شروع کردیا۔ جناب چوہدری صاحب کے حوالے سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ وہ گم نام شخصیت تھے اور بے اختیار صدر ہونے پر ان کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ ضیا کے بعد سپر بیوروکریٹ غلام اسحاق خان کا دور شروع ہوتا ہے جو  محلاتی سازشوں کے فن میں ماہر تھے۔ ان کے بعد جو شخصیت اس منصب پر فائز ہوئی، وہ فاروق لغاری تھے، دونوں اٹھاون ٹو بی والے صدر تھے مگر یہ غیر فوجی صدور بھی تھے۔ اگلے صدر تھے رفیق تارڑ جو تیرھویں آئینی ترمیم کے تحت صدارت پر فائز ہوئے ، وہ بھی ایک  رسمی صدر کی علامت تھے۔

مشرف کی بغاوت کے بعد منصبِ صدارت میں ایک یو ٹرن آیا۔ مشرف  صدر بنے اور ایک بار پھر تمام اختیارات کا سرچشمہ ایوانِ صدر بن گیا۔ سن دو ہزار آٹھ کے انتخابات ہوئے تو آصف علی زرداری ایوانِ صدر پہنچے۔  انہوں نے کمالِ مہربانی سے کام لیتے ہوئے سن اْنیّس سو تہتر کے اصل آئین کے تحت تمام اختیارات پارلیمنٹ کو لوٹادیے۔ آج  ممنون حسین، ملک کے بارھویں صدرکے طور پر، رسمی علامت کے ساتھ ایوانِ صدر میں داخل ہورہے ہیں۔ سیاسی اور جمہوری تناظر میں دیکھیں تو چالیس برس پہلے کے مقابلے میں آج ملک زیادہ مستحکم ہے۔ شاید اگلے پانچ برسوں میں ملک میں جمہوریت مزید مستحکم ہو جائے اور غیر سیاسی صدر کی روایت بھی۔

ناقدین کے مطابق مسلم لیگ(ن) کو سادہ سا سیاست دان اور سادہ سا صدر چاہیے تھا جو انہیں مل گیا ۔ ایسا صدر جو اونچی خواہشات کا مالک  نہ ہو اور نہ ہی سیاسی خطر ے پیدا کرنے والا۔ آصف علی زرداری  نے نئے صدر کے انتخاب  کے بعد کہا تھا ’’جمہوری نظام میں اقتدار کی خوش گوار طریقے سے منتقلی کے ضمن میں  ایک اور اہم قدم اٹھا ہے، اور یہ جمہوریت کے لیے نیک شگون ہے، ہماری تمام کوششوں کا مقصد یہ ہی ہونا چاہیے کہ جمہوریت اور وفاق کو مضبوط بنایا جائے‘‘۔پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے بھی نو منتخب صدر کو مبارکباد دی تھی لیکن صدارتی انتخاب کے شیڈول کی تبدیلی پر اپنی تشویش کا بھی اظہار کیا تھا ۔ اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’صدر وفاق کی علامت ہوتا ہے، اور ہم امید کرتے ہیں کہ ممنون حسین اپنی سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری نبھائیں گے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔