موج بڑھے یا آندھی آئے‘ دیا جلائے رکھنا ہے

انوار فطرت  اتوار 8 ستمبر 2013
 الوداع آصف علی زرداری…خوش آمدید ممنون حسین فوٹو: اے ایف پی

الوداع آصف علی زرداری…خوش آمدید ممنون حسین فوٹو: اے ایف پی

جبرِناروا سے مفاہمت کے کرشمے:

’’مفاہمت کی سیاست‘‘ کے الفاظ خاصے عرصے تک آصف علی زرداری کے پانچ سالہ عہد صدارت کا عنوان بنے رہیں گے۔ ان پانچ برسوں کے دوران وہ بارہا نشیب میں گئے اور فراز پر بھی آئے۔ نشیب میں جاتے تو لگتا اب کی نہیں ابھریں گے  لیکن وہ حیرت انگیز طور پر اپنا مسکراتا چہرہ لیے ابھر آتے تھے۔ یہ ان کی مفاہمانہ پالیسی ہی کا کمال تھا کہ وہ ہر بار اسٹیبلشمنٹ کو رام کر لیا کرتے تھے، فوج اگرچہ کئی مواقع پر ان سے سخت ناخوش و بے زار بھی ہوئی لیکن وہ اپنی شیریں کلامی کے باعث حالات کی تلخی کو مات دے جاتے۔ ان کے عہد میں پیپلز پارٹی کی حکومت ڈانواڈول ہی رہی، ہر بار گھاگ تجزیہ کار ان کی حکومت کی رخصتی کا اعلان کرتے، کئی ستم ظریف تو روز و ماہ کی بھی فال برآمد کر لیتے تھے لیکن آصف زرداری ہر بار ان پر بھاری رہتے اور بڑے بڑے گراں بار دنوں سے گزر جاتے رہے۔

ہمارے ہاں اسٹیبلشمنٹ کے رویے بدقسمتی سے کبھی عوام نواز نہیں رہے، اسے منتخب حکومتوں سے ہمیشہ کد سی رہی ہے، وزیراعظم لیاقت علی خان سے لے کر آصف علی زرداری تک تاریخ میں جگہ جگہ اس کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حالیہ حکومت بھی اسی اسٹیبلشمنٹ کے جبر کا شکار رہی۔

ابھی حکومت کو آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی پورے نہ ہو پائے تھے کہ آئی ایس آئی کو وزارتِ داخلہ کے ماتحت کرنے کا شوشہ چھوڑ دیا گیا۔ یہ ادارہ قومی سلامتی کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ادارہ ہے، جب فوج کا سپریم کمانڈر سول صدر ہو سکتا ہے تو اس نوع کے ادارے کا سول حکومت کی ایک وزارت کی ماتحتی میں آنے سے گریز بل کہ مزاحمت، سول حکومت کی رٹ کو گویا چیلنج کرنا ہی قرار دیا جا سکتا ہے اور پھر یہ بات بھی اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ یہ ادارہ سیاسی اٹھا پٹک میں بھی کردار ادا کرتا رہا ہے۔ یوسف رضا گیلانی نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی اس حوالے سے ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا اس پر فوجی قیادت کی چتون پر میل آگئی اور اس نے اس معاملے میں اپنے اختلافات پر پردہ بھی نہیں ڈالا۔ اس موقع پر سیاسی مخالفین کی باچھیں کھل گئیں کہ گئی پیپلز پارٹی پہلے ہی قدموں پر، مگر ہوا یہ کہ آصف علی زرداری نے مفاہمانہ رویہ اپناتے ہوئے ’’پس پائی برائے فتح‘‘ کے عسکری اصول پر عمل کرتے ہوئے محاذ چھوڑ دیا۔ انہوں نے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ساتھ مل کر معاملات کو انتہائی عمدگی سے طے کر لیا۔ اس مفاہمت کا کریڈٹ جنرل صاحب کو بھی جاتا ہے کہ انہوں نے معاملے کو بہت دور نہیں جانے دیا۔

یہ گرد ابھی پوری طرح بیٹھی نہیں تھی، فضا کا تنائو ہر چند زائل ہو رہا تھا کہ یکایک باد مخالف پھر ایک بار سب کچھ تل پٹ کرنے پر تل گئی۔ یہ بادِ مخالف کیری لوگر بل کی صورت میں نمودار ہوئی۔ اس بل کی سب سے بڑی قباحت اس کی بعض شرائط تھیں، جن میں منتخب حکومت پر زور دیا گیا تھا کہ وہ فوج کو انگوٹھے تلے رکھے اور اس میں ہونے والی ترقیاں اور تقرر اپنے ہاتھ میں لے۔ ادھر فوج کا اپنا ایک اندرونی نظام ہے جس کے تحت وہ آغاز ہی سے تقرر اور ترقیوں کے معاملات سے خود ہی نمٹتی چلی آتی ہے، دوسرے الفاظ میں یہ عساکر پاکستان کی ایک روایت ہے۔ اس معاملے پر دونوں جانب ایک بار پھر ٹھن گئی۔ فوج اسے اپنے معاملات میں مداخلت قرار دے رہی تھی اور حکومت کو امریکا بہادر یہ سُجھا رہا تھا کہ ان معاملات پر دست رس سول حکومت  کا استحقاق ہے۔ یہ معاملہ آگ کی طرح بھڑکا۔ کور کمانڈرز نے فوری طور پر اپنی کانفرنس برپا کی اور کیری لوگر بل کے خوب لتے لیے۔ صاف انکار کر دیا گیا کہ اسے ہرگز تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ فوج کے تیور دیکھ کر تجزیہ کار ایک بار پھر حرکت میں آ گئے، کہا گیا کہ پچھلی بار تو بچ نکلی اب کی بار بے آب رو ہو گی لیکن آصف زرداری نے اس بار بھی کمال زیرکی کے ساتھ معاملے کو نمٹایا اور وہی حربہ کام یابی کے ساتھ آزمایا جو وہ پچھلی بار آزما چکے تھے اور یوں حکومت کے سر پر لٹکتی ہوئی تلوار ایک بار پھر ہٹ گئی اور تجزیہ کار اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔

خیال تھا کہ اب راہ ہم وار ہو چکی ہے اور گاڑی بہ خیر و عافیت جانب منزل رواں رہے گی لیکن قضا و قدر کو ایسا منظور نہ تھا۔ اسامہ بن لادن کی موت نے ایک بار پھر کھنڈت ڈال دی۔ امریکی طیارے آئے اور کہاں آئے؟ کاکول اکادمی کی بغل میں! اور اسامہ بن لادن کو نعش کی صورت ساتھ لے گئے۔ بڑی ہاہا کار مچی کہ یہ کیسے ممکن ہوا کہ اسامہ یہاں برسوں سے اقامت پذیر ہے اور ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں کالے چشمے لگائے گھومتی رہ گئیں۔ اسی دوران کہیں کسی امریکی روزنامے میں صدر زرداری کا ایک مضمون شائع ہو گیا، جس میں انہوں نے اسامہ بن لادن کے مارے جانے پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے۔ یہ مضمون دیکھ کر خاص طور پر آئی ایس آئی بہت ہی سیخ پا ہوئی۔ اب کی بار تو تحمل مزاج سپہ سالار بھی جزبز ہوئے کہ یہ کیا بات ہوئی، پارلیمان میں بھی خوب شور شرابا ہوا۔

یقیناً اتنی ساری ایجنسیوں کی کی موجودی میں اسامہ کے اتنے عرصے سے قیام کا پتا نہ چلنا پاکستان کی سبکی کا باعث بنا۔ غالب گمان یہ ہی تھا کہ یہ ایجنسیاں اور خصوصاً آئی ایس آئی اسامہ کی موجودی سے باخبر تھی جب کہ اُس کا موقف تھا کہ اسے اس کا علم نہ تھا۔ اب اندر کی بات تو خدا ہی بہتر جانتا ہے البتہ صدر صاحب کو شکایت تھی کہ انہیں اس سے باخبر کیوں نہیں رکھا گیا۔ نوبت سول حکومت اور فوج کے درمیان ’’بند کمرے کے اجلاس‘‘ تک پہنچی اور گرمی سردی اتنی بڑھی کہ جنرل پاشا نے اپنے عہدے سے دست برداری کی پیش کش کر دی۔ اس بار بھی وہی معمول کا شور، خوب دھول اڑی اور مخالفوں نے بغلیں بجائیں کہ لو بھئی رخصت ہی سمجھو، بس اب یا تب مارشل لاء لگنے ہی کو ہے، بوریا بستر سمٹا ہی چاہتا ہے لیکن اس بار بھی زرداری انتہائی حیران کن اور پراسرار طریقے سے مسکراتے ہوئے ابھرے۔

ابھی پیپلزپارٹی تھکن سے چور اپنے اعصاب سہلا ہی رہی تھی کہ امریکا میں متعین پاکستانی سفیر حسین حقانی نے نیا گل کھلا دیا۔ چہرے مہرے سے ذہانت ’’ٹپکانے والے‘‘ حقانی نے ایک میمو میں پاکستانی فوجی قیادت کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔ اسے ’’میمو سکینڈل‘‘ قرار دیا دیا جاتا ہے۔ فوج نے سیدھے سبھائو آصف علی زرداری کو اس میمو کا ذمہ دار قرار دے دیا کہ یہ ان ہی کے ایما پر لکھا گیا اور ان ہی کی اجازت سے امریکی قیادت کو بھیجا گیا ہے۔ کور کمانڈرز کے اجلاس میں بھی زرداری ہی کو میمو کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ یہ معاملہ عدالتِ عظمیٰ میں بھی بار پایا، اسے ملک و قوم کے مفادات کے منافی قرار دیا گیا، حسین حقانی بھی بلائے گئے اور وہ لشٹم پشٹم آئے بھی لیکن اس خوف سے کہ کہیں دھر نہ لیے جائیں، قصر صدارت سے ایک بار بھی برآمد نہ ہوئے۔ اس بار تو معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن کے انتہائی قریب جا لگے تھے۔ بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس موقع پر صدر سے مستعفی ہونے کو بھی کہا گیا تھا (واللہ اعلم)۔ زرداری صاحب ’’بیمار‘‘ پڑ گئے اور علاج کی غرض سے دبئی چل دیے۔ اس بار بھی اللہ جانے انہوں نے کیا کیا کہ معاملہ رفع دفع ہو گیا۔

اس سارے عرصے میں آصف علی زرداری کی ایک خوش بختی یہ رہی کہ ان کا پالا ہر بار جنرل اشفاق پرویز کیانی سے پڑتا رہا۔ جنرل صاحب کے مزاج پر بردباری کا پہلو زیادہ غالب ہے، وہ پیش رو جرنیلوں کے برعکس صورت احوال کو تحمل اور ٹھنڈے مزاج کے ساتھ لیتے ہیں اور اپنے فرض منصبی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں، خدانخواستہ وہ کسی موقع پر جرنیلی پر اتر آئے تو زرداری صاحب لاکھ مفاہمت پسند سہی، پہلے قدموں پر ہی مات کھا جاتے۔

کچھ روشن روشن پہلو بھی ہیں:

آصف علی زرداری کے دورِ حکومت میں جہاں بہت سی قباحتیں ہیں وہاں مروجہ ملکی سیاست و جمہوریت کے تناظر میں کچھ ایسے بھی کارنامے ہیں جنہیں بہ ہرحال یاد رکھا جائے گا۔ مثال کے طور پر سوات آپریشن ہی لے لیجیے۔ دہشت گردوں نے حکومت کی رٹ کو اس شدت کے ساتھ چیلنج کر دیا کہ لگا انہوں نے سوات پر قبضہ جما لیا ہے، یہ اندرونِ ملک ایک بڑی ہجرت کی تاریخ بھی بنتی ہے۔ اس موقع پر زرداری نے ہمت نہ ہاری اور فوج نے بھی بے مثال کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

اسی پنج سالے میں انہوں نے چین کے ساتھ تعلقات کو نئی جہتیں دیں۔ چین کے ساتھ تعلقات ہر چند ہمیشہ سے اچھے چلے آ رہے ہیں لیکن آصف علی زرداری نے ان میں اور زیادہ مضبوطی پیدا کی۔ گوادر کی بندرگاہ کا انصرام  پہلے سنگاپور کو دیا گیا تھا، آصف علی زرداری نے اسے وہاں سے واپس لے کر چین کے حوالے کر دیا عوام چوں کہ چین کے بارے میں بہت اچھی توقعات رکھتے ہیں لہٰذا ان کے اس عمل سے سیاسی سطح پر بھی انہیں فائدہ ہوا۔

ایک اور کام، جو ان کے لیے خطرناک بھی ہو سکتا تھا، وہ تھا ایران کے ساتھ تعلقات کی بہتر نوعیت۔ ان سے قبل ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات سردمہری کی  نذر ہو چکے تھے لیکن آصف علی زرداری نے ان تعلقات میں گرم جوشی پیدا کی، نہ صرف یہ بل کہ انہوں نے پاک ایران پائپ لائن کا تاریخی معاہدہ بھی کیا۔ اس سلسلے میں ان پر کافی دبائو تھا خاص طور پر پیرِاستعمار امریکا ہرگز نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان، تہران کے ساتھ کسی بھی قسم کے لین دین میں مصروف ہو۔ امریکا کے علاوہ عرب ممالک بھی ان پر دبائو ڈال رہے تھے لیکن انہوں نے کمال بصیرت کے ساتھ اس مشکل مرحلے کو بھی سر کیا۔

1973   کا آئین بھانت بھانت کے آمروں اور سول حکومتوں کے ہاتھوں اپنا اصل چہرہ گنوا بیٹھا تھا لیکن ان کے دورِ صدارت میں آئین کو اس کی اصل صورت لوٹائی گئی۔ اٹھارہویں، انیسویں اور بیسویں ترمیم منظور کرائی گئی۔ صدر نے اسمبلیاں توڑنے کے اختیارات خود پارلیمان کے حوالے کر دیے اور بے ضرر صدر بن گئے۔ ان ہی کے دور میں صوبائی خود مختیاریاں دی گئیں۔

زرمبادلہ کے ذخائر 2008 میں صرف 6 ارب ڈالر رہ گئے تھے جو ان کے دورانیے میں (2013 تک) 16 ارب ڈالر ہو گئے یعنی ان میں 10 ارب ڈالر کا اضافہ ہو گیا۔ اس طرح 2008  میں برآمدات کی مقدار 18 ارب ڈالر تھی جن میں گیارہ ارب ڈالر کا اضافہ (2012 تک) ہوا یعنی یہ برآمدات 29 ارب ڈالر تک جا پہنچیں۔

سود کی شرح ان کی حکومت سے پہلے 17 فی صد تھی اسے کم کرکے 9 فی صد پر لایا گیا۔ ایک بہت اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ گندم میں ان کے عہد میں ملک نہ صرف خود کفیل ہو گیا بل کہ اب گندم برآمد بھی کر رہا ہے۔ صوبوں میں وسائل کی تقسیم ایک خاصا الجھا ہوا مسئلہ تھا، یہ مسئلہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت ان ہی کے دور میں حل ہوا۔ گندم کی طرح چاول اور کپاس کی امدادی قیمتوں میں بھی خاطر اضافہ کیا گیا۔ توانائی کے بحران کے حوالے سے پیپلز پارٹی کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے تاہم حقیقت ہے کہ اسی دور میں 36 سو میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل کی گئی اور منگلہ و تربیلہ ڈیموں کی توسیع کا کام تکمیل پا گیا تو مزید 45 سو میگاواٹ بجلی سسٹم میں آ جائے گی۔ سابق ادوار میں ملازمتوں سے فارغ کیے گئے ہزارہا افراد کو بہ حال کیا گیا، کنٹریکٹ ملازمین کو بھی لاکھوں کی تعداد میں ریگولر کیا گیا۔ ایک اور بہت خاص کام ٹریڈ یونینوں پر پابندی کا خاتمہ ہے، 5 لاکھ صنعتی ملازمین کو سرکاری صنعتوں میں 12 فی صد حصص اور طبی و تعلیمی سہولتیں بھی دی گئیں۔ کسانوں کو سستے ٹریکٹر فراہم کیے، زرعی ٹیوب ویلوں پر بجلی کے نرخ کم کیے گئے۔ درآمدی ٹیکسوں میں کمی کی گئی جس سے پاکستان میں سرمایہ کاری کو کسی حد تک فروغ ملا۔ n

ہم کہاں کے دانا تھے …!!!

حکومت کوئی بھی آئے ہو نہیں سکتا کہ اس سے غلطیاں سرزد نہ ہوں، اسی طرح شخصیت کوئی بھی ہو لامحالہ اس سے کوتاہیاں ہوں گی، کبھی نادانستہ ہوں گی، کبھی اندازے تخمینے غلط پڑجائیں گے اور کبھی کبھی تجاہلِ عارفانہ سے بھی کام لیا جاتا ہے، پیپلز پارٹی کے اِس دور میں یہ تینوں پہلو رو بہ کا رہے۔ صدر آصف علی زرداری، محترمہ بے نظیر شہید کی زندگی ہی میں مسٹر ٹن پرسنٹ کے نام سے بدنام تھے، اسی لیے جب وہ صدارت پر براجمان ہوئے تو اکثریت کو بدمزگی ہوئی اور ان کے دور میں جس قدر بھی مالی بے ضابطگیاں اور بدعنوانیاں ہوئیں اس کے ڈانڈے کسی نہ کسی طور آصف علی زرداری سے ملائے جاتے رہے۔ آصف علی زرداری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ’’یارباش‘‘ بہت ہیں، دوستوں کو ان کی تمام تر برائیوں کے ساتھ قبول کرتے ہیں بل کہ وہ لوگ بھی ان کی نوازشات کی بارش میں بھیگتے رہے جو ان کی قید و بند کے دوران بہ ظاہر ان کا حال پوچھنے جایا کرتے تھے اور واپس آ کر بھانت بھانت کی خبریں پھیلایا کرتے تھے۔

آصف زرداری جب دوست نوازی پر آتے تھے تو ’’مانگ! کیا مانگتا ہے‘‘ جیسا قدیم بادشاہوں والا رویہ اپناتے ہیں، اسی لیے ان کے دور میں ایسے ایسے نااہل لوگ ایسی ایسی مسندوں پر براجمان ہوئے کہ لوگ انگشت بہ دنداں رہ گئے۔ ان کی اسی دوست نوازی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے وزراء بھی کھل کھیلے اور وہ لوگ جو ایک وقت میں اپنے بچوں کے تعلیمی مصارف نہیں اٹھا سکتے تھے، ایک وقت ایسا آیا کہ انہوں نے ایسے ایسے محلات تعمیر کرائے جن کی بائونڈری والز پر ہی آٹھ آٹھ کروڑ روپے خرچ کیے گئے، ’’ناکس‘‘ قسم کے چھٹ بھیوں کی پانچوں گھی اور سر کڑاہی میں رہے لیکن اس کے برعکس پیپلز پارٹی کے پرانے کارکن، جن کے لیے ’’جیالے‘‘ کی اصطلاح وجود میں آئی، ذلیل و خوار ہو گئے، بے نظیر شہید کے قریبی ساتھیوں کی ناراضیاں دور کرکے انہیں کبھی منانے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ پاکستان میں منہگائی اور بدعنوانی نئی بات نہیں ہے لیکن پیپلز پارٹی کے دور میں یہ درجۂ کمال پر پہنچیں۔ ڈالر لگام تڑوا تڑوا کر سرپٹ ہوا جاتا ہے۔

پی آئی اے ہو، سٹیل مل ہو، واپڈا ہو یا ریلوے، ماضی کے ان منافع بخش اداروں کا زوال بھی اسی دور میں اپنے عروج کو پہنچا۔ رشوتوں اور سفارشوں پر بھرتیوں کی بھرمار رہی۔ کراچی اس دور میں سب سے زیادہ لہولہان ہوا۔ اس سارے دورانیے میں کوئی اس کا پرسان حال نہیں رہا۔ مخلوط حکومت کے باعث پیپلز پارٹی کی اپنی مجبوریاں تھیں۔ اب بہت واضح طور پر کہا جا رہا ہے کہ کراچی کو ان حالوں تک پہنچانے والے سماج دشمن ایم کیو ایم، اے این پی اور پی پی پی میں سے کسی ایک کے تعلق دار ضرور ہوتے ہیں۔ بھتا خوری نے اسی دور میں باقاعدہ صنعت کی حیثیت اختیار کر لی، ٹارگٹ کلرز نے ہزارہا افراد کو ان پانچ برسوں میں موت کے گھاٹ اتارا، اغوا برائے تاوان کی وارداتیں پہلے بھی ہوتی تھیں لیکن اس کاروبار نے بھی اسی دور میں کمال پایا۔ بنکوں کو لوٹنے کی وارداتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا اور بدترین کام یہ ہوا کہ کراچی کی پولیس میں ہزاروں جرائم پیشہ افراد کو بھرتی کیا گیا جو اس عروس البلاد میں جرائم کو خود پروان چڑھا رہے ہیں۔

سیاسی سطح پر سب سے بڑی غلطی پنجاب میں گورنر راج کا نفاذ تھا جو ہر چند مختصر تھا تاہم پیپلز پارٹی کے ماتھے کو داغ دار کرنے کو بہ ہرحال کافی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔