حادثوں کی پیداوار

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 30 جون 2019
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

والیٹر نے کہا تھا ’’ میں جب ارسٹوفینیزکے طربیہ ڈرامے پڑھتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے میں ڈرامے نہیں، اس زمانے کا اخبار پڑھ رہا ہوں جس میں ایتھنزکے حالات بڑی تفصیل کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں‘‘ والیٹرکی ارسٹو فینیز کے بارے میں یہ رائے بالکل درست تھی۔

آپ اس کے ڈرامے اٹھا کر دیکھ لیں تو آپ کو ایسا آئینہ دکھائی دے گا ، جس میں اس عہد کا ایتھنز چلتا پھرتا نظر آئے گا، اس دورکے سیاست دان ، ٹیکس کے بوجھ تلے دکان دار، آسمانی فلسفے پر یقین رکھنے والے لوگ، سقراط ، اس کے شاگر د، جنس زدہ لوگ ، عورتوں کا احتجاج ، مذہب کے خلاف احتجاج کرنے والے ان کا راستہ روکنے والے ، عورتوں کے رسیا ، یہ ہی وہ سب کردار ہیں جو ارسٹو فینیز کے ڈراموں کو اپنے افعال اور مکالموں سے سنوارتے ہیں آج آپ بھی جب ان ڈراموں کو پڑھیں گے تو آپ بھی یہ کہنے پر مجبورہوجائیں گے کہ میں ارسٹوفینیزکے ڈرامے نہیں بلکہ آج کا پاکستان کاکوئی اخبار پڑھ رہا ہوں ، جس میں پاکستان کے حالات بڑی تفصیل کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں۔

آپ کو ان ڈراموں میں آج کا پاکستان چلتا پھرتا دکھائی دے گا۔آپ اس کے ایک ڈرامے Wasps کا آغاز دیکھیے وہ کس انداز سے ایتھنزکے شہریوں کو ان کی کمزوریوں اور خامیوں سے آگا ہ کرتا ہے۔ ارسٹو فینیز کے زمانے میں فنکار ڈراما دیکھنے والے لوگوں سے آگاہ ہوتے تھے آبادی کم ہونے کے سبب وہ لوگوں کے ناموں اور ان کے شجرہ نسب سے بھی واقف ہوتے تھے۔ Wasps کاآغاز دو نوکروں کی بات چیت سے ہوتا ہے، دونوں اپنے آقا کی خامیوں اورکمزوریوں کے بارے میں بات چیت کررہے ہیں۔

پہلا نوکر۔’’ہمارے آقا کو ایک عجیب و غریب بیماری لگ گئی ہے۔‘‘دوسرا نوکر ۔ ’’کونسی بیماری ہے وہ‘‘ پہلا نوکر۔ ’’اس کا کسی کونہیں پتہ تم ہی بتائو ۔‘‘ دوسرا نوکر۔ تماشائیوں کی طرف دیکھ کر کہتا ہے ’’سامنے Pronapes کا بیٹا بیٹھا ہے کہہ رہا ہے اسے جوا کھیلنے کی بیماری لگ گئی ہے۔‘‘پہلا نوکر۔’’ وہ دیکھو Sosias بیٹھا ہے، اس کا خیال ہے ، ہمارا مالک شراب پینے کا عادی ہوگیا ہے۔‘‘ دوسرا نوکر ۔’’ وہ یہ اپنی بیماری اور عادت بتلا رہا ہے۔‘‘

اور پھر اسی طرح وہ لوگوں کو ان کی عادات و خصائل بتلاتے ہیں جب ڈرامہ ختم ہوتا ہے، دوسرے شوکے تماشائی آتے ہیں تو ڈرامے کے کردار انھیں دیکھ کر نام بدلتے رہتے ہیں اور ان کی کمزوریاں بتلا تے رہتے ہیں اور اس طرح پورے ایتھنزکے لوگوں کی کمزوریاں سامنے آجاتی ہے سیاسی شخصیتوں اور عبادت گاہوں کے مجاوروں پر ذرا اس کا طنز دیکھیں۔ ڈرامے کا نام Plutus ہے ڈرامے میں دکھایاگیا ہے کہ ایک نابینا آدمی جا رہا ہے،ایک ادھیڑ آدمی اور اس کا نوکر اس کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں نوکر اپنے آقا سے پوچھتا ہے کہ ’’ہم ایک اندھے آدمی کا پیچھا کیوں کر رہے ہیں‘‘ آقا۔ ’’تم میرے غلاموں میں سب سے ذہین ہو اور سب سے اچھے چور بھی ہومیں ہمیشہ سے ایک مذہبی آدمی رہا ہوں اور ہمیشہ سے مفلس اور غریب ہوں ‘‘ غلام۔ ’’ہاں ایسا ہی ہے آقا ۔جب کہ عبادت گاہوں کے پجاری ، ڈاکو اور سیاست میں شامل چور ہمیشہ دولت مند اور امیر رہے ہیں۔‘‘

یہ ہی غلام ڈرامے میں آگے چل کر ایک سیاست دان سے ملتا ہے اوراس سے پوچھتا ہے غلام ۔ ’’ تم اچھے آدمی ہوکیا تم محب وطن ہو۔‘‘ سیاست دان ۔ ’’ ہاں اگر اس کاکوئی وجود ہے‘‘ غلام۔ ’’ تو پھر تم کسان ہو،کھیتی باڑی کرتے ہو۔‘‘ سیاست دان ۔’’ میں پاگل نہیں ہوں کہ یہ کام کروں۔‘‘ غلام۔ ’’ تو پھر تم ضرور تجارت کرتے ہو تاجر ہو۔‘‘ سیاست دان ۔ ’’کبھی تجارت کرتا تھا ، مگر اب نہیں‘‘ غلام ۔’’ تو پھر تم کیا کاروبارکرتے ہو۔‘‘ سیاست دان ۔ ’’ کوئی کام نہیں کرتا۔‘‘ غلام۔’’ تو پھرگذارا کیسے ہوتاہے۔‘‘ سیاست دان ۔’’ اس کا جواب یہ ہے کہ میں حکومت میں سپر وائز جنرل ہوں میں نجی اور عوامی اداروں کی دیکھ بھال کر تاہوں‘‘ غلام۔’’ واہ ، واہ ، بڑا عہدہ ہے، اس عہدے کو حاصل کرنے کے تم اہل ہو؟‘‘ سیاست دان۔ ’’ بالکل نہیں ، میں نے چاہا اوریہ مجھے مل گیا۔‘‘

پاکستان دنیاکا وہ واحد ملک ہے ، جہاں مقتول کا فیصلہ ، قاتل عورت کا فیصلہ ، مرد بچے کا فیصلہ ، بڑا محکوم کا فیصلہ حاکم مظلوم کا فیصلہ ، ظالم اور بائیس کروڑ عوام کا فیصلہ، نااہل اورکر پٹ حکمران کرتے ہیں۔ آپ کو پاکستان میں چند کو چھوڑ کر باقی سب کے سب حادثاتی یا اتفاقی طور پر اعلیٰ عہدوں اور رتبوں پر بیٹھے ہوئے نظر آئیں گے وہ حضرات فیصلے بھی کررہے ہونگے ملک وقوم کے بارے میں سوچ وبچارکا کام بھی کررہے ہوں گے ۔ قانون سازی کے عمل میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہونگے ۔اگر ان تمام حضرات کی قابلیت ، اہلیت اور شرافت کا کسی بھی بین الاقوامی ماہرین سے ٹیسٹ کروا لیاجائے تو ٹیسٹ لینے والے غیر ملکی ماہرین اپنے ہوش و حواس کھوبیٹھیں گے اور پھرکسی بھی کام کے لائق نہیں رہیں گے اور ساری زندگی ان کے گھروالے آپ کوکوستے رہیں گے جتنی بھی بد دعائیں دے سکتے ہیں دیتے رہیں گے۔

ایک چھوٹا سا تجربہ آپ بھی کرکے دیکھ سکتے ہیں، کسی روز آپ اپنے آپ کو ایک کمرے میں بند کرلیں اور تمام گھر والوں کو ہدایات جاری کردیں کہ کوئی بھی ڈسٹرب نہ کرے ۔ پھر آپ تمام ملک کی اعلیٰ شخصیات کا ایک ایک کرکے احتساب کرنا شروع کر دیں اور پھر گھنٹوں بعد آپ کا بھی وہ ہی حشر نشر ہو جائے گا جو غیر ملکی ماہرین کا ہوگا۔ اب اس صورتحال پر اپنا سر نہ پیٹا جائے توکیا کیاجائے۔ ہمارے نااہل اورکرپٹ سیاست دانوں ، جاگیرداروں ، سرمایہ داروں ، نام نہاد ملائوں، راشی اعلیٰ افسران نے اس ملک کو مال غنیمت سمجھ رکھاہے لوٹ مارکا مال سمجھ رکھا ہے جس کی جب مرضی آتی ہے اور دل چاہتاہے، لوٹتا ہے، بربادکرتا ہے اور مزے سے ساری زندگی عیش وعشرت سے گذارتا ہے۔

ان تمام حضرات کے ابتدائی معاشی حالات کو ٹٹول لیں اور ان کے موجودہ معاشی حالات کو دیکھ لیں زمین اور آسمان سے زیادہ فرق آپ کو ملے گا۔ حلال کی آمدنی سے محلات ، ملیں ، جاگیریں ،کبھی نہیں بنتی ہیں ۔ ملک سے باہر ممالک میں گھر اور بینک بیلنس نہیں بنتے ہیں ۔ مشتاق احمد یوسفی نے کیاخو ب کہا ہے ’’ میرا خیال ہے کہ حالت حاضرہ پر تبصرہ کرتے وقت جو شخص اپنے بلڈ پریشر اورگالی پر قابو رکھ سکے وہ یا تو ولی اللہ ہے یا پھر خود حالات کا ذمے دار ہے‘‘ مزے کی بات یہ ہے کہ ان حضرات کا یہ کہنا یہ سب ہمارے آبائو اجداد اور بزرگوں کی چھوڑی ہوئی نشانیاں ہیں۔ معاف کیجیے گا، جناب عالیٰ یہ راگ بہت پرانا ہے جو ہم ہر راشی اورکرپٹ سے برسوں سے سنتے آرہے ہیں ۔

ہمیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ انگریزوں نے جائیدادیں ، سر اور خان بہادرکے خطابات اپنوں کی مخبروں پر، ان کی خوشامد ، خدمات اور جی حضوری پر خیرات میں بانٹی تھیں اور رہی بات نو دولتوں کی تو ان کے کرتوت اور حرکات پر تو بات کرنا ہی شرمناک ہے۔اس ساری صورتحال کو بغور دیکھنے والے اور اس پر غورو فکر کرنے والے اگر اپنا ہوش وحواس کھوبیٹھتے ہیں تو اس پر حیران و پریشان ہونے کی کیا بات ہے؟ لہذا جو حضرات اس کے باوجود ابھی تک اپنا ذہنی توازن برقرار رکھے ہوئے ہیں اور ان کا شعور اور ضمیر ابھی تک زندہ ہے تو وہ اٹھتے بیٹھتے ہر وقت خدا کا شکر ادا کرتے رہیں ۔ ہماری دعا ہے خدا باقیوں کو اپنی امان و حفاظت میں رکھے ذہنی طورپر بھی اور جسمانی طورپر بھی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔