میثاق معیشت

جاوید قاضی  اتوار 30 جون 2019
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

کبھی کبھی ہمارے اپنے بنائے بیانیے وبال جان بن جاتے ہیں،کیونکہ یہ بیانیے ہماری قومی روح کے عکاس بن جاتے ہیں۔ ہم اس بیانیہ کو بصیرت کے تناظر میں پرکھتے ہیں ،اسے حقیقت سمجھتے ہیں۔

ہمیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ معیشت کس طرح پروان چڑھتی ہے یا سیاست کس طریقے سے مثبت ہوسکتی ہے یا ہمارا سیاسی بیانیہ یا بنائی ہوئی نظریاتی حیثیت کس طرح معیشت کو بنا بھی سکتی ہے اور بگاڑ بھی سکتی ہے۔ معیشت ہی دراصل ہمارے گرد تمام حقائق میں سب سے اہم ومعنی خیز حقیقت ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے لے کرکئی طرح کے سروسزسیکٹر میں نئے نئے اضافے اور جدید تبدیلیاں ہورہی ہیں،نئے نئے ہنر ایجاد ہوئے ہیں۔ مگر ہمارا اب بھی اہم ذریعہ پسماندہ طریقہ کی پیداوار والی زراعت ہے جو سب سے زیادہ روزگار دیتی ہے۔

ہماری صنعت بیٹھ گئی ہے رواں سال میں تو اس کی کارکردگی منفی رہی اور اس کے بعد زراعت بھی دوسرے نمبر پر بد حال رہی۔ ادھر ہمارے اخراجات زیادہ اور آمدنی کم ہے۔ ہم نے یہ خلاء قرضے لے کر بھرا ۔  ہم انسانی وسیلوں کی ترقی نہیں کرسکے، ہمیں ترقی کا اصل مغز سمجھ میں نہیں آیا۔ ہم نے موٹر وے اور ایئرپورٹ بنانے کو ترقی سمجھا۔ اسپتال اور اسکول گئے بھاڑ میں، آج سندھ سے زیادہ تو سائوتھ پنجاب میں ایچ آئی وی پلس کے ستائے ہوئے نکل رہے ہیں یہ وہی بیانیہ ہے۔ پیروں، وڈیروں والا بیانیہ ،کاروکاری، ستی کا بیانیہ۔ ہمیں جہادی چاہیے تھے، ہم نے بیانیہ بھی ایسا بنایا۔

ہمارا تیسرا اور سب سے اہم ستون ہے کہ ہم درآمدات کتنی اور برآمدات کتنی بڑھاتے ہیں اور یہ دونوں کام روپے میں نہیں ڈالر میں کیے جاتے ہیں۔ ہم برآمدکم اور درآمد زیادہ کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں قرضہ ڈالر میں لینا پڑتا ہے اور اب یہ قصہ کچھ اس طرح ہوگیا ہے کہ ہمیں قرضہ اتارنے کے لیے قرضہ لینا پڑ رہا ہے۔ روپے کا قرضہ روپے لے کر اور ڈالرکا قرضہ ڈالر لے کر اتارتے ہیں۔ روپے کے نوٹ ہم چھاپ سکتے ہیں اور ہم نے روپے کا قرضہ اس طرح  روپے میں اتارا۔ ڈالر ہم نہیں چھاپ سکتے۔ ہم روپے کا قرضہ ٹیکس لے کر بھی اتارتے ہیں مگر ہمارا ٹیکس نظام امیروں سے ٹیکس لینے میں بالکل ناکام گیا ہے، جب کہ غریبوں پر ٹیکس یا دوسرے الفاظ میں ان ڈائریکٹ ٹیکس لگا کرکام چلائے جاتے ہیں۔غریبوں کے پاس جوکچھ بچتا ہے وہ ہم ان ڈائریکٹ ٹیکسز لگاکر ان سے چھین لیتے ہیں۔

جس طرح حادثے اچانک جنم نہیں لیتے،اسی طرح معاشی بحران بھی ہمارے سامنے اچانک کھڑے نہیں ہوجاتے ہیں۔ یونان جب یورپی یونین کا ممبر بنا تو اسے بہت سے قرض یورو میں ملنے لگے اور بہت سستے دام پر یونان قرضے لیتا گیا۔خصوصا فرانس اور جرمنی کے بینک ان کو قرض دیتے گئے۔ یونان کے شرفاء یہ سستے دام پر ملنے والے قرض کھپاتے گئے اور پھر یونان کے بینک دیوالیہ ہونے لگے۔ یونان ڈیفالٹ کرگیا اورجس کی وجہ سے  فرانس اور جرمنی کے بینکوں کے لیے بھی مسائل پیدا ہوئے۔ ان کے قرض Reschedule کیے گئے۔ یونان کے بینکوں نے بھاری رقم نکالنے پر پابندی عائدکردی اور اس طرح ’’اعتماد‘‘ بھسم ہوکر گر پڑا۔ یہ معیشت بیچاری ’’اعتماد‘‘ پرچلتی ہے۔ میں مزدوری کر رہا ہوں اس یقین پرکہ مجھے اجرت ملے گی۔ میں نے مکان کرایے پر دیا ہے اور مجھے اس کا کرایہ ملے گا اورمعیشت کے محور پے رہتا ہے Contract۔

ہم روزمرہ کی زندگی میں پچاسوں Contract  تحریری کرتے رہتے ہیں ۔ ہمارا ہر خرید اور فروخت خود ایکContract  ہی ہوتا ہے اور پھر اسی طرح یہ سارے کانٹریکٹ ٹوٹنا شروع ہوجاتے ہیں۔ میں نے ایک پچاس لاکھ کا بیانیہ دے کر پانچ کروڑکا گھرخریدا کہ باقی رقم دو مہینے کے بعد ادا کروں گا۔روپے کی قدر اتنی گرگئی کہ ان دو مہینوں میں حقیقی قیمت وہ نہ رہی۔ معاہدہ ٹوٹ گیا اور میرے پچاس لاکھ ڈوب گئے۔ لوگ بے روزگار ہوتے ہیں۔افراط زرمیں پے در پے اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اس پوری جنگ میں امیروں کے کاروبار ٹوٹتے  ہیں جب کہ غریبوں کے گھر میں فاقے بسیرا کرنے لگتے ہیں۔

اس سارے تناظر میں اب ایک نئی طرح کی بازگشت سننے میں آئی کہ میثاق معیشت ہونا چاہیے۔اس کے پیچھے بھی ایک تاریخ ہے۔ جب مدینہ میں میثاق جمہوریت ہوا تھا، دوگروہوں کے درمیان کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہوں گے اور جمہوریت پرکوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، جب کہ ہمارے پاس آج یہ تیسرا دور ہے کہ جمہوریت اب بھی پٹڑی پر ہے۔اب کی بار میثاق معیشت کے معنی یہ ہیں کہ سب کے سب سرجوڑکے بیٹھیں کہ آخر اس ملک کو اس معاشی بحران سے نکالاجائے اور اس کے لیے ایک متفقہ حکمت عملی بنائی جائے۔

ہم جس موڑ پر آج پہنچے ہیں، یہ حالات عمران خان یا اس کی حکومت نے پیدا نہیںکیے،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خان صاحب کی سمجھ سے بہت بڑا بحران ہماری دہلیز پر آن کھڑا ہے۔ یہ وہ بحران ہے جو اکیلے حکومت سے حل نہیں ہوگا۔اس بحران کو مل کر حل کرنے کے لیے سب کو آن بورڈ ہونا ہوگا۔

یہ تمام بحران حل طلب ہیں، ہماری برآمدات اور درآمدات میں جو عدم توازن ہے وہ کم ہورہا ہے۔ہمارے اخراجات اگرکم نہیں ہورہے لیکن ہماری محصولات بڑھیں گی۔اب ٹیکس نظام میں انقلابی تبدیلی آرہی ہے۔ ہم اپنے نان ڈاکومینٹیڈ معیشت کو ڈاکیومینٹیڈ کرتے جائیں گے۔ ہمارے اندرونی قرضے بھی اتنا بڑا مسئلہ نہیں مگر ہم نے جو قرضے ڈالر میں اتارنے ہیں وہ کیسے اتاریں، اتنا ڈالرکہاں سے لائیں؟

مجھے یاد ہے میاں صاحب نے اپنے پہلے دور میں ’’قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ کا نعرہ لگایا مگر وہ سب نعرے ہی تھے۔ دوسرے دور میں ڈالر اکائونٹ مجمند کرنا پڑگئے  مگر اس اقدام سے غریب طبقے پر اثرات کم ہوئے تھے۔ پھر تیسرے دور میں ڈالر میں جتنے قرضے لیے گئے،اس کی بھی کوئی مثال نہیں۔کہاں گیا game changer  والا vision  جو احسن اقبال کی کپتانی میں ہورہا تھا۔

جی ہاں قرضے لے کر ترقی ہوسکتی ہے مگر اپنے بینکوں اور روپے میں قرضے لے کر۔ ڈالر میں بھی قرضے لیے جاسکتے ہیں اگر آپ کے پاس ایک دو سال کے امپورٹ بل ادا کرنے جتنے بیرونی ذخائر ہوں۔کوئی بھی واضح تشریح نہیں میثاق معیشت کی اب تک۔ جب فوج کے پیسے اس مرتبہ نہیں بڑھے، یہ ان کی طرف سے میثاق جمہوریت ہے،اس طرح سے اپوزیشن کا کوئی بھی کردار نہیں کہ وہ اس میں کیا کرسکتے ہیں کیونکہ ان کو بجٹ میں سے کچھ نہیں ملتا۔ وہ میثاق معیشت میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ سب لوگ اپنے اثاثے ظاہرکریں اور ٹیکس دیں، مگر اس سے ڈالر تو نہیں آئے گا۔ ڈالر آئے گا ایکسپورٹ سے اور ہماری قوم بائیس کروڑ ہے۔ اتنی بد ترین ایکسپورٹ دنیا میں کسی کی بھی نہیں ہوگی،اتنی آبادی کے تناسب سے۔ ہماری ایکسپورٹ کا براہ راست تعلق ہے انسانی وسیلوں کی ترقی سے، ہنر سے اور ہم نے ان لوگوں کے ہنرکے لیے اس قوم کو مدرسوں کے چکر میں لگا دیا۔ یہ ہمارا بیانیہ تھا ۔ ہمیں کسی اور نے نہیں بلکہ اپنے بیانیہ نے مارا ہے۔

ایک صحت مند پاکستان کے لیے میثاق معیشت ضروری ہے اور اس میثاق معیشت کی بنیاد ایک یہ بھی ہونی چاہیے کہ اس بیانیے کو اب بندکیا جائے جس سے معیشت متاثر ہو۔ ہماری صحت مند انسانی اور مثبت سوچ رکھنے والا skilled آدمی ہمارے ڈالرکمانے کی ضمانت ہے اور یہی ہے پاکستان اور اس کی میثاق معیشت ۔ ہم اپنے ہنرسے، اپنے  skills سے، بہترین انسانی وسیلوں سے صحت مند ومثبت بیانیہ والے پاکستانی شہری کے بل بوتے پر ڈالر کمائیں گے۔ عزت والا ڈالر۔ نہ کہ وہ ڈالر جو افغان جہاد کے لیے ملا تھا،اسی ڈالر نے ہمیں اس منزل پر پہنچایا۔اْسی ڈالر پر پنپ کے اس اشرافیہ نے یہ پاکستان بنایا ہے۔ ہم  اپنی تاریخ پر پہرے نہیں بٹھا سکتے۔ ہمیں حقیقی پاکستان اور حقیقت سے ملنا ہوگا، میثاق جمہوریت کی خاطر، میثاق معیشت کی خاطر۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔