بچوں میں دماغی رسولیوں کی تشخیص کا نیا اور کم خرچ شناختی نظام

ویب ڈیسک  پير 1 جولائی 2019
برازیلی ماہرین نے نہایت کم خرچ نظام بنایا ہے جو بچوں اور نوعمروں میں میڈیولوبلاسٹوما کی چار مختلف اقسام کی شناخت میں مدد دیتا ہے۔ اسی بنا پر ڈاکٹر طریقہ علاج اختیار کرتے ہیں۔ فوٹو: وکی میڈیا

برازیلی ماہرین نے نہایت کم خرچ نظام بنایا ہے جو بچوں اور نوعمروں میں میڈیولوبلاسٹوما کی چار مختلف اقسام کی شناخت میں مدد دیتا ہے۔ اسی بنا پر ڈاکٹر طریقہ علاج اختیار کرتے ہیں۔ فوٹو: وکی میڈیا

ساؤ پالو: کینسر کی ایک ہی بیماری کے کئی رخ ہوتے ہیں اور اسی طرح بچوں کے دماغ میں بننے والی سرطانی رسولیوں کو کئی اقسام میں بانٹا جاسکتا ہے۔ اب برازیل کے ماہرین نے سستا اور قابلِ اعتبار طریقہ وضع کیا ہے جس کے تحت معالجین کو مختلف سرطانی رسولیوں کی شناخت و علاج میں بہت آسانی ہوسکتی ہے۔

یونیورسٹی آف ساؤ پاؤلو کے میڈیکل اسکول سے وابستہ ماہرِ جینیات گسٹافو ایلن کاسٹرو کروزیرو کہتے ہیں کہ ان کا بنایا ہوا طریقہ کم خرچ اور تیزرفتار ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں رسولی کی شناخت کے ٹیسٹ پر 60 ڈالر خرچ ہوتے ہیں اور ان کا ٹیسٹ صرف 26 ڈالر میں یہی کام کرتا ہے۔

میڈیولوبلاسٹوما کی سرطانی رسولی پورے مرکزی نروس سسٹم کو متاثر کرتی ہے اور دو لاکھ میں سے ایک بچہ اس کا شکار ہوسکتا ہے۔ بچوں میں رسولیوں کی 20 فیصد تعداد کا تعلق اسی قسم کے کینسر سے ہوتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق کیمیائی اور سالماتی (مالیکیولر) بنیاد پر اس کی چار ذیلی اقسام ہیں جو مریضوں میں عین انہی کیفیات کے تحت علاج میں مدد دیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر رسولی پر ایک ہی طریقہ علاج کارگرنہیں ہوتا۔

تاہم غریب اور متوسط آمدنی والے ممالک میں نہ ہی جدید سہولیات ہیں اور نہ ہی مریضوں میں اتنی سکت کہ وہ سالماتی اور جینیاتی ٹیسٹ کراسکیں۔

پہلے ماہرین نے بچوں سے لے کر 24 سال تک کے نوجوانوں سے حاصل شدہ رسولیوں کے 92 منجمند نمونے لیے اور ہر نمونے کے رائبو نیوکلیئک ایسڈ (آراین اے ) الگ کیا اور اسے ایک مستحکم (اسٹیبل) کمپلیمنٹری ڈی این اے (سی ڈی این اے ) میں تبدیل کیا۔ یہ عمل پی سی آر کی مدد سے کیا گیا۔

اس سے معلوم ہوا کہ  20 جین ایسے ہیں جو میڈیولوبلاسٹوما کی چاروں اقسام میں پائے جاتے ہیں۔ اگلے مرحلے میں ماہرین نے بایو انفارمیٹکس اور کمپیوٹر الگورتھم استعمال کیا جس نے اندازہ لگایا کہ سرطان کی ایک قسم سے دوسری قسم کو الگ کرنے کے لیے کم سے کم جین کی تعداد کتنی ہونی چاہیے۔

اس طرح بہت درستگی کے ساتھ بہت آسانی سے چاروں قسم کے سرطان کی شناخت کی جاسکتی ہے جس میں غلطی کا تناسب بھی بہت کم ہوتا ہے۔

بچوں میں رسولی کے بین الاقوامی ماہرین نے اس کاوش کو سراہا ہے۔ اگلے مرحلے میں اس پورے نظام کو ایک چھوٹے آلے میں سمونے کی کوشش کی جارہی ہے جس کے لیے سرمایہ کار تلاش کئے جارہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔