مسائل کی نشاندہی کرنے پر صحافیوں کو درپیش خطرات

کامران سرور  پير 1 جولائی 2019
پاکستان میں اب تک صرف 5 صحافیوں کے کیسز کی تحقیقات مکمل ہوئیں اور ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔

پاکستان میں اب تک صرف 5 صحافیوں کے کیسز کی تحقیقات مکمل ہوئیں اور ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔

رائے عامہ کی تشکیل میں صحافت کے کردار اور اثر پذیری سے انکار ممکن نہیں ہے اور یہی چیز سیاسی، مذہبی، معاشی اور سماجی گروہوں اور تحریکوں کو صحافت کو بطور پراپیگنڈہ استعمال کرنے کی جانب راغب کرتی ہے اور کبھی کبھار کئی صورتوں میں بعض طاقتور گروہ اور تحریکیں مرکزی دھارے کی صحافت پر حاوی ہوکر صحافتی اقدار اور اصول کر پس پشت ڈالر کر مانی مانی خبروں کا مطالبہ کرتے ہیں، صحافیوں کو پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران نہ صرف غیر ریاستی عناصر بلکہ ریاستی اداروں کی جانب سے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ صحافیوں کا کام شہریوں کو باخبر رکھنا ہے تاکہ وہ اپنی نجی و سماجی زندگی میں بہتر فیصلے کرسکیں اور پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19 میں بھی معلومات تک رسائی کو ہر شہری کا قانونی حق قرار دیا ہے لیکن اس کے باوجود آزادی اظہار ایک خواب ہی دکھائی دیتا ہے اور عوام تک خبر پہنچانے کی پاداش میں اب تک سیکڑوں صحافی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیم پاکستان پریس فاؤنڈیشن کے ریکارڈ کے مطابق عالمی درجہ بندی میں پاکستان اس وقت آزادی صحافت کی فہرست میں 142ویں نمبر پر موجود ہے اور 2002 سے لے کر 2019 تک صحافیوں پر تشدد کے 699 واقعات ریکارڈ ہوئے۔ پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران 72 صحافیوں کا قتل ہوا جس میں 48 صحافیوں کو خبر دینے کی پاداش میں جب کہ دیگر 24 صحافیوں کو بھی دوران ڈیوٹی دیگر وجوہات کی بنا پر قتل کیا گیا اور گزشتہ سال بھی 6 صحافیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

روزانہ کی بنیاد پر ملک بھر سے صحافیوں کے قتل، اغوا، تشدد یا انہیں ہراساں کیے جانے کی خبریں آنا اب معمول کی بات ہوگئی ہے۔ صحافیوں پر ہونے والے پرتشدد واقعات کے حوالے سے پاکستان پریس فریڈیم کی رپورٹ کا جائزہ لیا جائے تو      02-2001 میں کل 13 واقعات سامنے آئے لیکن 2014 سے 2016 تک ان واقعات میں خوفناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا اور یہ تعداد 95 تک جا پہنچی یعنی 12 سال کے دوران اگر ہم اوسطاً ان واقعات کا جائزہ لیں تو یہ 6 سے 32 تک جا پہنچی ہے۔ پاکستان پریس فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق مئی 2017 سے اپریل 2018 تک صحافیوں پر حملوں کے 157 واقعات ریکارڈ کیے گئے جن میں تشدد، اغوا اور قتل جیسے واقعات شامل ہیں جب کہ 2018 میں 58 صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا۔

حالیہ دور صحافت میں میڈیا چینلز کم وبیش عوامی مسائل کی نشاندہی کرنے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن جو صحافی جان جوکھوں میں ڈال کر کوئی رپورٹ حاصل کرلیتا ہے تو ادارے اس میں کسی قسم کی دلچسپی ہی ظاہر نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ صحافی بھی اب ایسی خبروں کی کھوج کم ہی لگاتے ہیں کیوں کہ ایسا کرنے سے انہیں جان سے مارنے تک کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی صحافی کراچی میں ٹرانسپورٹ کے خلاف کوئی رپورٹ دینا چاہے تو اسے ٹرانسپورٹ مافیا کی جانب سے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے جیسے کے ماضی میں جیو نیوز کے رپورٹر ولی خان بابر کو مافیا کے خلاف خبر دینے پر نشانہ بنایا گیا۔

13 جنوری 2011 کو جیو نیوز سے منسلک صحافی ولی خان بابر کو کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں نشانہ بنایا گیا تھا، ولی خان بابر کراچی میں جرائم اور عسکریت پسندی کے حوالے سے رپورٹنگ کیا کرتے تھے اور انہیں قتل بھی مافیا کے خلاف خبر دینے کی پاداش میں کیا گیا تھا۔ جس کے بعد ان کے اہل خانہ کی جانب سے کیس کیا گیا اور اس دوران کیس سے وابستہ گواہان سمیت 5 افراد کو مزید قتل کیا گیا لیکن اس کے باوجود ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا تھا اور عدالت کی جانب سے انہیں سزائیں بھی سنائی گئیں لیکن اب تک ان سزاؤں پر پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کے مطابق پاکستان ان 14 ممالک کی فہرست میں 9ویں نمبر پر ہے جہاں صحافیوں کے قاتل نہیں ملتے، اگر مل بھی جائے تو وہ بچ نکلتے ہیں۔ پی پی ایف کے ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں اب تک صرف 5 کیسز کی تحقیقات مکمل ہوئیں اور ملزمان کو گرفتار کیا گیا اور انہیں عدالتوں کی جانب سے مجرم قرار دیا جاچکا ہے جن میں 2002 میں وال اسٹریٹ جنرل کے رپورٹر ڈینئل پرل، جیو کے رپورٹر ولی خان بابر، خبرون کے رپورٹر نثار احمد سولنگی، روئل ٹی وی کے رپورٹر عبدالرزاق جاورا اور ڈیلی کرک ٹائمز کے رپورٹر ایوب خان خٹک شامل ہیں۔

ولی خان بابر کیس کے حوالے سے میں نے ایک سینئر صحافی سے بات کی تو انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مجھے بتایا کہ ولی خان بابر کیس کے حوالے سے اب کسی سے کچھ چھپا نہیں رہا سب جانتے ہیں کہ کن لوگوں نے اسے نشانہ بنایا تاہم اس وقت چینل کی جانب سے کھل کر اپنے صحافی کو سپورٹ نہ کرنے کی وجہ سے بھی سب واقف ہیں کہ اس وقت وہ پارٹی کتنی مضبوط تھی اور کیا کچھ کرسکتی تھی لہذا اس میڈیا ہاؤس نے کھل کر اس کیس میں ان کے اہل خانہ کی مدد نہیں کی۔ ان سے جب میں نے پوچھا کہ جب کوئی خبر ہاتھ لگتی ہے تو اس میں رسک فیکٹر کیسے نکالا جاتا ہے، جس پر انہوں نے مجھے کہا کہ چونکہ ولی خان بابر جس کیس کو فالو کررہے تھے وہ اس خبر کو بریک کرچکے تھے لیکن یقینی طور پر انہوں نے کسی نہ کسی سے تذکرہ کیا ہوگا اور یہی ہر سمجھدار صحافی کسی گروپ کے خلاف خبر دینے سے پہلے کرتا ہے ورنہ وہ خبر کو دیگر طریقوں سے دے دیتا ہے۔

اس حوالے سے ہم نے شہید صحافی ولی خان بابر کے بھائی مرتضیٰ سے بھی بات کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا نمبر مسلسل بند آرہا تھا۔

شہر قائد میں مافیا کے علاوہ رہی سہی کسر عوامی تنظیمیں پوری کرلیتی ہیں جن میں مذہبی تنظیمیں بھی شامل ہیں جو کبھی کبھار براہ راست کسی بھی ایونٹ کی کوریج یا خبر دینے کی صورت میں ایکشن میں آتی ہے اور ان صحافیوں کو دھمکاتی ہیں بلکہ بیشتر مقامات پر انہیں تشدد کا نشانہ بنتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے، اکثر مختلف تنظیمیں اپنے خلاف خبر منظر عام پر آنے کے بعد فوراً طیش میں آجاتی ہیں ان کے کارکنان کی جانب سے بات گالم گلوج سے شروع ہوکر تشدد تک پہنچ جاتی ہے جس کی بہترین مثال 25 نومبر 2017 کو کراچی میں مذہبی جماعت ’تحریک لبیک ‘ کی جانب سے صحافیوں پر تشدد سے ملتی ہے۔

اسلام آباد اور راولپنڈی کو ملانے والے فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت  ‘تحریک لبیک’ نے 20 دن سے زائد دھرنا دیا اور شرکا سابق وزیرقانون زاہد حامد کے استعفے پر بضد تھے، حکومت کی جانب سے مذہبی جماعت سے مذاکرات میں مسلسل ناکامی کے بعد آخرکار حکومت نے عدالت کے حکم پر آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا جس کے لیے حکومت نے امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے وزارت داخلہ کی درخواست پر آئین کے آرٹیکل 245، انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشنز 5-4 اور تعزیرات پاکستان کے سیکشن 131 اے کے تحت اسلام آباد میں فوج بھی طلب کرلی تھی جب کہ پیمرا نے حکومتی حکم پر پہلے ٹی وی چینلز کو براہ راست نشریات روکنے کی ہدایت دی اور پھر نشریات مکمل طور پر بند کردی گئیں، بعد ازاں سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹٰیوب کو بھی بند کردیا گیا تاکہ پولیس کریک ڈاؤن کو نہ دکھایا جاسکے۔ مظاہرین نے پولیس آپریشن کے باوجود ان کا مقابلہ کیا اور پولیس پارٹی پر پتھراو کرتے رہے، اس دوران مظاہرین کی جانب سے توڑ پھوڑ دیکھنے میں بھی آئی، آپریشن کے لیے وہاں موجود صحافیوں کو بھی نہ چھوڑا گیا، آپریشن کے دوران میڈیا چینلز کی 2 ڈی ایس این جیز کو بھی جلایا گیا اور اس دوران متعدد صحافیوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جب کہ اسی سلسلے میں ’تحریک لبیک ‘ کے کارکنان کی جانب سے کراچی میں بھی دھرنا دیا گیا اور یہاں بھی صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ کراچی میں جیو نیوز سے وابستہ طارق ابو الحسن اور طلحہ ہاشمی کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

پاکستان پریس فاؤنڈیشن کے ڈیٹا بیس میں موجود اس کیس کے حوالے سے جب میں نے طارق ابوالحسن سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے کیس کی تفصیلات کچھ یوں بتائیں، اس دن میں پہلے ایئرپورٹ کے قریب اور دیگر مقامات پر تحریک لبیک کے کارکنان اور پولیس کے درمیان آنکھ مچولی چلتی رہی اور خبریں آرہی تھیں کہ میڈیا کی جانب سے کوریج نشر نہ کرنے پر تحریک لبیک کے کارکنان میڈیا کے ساتھ بدتمیزی کررہے تھے جس کا غصہ وہ فیلڈ میں موجود صحافیوں پر نکال رہے تھے، جب مجھے نشانہ بنایا گیا تو اس وقت میں سہراب گوٹھ میں موجود تھا۔ ان سے میں نے پوچھا کہ جب آپ جانتے تھے کہ حالات ایسے ہیں اس کے باوجود آپ وہاں کوریج کے لیے کیوں گئے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہر صحافی پر ان کے میڈیا ہاؤسز کی جانب سے پریشر تھا اور وہ نشر نہیں کررہے تھے مگر ہم سے کوریج برابر کروارہے تھے، ہم نے دفتر میں موجود ذمہ دار کو بتایا بھی کہ ہم پر حملے ہورہے، اس کے باوجود ہمیں کہا گیا کہ آپ اپنا خیال رکھیں اور آپ سائیڈ پر رہ کر فوٹیج بنائیں، چونکہ میں اکیلا تھا اور اپنے موبائل سے ہی فوٹیج بنارہا تھا کہ اس دوران کچھ لوگ پیچھے سے آئے اور مجھ پر حملہ کیا ، تشدد کیا، فون وغیرہ بھی چھین لیا، بعد ازاں کچھ لوگوں کی مدد سے میری وہاں سے جان چھوٹی تو اپنے ڈرائیور کی مدد سے اسپتال گیا۔ ایف آئی آر سے متعلق انہوں نے بتایا کہ چونکہ یہ واقع کسی مخصوص صحافی کے ساتھ پیش نہیں آیا اس لیے کوئی قانونی کارروائی نہیں کی۔ ان سے جب میں نے سوال کیا کہ ایسی صورتحال میں پھر صحافی اپنا تحفظ کیسے کرتے ہیں اور کسی مافیا یا ادارے کے خلاف خبر دینے سے پہلے کیا حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں تو انہوں نے مجھے بتایا کہ احتجاج کی صورت میں ہماری کوشش ہوتی ہے کہ پولیس کے پیچھے رہ کر کوریج کریں، البتہ خبر روکنا ایک مشکل فیصلہ ہوتا ہے اس لیے جس خبر میں ہمیں رسک فیکٹر زیادہ دکھائی دیتا ہے وہ ہم براہ راست نہیں دیتے، بس کوشش کرتے ہیں کہ وہ خبر کسی طرح ریکارڈ پر آجائے، بعض اوکات انتظار کرتے ہیں، یا پھر کسی اور شہر سے خبر بریک کروادیتے ہیں اور کسی اور نام سے چلوادیتے ہیں جس سے خبر بھی نہیں رکتی اور خبر دینے والا بھی سامنے نہیں آتا۔

اس واقعے پر تحریک لبیک پاکستان کے رہنما اور رکن سندھ اسمبلی مفتی قاسم فخری نے ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں صرف یہی نہیں بلکہ دیگر مقامات پر بھی صحافیوں پر ہونے والے تشدد کی مذمت کرتا ہوں اور ایسے واقعات کو کوئی بھی سیاسی جماعت سپورٹ نہیں کرے گی اور ہم تو نبی کریم ﷺ کی تعلمات پر چلنے والے لوگ ہیں لہذا جن لوگوں نے یہ حرکت کی وہ ہمارے کارکن نہیں ہوسکتے کیوں کہ ہماری لیڈرشپ ایسا کوئی بھی پیغام نہیں دے سکتی اور نہ کسی ایسے واقعے کو سپورٹ کرتی ہے، ہم نے تو فیض آباد میں 7 لاکھ کے مجمعے کو پر امن طریقے سے منتشر کرکے ایک مثبت پیغام دیا کہ ہم پر امن لوگ ہیں۔ صحافیوں پر حملے سے متعلق جب میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ صحافت ایک عبادت ہے، جو حق بولنے کے لیے نکل رہا ہے وہ ایک عبادت ہے اور ایسی صورتحال میں اسلام ایسے شخص پر تشدد کرنے سے روکتا ہے اور ایسا شخص ہمارے لیے بھی قابل قدر اور قابل احترام ہے اور ان پر جو حملے ہوتے ہیں وہ چند نادانوں کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا بطور رکن صوبائی اسمبلی آپ نے کبھی اس مسئلے کو اجاگر کیا تو انہوں نے بتایا کہ بات صرف صحافیوں کے انصاف کی نہیں بلکہ پوری قوم کے ساتھ ہی کسی نہ کسی صورت میں ظلم ہورہا ہے، یہاں حکومت صرف اس شخص یا صحافی کو انصاف یا مدد فراہم کرتی ہے جس سے انہیں کوئی فائدہ پہنچے یا وہ ان کا قریبی ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔