زخمی شیر اور نادیدہ قوتیں

سلمان نثار شیخ  بدھ 3 جولائی 2019
سیاستدانوں کے حقیقی عزائم عوام کے سامنے تیزی سے آشکار ہوتے جارہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

سیاستدانوں کے حقیقی عزائم عوام کے سامنے تیزی سے آشکار ہوتے جارہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

عمل اور ردعمل لازم و ملزوم ہیں۔ سیاستدانوں کی پچھلی نسل نے جبری برطرفیوں، اقتدار پر قبضوں، قید، قلعوں، نفسیاتی و جسمانی تشدد، جلاوطنیوں، مداخلتوں، دھونس، دھمکیوں، چھپن چھپائی اور شدید دباؤ کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا۔ چنانچہ ان کی موجودہ نسل شدید ردعمل ظاہر کررہی ہے اور اپنے بزرگوں کے برعکس مخالف قوتوں سے سرد نہیں بلکہ اعلانیہ جنگ لڑرہی ہے۔

گو اس کے نتائج بھی کم و بیش وہی برآمد ہورہے ہیں جو پچھلی سیاسی نسل اور مخالف قوتوں کے مابین ہوتے رہنے والے تصادم کے ہوا کرتے تھے۔ یعنی شکست اہل سیاست ہی کا مقدر ٹھہرتی تھی۔ جیسا کہ ہم نے لیگی دور میں مریم نواز کی زیرقیادت شروع ہونے والی کھلی جنگ میں دیکھا کہ نواز شریف نے اپنی ناتجربہ کار بیٹی اور اس کے ساتھی نوجوانوں کے زیراثر جی ٹی روڈ پر آ کر چیخ چیخ کر پوچھا کہ ’مجھے کیوں نکالا؟‘ مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ چیخ کر بھی نتیجہ وہی نکلا جو خاموش رہنے سے نکلا کرتا تھا۔

لیکن برسوں سے جاری اس سرد جنگ کے اعلانیہ جنگ میں تبدیل ہوجانے سے معاشرے پر جو اثرات مرتب ہورہے ہیں، وہ بھی اظہر من الشمس ہیں۔ لوگوں کو اب ایسی بہت سی چیزیں بالکل صاف دکھائی دینے لگی ہیں جو پہلے دھندلکے میں تھیں۔ تصویر کے دونوں رخ عوام کے سامنے تیزی سے آشکار ہوتے جارہے ہیں۔ لوگ جاننے لگے ہیں کہ ان کے سیاسی قائدین ہمیشہ نہیں، بلکہ صرف اس وقت حق کے ساتھ ہوتے ہیں جب ان کے اپنے مفادات کو زِک پہنچ رہی ہوتی ہے۔ آج بھی متحدہ اپوزیشن کی بڑی جماعتیں باہم شیر و شکر ہیں، کیونکہ ان کے مفادات مشترک ہیں۔ یعنی صرف اور صرف اپنی مخالف جماعت کی حکومت ختم کرکے اقتدار حاصل کرنا۔ لیکن ان اپوزیشن جماعتوں میں سے کوئی بھی لاپتہ افراد کی بازیابی سے لے کر بلوچستان کے شہریوں کو ان کے تمام حقوق کی فراہمی تک، اختر مینگل کے مطالبات پورے کروانے کےلیے ان کا ساتھ دینے پر تیار نہیں۔

چنانچہ ووٹرز کے سنجیدہ حلقوں کےلیے اب یہ جاننا مشکل نہیں رہا کہ اپوزیشن کے اتحاد کا مقصد حصول اقتدار ہے، نہ کہ عوامی مسائل کے حل کےلیے کوششیں کرنا۔ لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے سنجیدہ یا گہرے سیاسی شعور کے حامل ووٹرز کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

دوسری طرف موجودہ حکمرانوں کی ایک سالہ کارکردگی، وہ تمام اقدامات اٹھاتے چلے جانا کہ جنہیں یہ خود ماضی میں غلط اور سابقہ حکمرانوں کی ملک دشمن پالیسی قرار دیتے آئے ہیں اور پھر اکنامک ٹیم میں اچانک تبدیلی اور اس تبدیلی کے نتیجے میں پی ٹی آئی اور وزیراعظم سے غیرمتعلق اور مخفی طاقتوں سے قریبی تعلق رکھنے والے افراد کا اہم عہدوں پر متمکن ہوجانا، جیسے واقعات عوام پر دن بدن واضح کرتے جارہے ہیں کہ نادیدہ قوتوں کی جمہوری عمل میں مداخلت کا اصل مقصد یہ نہیں تھا کہ پرانے حکمران اب سیکیورٹی رسک بن چکے تھے یا ان کی پالیسیاں ملک کےلیے نقصان دہ تھیں۔ بلکہ ان کا اصل مقصد اپنی مرضی کے اور اپنی مرضی سے چلائے جاسکنے والے حکمرانوں کا تقرر تھا۔

انہیں اس بات سے چنداں غرض نہیں کہ ان کے لائے ہوئے لوگ اہل بھی ہیں یا نہیں، ڈلیور بھی کررہے ہیں یا نہیں۔ ان حالات میں ان آٹے میں نمک برابر لوگوں کو چھوڑ کر باقی عوام کی بڑی تعداد کا مریم نواز اور بلاول بھٹو جیسے چوٹ کھائے زخمی شیروں کے پیچھے کھڑے ہوجانا کوئی غیرمعمولی بات نہ ہوگی۔ بلاول نادیدہ قوتوں سے سرد جنگ میں اپنی والدہ اور ان کا پورا خاندان کھو چکے ہیں، جبکہ ان کے بوڑھے باپ کی تقریباً چوتھائی عمر جیل میں گزری ہے۔ ان کے پاس کھونے کو کچھ زیادہ نہیں۔ لیکن ’جئے بھٹو‘ کے نعرے لگانے والے لاکھوں لوگ آج بھی ان کے ساتھ ہیں۔

مریم کا مختصر سیاسی کیریئر یہ سمجھانے کےلیے کافی ہے کہ ان کے پاس بھٹو اور زرداری خاندان کی قوت برداشت کا عشر عشیر بھی نہیں۔ وہ خود قید اور جلاوطنی بھگت چکیں۔ الیکشن سے جبراً باہر کیے جانےکا صدمہ برداشت کرچکیں۔ باپ، چچا اور دیگر اہل خاندان کو درجنوں مقدمات میں سزائیں اور جیلیں کاٹتے دیکھ چکیں۔ اپنے والد کی 3 بار وزارت عظمیٰ سے برطرفی بھی انہیں یاد ہے (تاہم وہ یہ بات یکسر بھول چکیی ہیں کہ 3 میں سے پہلی دونوں بار ان کے والد کس طرح وزارت عظمیٰ تک پہنچے تھے)۔ آخری وقت میں والدہ سے دور ہونے اور نہ ثابت ہوسکنے والے جرم میں قید ہونے کا غم بھی وہ ابھی بھول نہیں سکیں۔ پھر ان کے والد بھی دوٹوک الفاظ میں اور بار بار کہہ چکے ہیں کہ نہ راجن پور سے آگے کوئی ضلع ہے اور نہ سپاہی سے چھوٹا کوئی عہدہ ہے، تو اب مجھے کہاں بھیجو گے؟ یوں مریم کے پاس بھی اب کھونے کو شاید کچھ زیادہ نہیں۔ البتہ ’مریم تیرے جاں نثار، بے شمار، بے شمار‘ کے نعرے لگانے والے لاکھوں لوگ آج بھی ان کے ساتھ ہیں۔ اور وہ تو اعلان کرچکی ہیں کہ ان کی اصل لڑائی حکومت سے نہیں بلکہ اسے لانے والوں سے ہے۔

ان حالات میں اگر کوئی تحریک شروع ہوتی ہے تو بہت کیچڑ اڑے گا۔ ایسے ایسے بے داغ لباس سیاہ ہونے کا خدشہ ہے کہ جن پر ماضی میں کبھی کوئی چھینٹ تک نہیں پہنچ پاتی تھی۔ بدلا ہوا سیاسی ماحول اور نوجوان سیاستدانوں کی بپھری ہوئی چال نادیدہ قوتوں کو بار بار دعوت فکر دے رہی ہے۔ ذرا سوچیں کہ بلاول سے پہلے کوئی اس دھڑلے سے کسی غدار کےلیے اس طرح آواز اٹھا سکتا تھا جیسے آج بلاول دو نئے غداروں کےلیے اٹھا رہے ہیں۔ نواز شریف بھی کسی دور میں کٹھ پتلی ہوا کرتے تھے، لیکن کیا ان کے مخالفین بھی کبھی انہیں اور ان کو لانے والوں کو یوں دھڑلے سے جلسوں اور ریلیوں میں اور ٹیلی ویژن پر بییٹھ کر کٹھ پتلی کہا کرتے تھے، جیسے آج مریم نواز عمران خان کو کہہ رہی ہیں؟

کوئی مانے یا نہ مانے وقت بدل رہا ہے۔ ان حالات میں نادیدہ قوتوں کے پاس صرف دو ہی آپشنز ہیں۔ ایک تو یہ کہ اپنے دائرہ اختیار میں رہیں اور باقی سب کام چھوڑ کر لاتعلق ہوجائیں۔ دوسرا یہ کہ عوام میں اپنی رہی سہی ساکھ کھونے اور قومی سیاست میں ایک فریق کے طور پر ابھرنے کے نتیجے میں نہ چپ کرائی جاسکنے والی زبانوں اور نہ تھم سکنے والی کھلی تنقید اور بری طرح ایکسپوز کردینے والے سوالوں کا جواب دینے کےلیے تیار ہوجائیں۔ آخر آپ کس کس کو کہاں کہاں اور کب تک چُپ کرواتے رہیں گے؟ اور ناکام ہونے پر کس کس کو غدار، ایجنٹ وغیرہ قرار دیتے رہیں گے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سلمان نثار شیخ

سلمان نثار شیخ

بلاگر قلمکار، صحافی اور محقق ہیں۔ وہ اردو اور اقبالیات کی کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔