دہشت گردوں سے پہلے مذاکرات کئے جائیں نہ ماننے پر طاقت استعمال کی جائے، اے پی سی اعلامیہ

ویب ڈیسک  پير 9 ستمبر 2013
دہشتگردی کے نتیجے میں ہمارے ہزاروں فوجی جوان، پولیس اہلکار اور سویلین جان بحق ہو چکے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

دہشتگردی کے نتیجے میں ہمارے ہزاروں فوجی جوان، پولیس اہلکار اور سویلین جان بحق ہو چکے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

اسلام آباد: دہشت گردی کیخلاف متفقہ حکمت عملی طے کرنے کیلئے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی زیرصدارت آل پارٹیز کانفرنس میں کے مشترکہ اعلامیے کی منظوری دے دی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردوں سے پہلے مذاکرات کئے جائیں نہ ماننے پر طاقت استعمال کی جائے۔ 

وزیر اعظم ہاؤس اسلام آباد میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ، گورنر خیبر پختونخوا انجینئر شوکت اللہ، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، وزیر اطلاعات پرویز رشید، وزیر خزانہ اسحق ڈار، قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرینز کے سربراہ مخدوم امین فہیم، تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان، جے یو آئی (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان، ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار، مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر صبغت اللہ راشدی ، جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ ، پختوانخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، اے این پی کے رہنما حاجی عدیل، بی این پی(مینگل) کے سربراہ اختر مینگل، مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت ، قومی وطن پارٹی کے آفتاب احمد خان شیرپاؤ اور فاٹا کے نمائندے شریک ہوئے۔

سیاسی اور عسکری قیادت نے 6 گھنٹے ایک چھت تلے گزارنے کے بعد 8 نکات پر اتفاق کرتے ہوئے کل جماعتی کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ جاری کیا۔

پہلا نکتہ میں کہا گیا کہ پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائےگا اور قومی مفادات اور سلامتی کولاحق چیلنجز سے نمٹنے کے لئے مسلح افواج پربھرپوراعتماد اور ان کی حمایت کی جائے گی۔

دوسرا نکتہ میں کہا گیا ہے کہ غیرقانونی اور غیراخلاقی ڈرون حملوں میں بچوں اورخواتین سمیت ہزاروں بے گناہ افراد لقمہ اجل بنے۔اورافغان جنگ کی بدولت انفرااسٹریکچرکی تباہی سے معیشت کو نقصان پہنچا، بدقسمتی سے بین الاقوامی برادری نے پاکستان کی قربانیوں کو نہیں سراہا۔ اسی نقطے میں شہدا کےبہادر خاندانوں اوربے گھرافراد کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے ہرممکنہ تعاون فراہم کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔

مسودے کے تیسرے نکتہ میں حکومت پاکستان کی جانب سے شدید احتجاج کےباوجود امریکا کی جانب سے قبائلی علاقوں میں متواتر ڈرون حملوں پر اظہار تشویش کیا گیا اور کہا گیا کہ ڈرون حملے نہ صرف پاکستان کی خودمختاری اورآزادی کی خلاف ورزی ہیں بلکہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمےسے متعلق کوششوں کو نقصان پہنچارہے ہیں ۔وفاقی حکومت ڈرون حملوں کامعاملہ اقوام متحدہ میں لے جانے کی ضرورت پر غور کرے اور پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ اپنے مفاد میں لڑے گا جب کہ امریکا سمیت کسی دوسرے ملک کی رہنمائی نہیں لی جائے گی۔

چوتھا نکتہ ملک میں امن و امان کے قیام کے حوالے سے شامل کیا گیا ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ  انتہاپسندوں اورقبائلیوں سے مذاکرات کیے جائیں۔ اسی نقطے میں فروری میں ہونے والی کل جماعتی کانفرنس کے تمام نکات کی توثیق بھی کی گئی۔

قرارداد کے پانچویں نکتہ میں کراچی میں عوام کے جان و مال کو لاحق خطرات پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور۔وفاقی حکومت کی جانب سے اقدامات کی تعریف بھی کی گئی۔ کانفرنس میں شریف تمام جماعتوں نے وفاقی اور صوبائی حکومت سے ٹھوس اقدامات کرنے پر زور اور شہر میں امن و امان کو یقینی بنانے کے لئے صوبائی حکومت پرمکمل اعتماد اور حمایت  کا اعلان کیا۔

چھٹانکتہ میں بھٹکے بلوچوں کوقومی دھارے میں لانے کے لئےوزیراعلی بلوچستان اورصوبائی حکومت کو ملک کے اندر اور باہر موجود بلوچوں سے مذاکرات کا مکمل اختیارسونپ دیا گیاجب کہ ساتویں نکتہ میں افغانستان میں قیام امن کے لئے امن مذاکرات کی حمایت اور پرامن، مضبوط اور مستحکم افغانستان کو پاکستان کی ضرورت قراردیا گیا۔

اعلامیے کے آٹھویں اور آخری نقطہ میں امن کےلئےمذاکرات کے حوالےسےوزیراعظم نوازشریف  کی کوششوں پر مکمل اعتماد کااظہارکیاگیا۔اوروفاقی حکومت سے کہا گیا کہ وہ اس مقصدکےلئےتمام سٹیک ہولڈرزسےبات چیت شروع کرے۔

قبل ازیں کانفرنس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کی سعادت مولانا فضل الرحمان نے حاصل کی۔ جس کے بعد وزیر اعظم نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہاکہ آج کی اے پی سی کا موضوع ایک قومی موضوع ہے اور اسکا تعلق پاکستان  کے حال اور مستقبل سے ہے ، پاکستان اس وقت دہشتگردی کی گرفت میں ہے اور گھمبیر مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ اگر ہم متحد نہ ہوئے تو اس سے پاکستان کا نقصان ہوگا ۔

وزیر اعظم کے خطاب کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی میجر جنرل ظہیر الاسلام نے شرکا کو ملکی صورت حال اور اس سے متعلقہ امور پر طویل بریفنگ دی، جس کے بعدآرمی چیف نےبھی مختلف امورپر اےپی سی  کے شرکا کواعتمادمیں لیا، کانفرنس کے شرکا کا آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے سوالات کا سلسلہ جاری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔