کسی عام لڑکی سے محبت کرنا چاہتا ہوں، شاہد کپور

اشرف میمن  منگل 10 ستمبر 2013
اب اگر محبت ہوئی تو تاحیات ہوگی، بچپن خانہ بدوشوں کی طرح گذارا، شاہد کپور  فوٹو : فائل

اب اگر محبت ہوئی تو تاحیات ہوگی، بچپن خانہ بدوشوں کی طرح گذارا، شاہد کپور فوٹو : فائل

اداکار شاہد کپور کا شمار بولی وڈ کے ان اداکاروں میں ہوتا ہے جن کی پہلی فلم ہی انہیں راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیتی ہے۔ اور شاہد کپور کا شمار بھی ان ہی اداکاروں میں ہوتا ہے۔

عام زندگی میں سادگی پسند شاہد کپور کی زندگی بہت سخت مگر جذباتی طور پر بہت مظبوط ہے۔ والدین کے درمیان طلاق نے ان سے بچپن چھین لیا تاہم اداکاری نے ان کی زندگی کی درست سمت کا تعین کیا۔ اپنی نجی زندگی کو کبھی بھی کسی کے سامنے ظاہر نہ کرنے والے شاہد کپور نے گزشتہ دنوںایک انٹرویومیں انہوں نے اپنی زندگی کے کچھ خفیہ گوشوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے یہ انٹرویو پیش خدمت ہے۔

٭اپنے بچپن کے بارے میں کچھ بتائیں؟
شاہد کپور:۔ والد صاحب ’’نیشنل ڈرامہ اسکول‘‘ اور والدہ پروفشنل کتھک ڈانسر اور’’برجو مہاراج‘‘ کی شاگرد تھیں۔ جب میرے والدین میں طلاق ہوئی اس وقت میری عمر صرف تین سال تھی، اس کے بعد والد اداکار بننے کے لیے ممبئی چلے گئے اور میں والدہ کے ساتھ نانا کے گھر دہلی منتقل ہوگیا۔ میرے نانا اور نانی دونوں پیشے کے لحاظ سے صحافی اور ایک روسی جریدے’’Sputnik‘‘ کے لیے کام کرتے تھے۔ میرا زیادہ تر وقت نانا کے ساتھ ہی گزرتا تھا، اورمجھے روزانہ اسکول سے لانے لے جانے اور والد صاحب کے خطوط پڑھ کر سنانا بھی ان کی ہی ذمہ داری تھی۔ مجھے اب تک وہ دن یاد ہیں جب میری والدہ اسٹیج پر کتھک رقص کرتی تھیں اور میں موسیقاروں کے ساتھ اگلی نشست میں بیٹھ کر بہت انہماک سے انہیں دیکھتا رہتا تھا۔

برجو مہاراج مجھے اپنی گود میں بٹھا کر بروس لی اور جیکی چن کی فلمیں دکھایا کرتے تھے۔ والد صاحب سال میںایک دفعہ صرف میری سالگرہ پر ملنے کے لیے آتے تھے کیوں کہ معاشی تنگی انہیں زیادہ سفر کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ سالگرہ کا اگلا دن ہم دونوں کے لیے بہت تکلیف دہ ہوتا تھا کیوں کہ والد صاحب کو نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے روتا چھوڑ کر واپس ممبئی جانا پڑتا تھا۔ دس سال کی عمر میں والدہ کے ساتھ ممبئی منتقل ہوگیا۔ جہاں انہوں نے ٹی وی میں کام کرنا شروع کردیا۔

اس تمام عرصے میں میری زندگی خانہ بدوشوں کی طرح گزری جس نے میرے مزاج کو بہت جا رحانہ کردیا تھا۔ اور یہی وجہ ہے کہ میرے دوستوں کی فہرست میں اسکول اور کالج کے دوست ہی نہیں ہیں۔

٭ فلموں میں آنا کیسے ہوا؟
شاہد کپور:۔ اداکار بننا میرا بہت پرانا خواب تھا لیکن مجھے یہ نہیں پتا تھا کہ آغاز کہاں سے کرنا ہے۔ رقص کی صلا حیت والدہ کی جانب سے ورثے میں ملی تھی،جسے مزید نکھارنے کے لیے ’’شیامیک دوار‘‘ کی اکیڈمی ’’Summer Funk‘‘ سے رقص کی تربیت حاصل کرنا شروع کردی۔ شیامک نے رقص میں میری مہارت دیکھ کر ’’بیگنر ‘‘بیچ سے’’انٹرمیڈیٹ‘‘ بیچ میں بھیج دیا تھا۔ سمر سیشن کے اختتام پر ’’ نہرو آڈیٹوریم‘‘ میں پرفارم کر تے دیکھ کر انہوں نے مجھے’’شہر کے بہترین ڈانسر‘‘ کے طور پر منتخب کرلیا تھا۔ بعد میںان کے ساتھ پروفیشنل ڈانسر بن گیا اور ان سے ہی پروفیشنل ازم سیکھا، ہم پیسے کمانے کے لیے دن میں پندرہ ،پندرہ گھنٹے رقص کرتے تھے۔

میں نے چار سال کی سخت محنت کے بعد اپنی کمائی سے بائیک خریدی تھی۔ ماڈلنگ میں بھی اتفاقاً آنا ہوا، ایک دن میں اپنے دوست کے ساتھ پیپسی کے اشتہار کے لیے ’’پراہ لد کاکڑ‘‘ کے دفتر میں آ ڈ یشن دینے گیا۔ وہ آڈیشن کے لیے اسٹوڈیومیں چلا گیا اور میں استقبالیے پر اس کا انتیظار کر رہا تھا اسی اثنا میں پراہ لد کے ایک اسسٹنٹ نے مجھے آڈیشن دینے کے لیے کہا اور میں نے ہامی بھرلی، اور خوش قسمتی سے منتخب بھی ہوگیا۔ شاہ رخ خان، رانی مکھرجی اور کاجول کے ساتھ اس اشتہار میں کام کرنے کے بعد مجھے مزید اشتہاری فلموں میں کام کرنا کا موقع ملا لیکن ماڈل میری منزل نہیں تھی میں بڑی اسکرین پر چھانا چاہتا تھا اور اسی سلسلے میں رمیش ترانی سے ان کے دفتر میں ملاقات ہوئی۔

رمیش جی نے مجھے غور سے دیکھا اور کہا ’’تو اداکار بن سکتا لیکن دو سال انتیظار کر‘‘ان کے لیے دو سال کہنا بہت آسان تھا لیکن میرے لیے یہ عرصہ بہت طویل تھا مجھے اپنے اور اپنے گھر والوں کے بہت کچھ کرنا تھا، لیکن انہوں ایک سال بعد ہی اپنی فلم ’’عشق وشق ‘‘میںمجھے ’’ہیرو‘‘ لے لیا۔ اس فلم کی کامیابی سے میرا مستقبل وابستہ تھا اور ریلیز سے پہلے میری نیندیں اڑ گئیں تھیں۔ لیکن یہ فلم باکس آفس پر بہت کامیاب رہی اور میرے لیے بولی وڈ فلم نگری کے دروازے کھل گئے۔

٭آپ کے اکثرساتھی اداکاراؤں سے افیئرز چلتے رہتے ہیں، آج کل آپ کا ریلیشن شپ اسٹیٹس کیا ہے ؟
شاہد کپور:۔ گزشتہ دوسالوں سے میں ’’سنگل‘‘ ہونے کے مزے لوٹ رہا ہوں کیوںکہ جب آپ کی کوئی’’گرل فرینڈ‘‘ نہ ہو توآپ کسی کو جواب دہ نہیں ہوتے، اپنی مرضی سے جہاں دل چاہے جا سکتے ہیں ،جہاں دل چاہے گھوم سکتے ہیں، اورمیں ان تمام چیزوں سے لطف اندوز ہو رہا ہوں۔ لیکن اگر اب میں کسی کی محبت میں گرفتار ہو ا تویہ تا حیات محبت ہوگی کیوںکہ میں نہیں سمجھتا کہ میں اب دوبارہ سالوں تک کسی سے محبت کے بعد بریک اپ کا متحمل ہوسکتا ہوں۔ ویسے بھی میں اداکاراؤں کے ساتھ ’’ڈیٹنگ‘‘ کر کر کے تھک گیا ہو اب مجھے کسی عام لڑکی کے ساتھ ڈیٹنگ کرنی چاہیے۔

٭ایک بڑااداکار ہونے کے باوجود آپ نے فلم’’موسم‘‘ کو دوسال دیے، فلم کی ناکامی سے کوئی سبق سیکھا؟
شاہد کپور:۔ میں ہمیشہ اپنے والد صاحب سے کہتا تھا کہ ہمیں ساتھ مل کر کسی پروجیکٹ پر کام کرنا چاہیے، اور میرے بے حد اصرار پر ہی وہ فلم’’موسم‘‘ کے اسکرپٹ اور ہدایت کاری پر راضی ہوئے تھے۔ یہ ہمارا ’’ڈریم پروجیکٹ‘‘ اور ایک فیملی کی حیثیت سے ساتھ کام کرنے کے لیے سنہری موقع تھا۔ والد صاحب اور میں نے ایک دوسرے سے وعدہ کیا تھا کہ جب تک ’’موسم‘‘ کی عکس بندی مکمل نہیں ہوگی اس وقت تک ہم کوئی اور کام نہیں کریں گے۔ اس فلم کو چھ مہینے میں مکمل ہونا تھا لیکن کچھ چیزیں ہمارے قابو سے باہر ہوگئیں اور فلم مکمل ہونے میں دو سال لگ گئے۔ اس فلم کی ناکامی کے ساتھ ساتھ میں نے اپنی زندگی کے دو اہم سال بھی گنوا دیے لیکن اب میں کبھی بھی ایک فلم کو دو سال نہیں دوں گا۔

٭زندگی میں سب سے زیادہ انسیت کس رشتے سے ہے؟
شاہد کپور:۔ مجھے اپنے والد اور سوتیلے بھائی ایشان سے بہت انسیت ہے،مجھے اپنی والدہ سے زیادہ محبت والد سے ہے، کیوں کہ ہم دونوں میں کئی باتیں مشترک ہیں، وہ بہت سادہ دل انسان ہیں۔ انہیں مجھ سے بس ایک شکایت ہے کہ میں روزانہ فون کیوں نہیں کرتا۔ جب کہ ایشان نے ہمیشہ بڑے بھائی کی طرح میر ی عزت کی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔