ہماری معاشی دوڑ

محمد رضا الصمد  جمعرات 4 جولائی 2019
کسی بھی چیز میں سرمایہ کاری کرکےنفع کمایا جاسکتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کسی بھی چیز میں سرمایہ کاری کرکےنفع کمایا جاسکتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اگر آپ کو کراچی سے خنجراب جانا ہو تو آپ کیسے جائیں گے؟ پیدل، گاڑی سے، ٹرین سے یا جہاز سے؟ اگر صرف منزل پر پہنچنا مقصود ہے تو اپنی گاڑی سے جانا سب سے بہتر ہے، کیونکہ یہ سب سے کم خرچ ہے لیکن اس میں پریشانی بڑھ جائے گی اور وقت بھی زیادہ لگے گا۔

اگر کم وقت میں منزل پر پہنچنا مقصود ہے تو جہاز سب سے بہتر ہے، لیکن اخراجات بڑھ جائیں گے۔ یعنی وقت اور لاگت (Time and Cost) کا آپس میں ایک ربط ہے۔ جب ایک کو بڑھایا جائے تو دوسرا کم ہوجائے گا۔ اگر ذرا غور کریں تو اس سفر پر جانے کے زمینی حقائق یہ ہیں کہ اس میں آپ کہیں ٹرین، کہیں گاڑی اور کہیں جہاز کا استعمال کریں گے۔ اور کہیں دلفریب نظاروں سے محظوظ ہونے کےلیے پیدل بھی چلیں گے۔ اس طرح سیر وتفریح کا لطف بھی دوبالا ہوجائے گا، لاگت بھی مناسب آئے گی اور وقت بھی کم صرف ہوگا۔ اور آپ کم وقت میں ایک مناسب خرچے سے بہت سی خوشگوار یادیں بنالیں گے۔

 

سرمایہ کاری ایک سفر ہے

سرمایہ کاری بھی ایک ایسے ہی سفر کی طرح ہے، جہاں سرمایہ کار مختلف investment vehicle استعمال کرکے اپنی سرمایہ کاری کو مختلف مقامات (financial position) تک پہنچاتا ہے۔ وہ کبھی کم رسک میں پیسہ لگاتا ہے، کبھی زیادہ رسک میں۔ کم رسک میں کم نفع ملتا ہے جبکہ زیادہ رسک میں زیادہ۔ اس کا اصل مقصد مقررہ وقت میں سرمائے کو تعین شدہ منزل پر پہنچانا ہوتا ہے۔

کوئی بھی ایسی چیز (Product) جس میں سرمایہ کاری کرکےنفع کمایا جاسکتا ہو، وہ investment vehicle کہلاتی ہے۔ یعنی ایک ایسی سواری جس سے آپ اپنے اثاثے کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک نفع کما کر منتقل کرسکتے ہوں۔ ہمارے ایک استاد کہا کرتے تھے، اکثر لوگ پیسے کما کر غیر ضروری چیزوں پر خرچ کردیتے ہیں اور جب ضرورت کا وقت آتا ہے تو کہتے ہیں کہ مہنگائی ہوگئی ہے۔ دراصل ہماری پریشانی کا اصل سبب، وقت سے پہلے اور ضرورت سے زائد حاصل کرنے کی خواہش ہے۔

 

اصل دولت بزنس سسٹم میں ہے

اعلیٰ تعلیم کی ایک کلاس کے دوران استاد نے جماعت سے پوچھا، ڈگری حاصل کرکے کون کون سرٹیفیکیشن کرے گا؟

ایک طالب علم نے جواباً سوال کیا ’’سب کام میں خود ہی کروں گا تو نوکری پر کس کو رکھوں گا؟‘‘

صحیح بات ہے۔ اگر اسٹیو جابز، مارک کیوبن، ایلون مسک، جیک ما، پیٹر تھیل، لیری یلسن، رچرڈ برنسن، بل گیٹس وغیرہ بھی ایک سسٹم بنانے کے بجائے روایتی تعلیم کو ہی ترجیح دیتے تو وہ آج بھی سرٹیفیکیشن ہی کررہے ہوتے، کیونکہ آج وہ سب ایک چوہا دوڑ کا حصہ بن چکے ہوتے۔

ایک بزنس سسٹم میں مختلف ٹیمیں ہوتی ہیں، جو ایک بزنس کو چلانے کےلیے مل کر کام کرتی ہیں۔ جیسے سیلز، مارکیٹنگ، ایچ آر، آپریشنز، فائنانس وغیرہ۔ سسٹم بنانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ کچھ سال کی محنت کے بعد جب آپ کا قائم کردہ سسٹم مضبوط ہوجائے تو آپ اطمینان سے اس سسٹم سے باہر آکر اپنی Passive Income کا پھل کھا سکتے ہیں۔

اسے آسان الفاظ میں یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک ہی سودا پرچون کی دکان والا بھی بیچتا ہے اور ہائپر مارٹ بھی۔ مگر فرق یہ ہے کہ جب دکان کا مالک کمزور ہوجائے گا تو دکان بند ہوجائے گی، جبکہ مارٹ بند نہیں ہوگا۔ کیونکہ مارٹ میں ایک بزنس سسٹم کام کررہا ہے۔ جب تک سسٹم کمزور نہیں ہوگا مارٹ کام کرتا رہے گا۔

 

ترسیلات زر اور ہماری دوڑ

گریجویشن کے بعد اگر تھوڑی سی محنت کرکے ہم سرمایہ کاری کرنا سیکھ لیں تو چند سال میں زائد آمدن سے 5 لاکھ سے 15 لاکھ کمانا اسی پاکستان میں ممکن ہے۔ لیکن ہم نے پاکستان کو برا بھلا کہہ کر ترسیلات زر (remittances) پر زندگی جینا سیکھ لی ہے۔ یہ مشاہدے کی بات ہے کہ جب کوئی شخص دوسری سرزمین پر جا کر پرامن ماحول میں کام کرتا ہے تو وہ ذہنی طور پر زیادہ ذمے داری اٹھانے کا اہل ہوجاتا ہے، اور آخرکار معاشی تنگی سے نجات حاصل کرلیتا ہے۔ جیسے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے مکہ چھوڑ کر مدینہ ہجرت کی تو سوق مدینہ سے چھوٹے سے کاروبار کا آغاز کیا اور امیرالصحابہ بن گئے۔ اینڈریو کارنیج نے اسکاٹ لینڈ سے امریکا ہجرت کی اور اسٹیل انڈسٹری کا بادشاہ بن گیا۔ ایلون مسک نے ساؤتھ افریقہ سے امریکا ہجرت کی اور ایک عظیم Entrepreneur کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آیا۔

ایسے ہی کچھ بڑے لوگ ہیں جو ہجرت کرکے پاکستان آئے اور انھوں نے اپنی زندگی سے پاکستان کو بہت کچھ دیا۔ جیسے صادقین احمد نقوی (آرٹسٹ)، ڈاکٹر روتھ فاؤ، ڈاکٹر محمد علی شاہ (سرجن)، ڈاکٹر ادیب حسن رضوی (سرجن)، ڈاکٹر محبوب الحق (اکانومسٹ)، ڈاکٹر ریاض الدین (سائنسدان)، ڈاکٹر عبدالقدیر خان (سائنسدان)، سلیم الزماں صدیقی (کیمیادان)، ڈاکٹر عطاالرحمن (کیمیادان)، احمد داؤد (صنعت کار)، آغا حسن عابدی (بزنس مین)، محمد شفیع عثمانی (اسکالر)، شاہ احمد نورانی (اسکالر)، ڈاکٹر اسرار احمد (اسکالر)، اشفاق احمد (مصنف)، حکیم محمد سعید، عبدالستارایدھی اور بھی بہت سے نام سرفہرست ہیں۔

ہمیں آج بھی ایسے افراد کی ضرورت ہے، جو محنتی ہوں، اہل علم ہوں اور جن کا معاشی قبلہ پاکستان کی جانب ہو۔ پاکستان کی معاشرتی صورتحال یہ ہے کہ کم آمدنی والے تو بیرون ملک جاہی رہے ہیں، ماہانہ لاکھوں کی تنخواہ لینے والے بھی بیرون ملک جانے کی دوڑ میں شامل ہیں۔ اگر ہم اپنی جوانی کو پاکستان سے باہر بھاگنے کے چکر میں صرف کرنے کے بجائے، پاکستان میں ہی رہتے ہوئے اپنا بزنس سسٹم قائم کرنے پر لگائیں تو زیادہ بہتری آسکتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد رضا الصمد

محمد رضا الصمد

بلاگر نے جامعہ ہمدرد کراچی سے کمپیوٹر سائنس میں گریجویشن کی ہے اور کراچی انسٹیٹیوٹ آف اکنامکس اینڈ ٹیکنالوجی سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کیا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ایک نجی کمپنی میں آٹی کنسلٹنٹ کے طور پر منسلک ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔